فوج میں گزرے روز وشب/7(ب)-ڈاکٹر مجاہد مرزا

ایک قہقہے کے دوران میرے ساتھ بیٹھے ہوئے میجر عالم نے مجھے چپکے سے کہا تھا ’’ ہنسو!‘‘۔ میں نے بھی ہولے سے پوچھا تھا ،’’ کیوں سر؟‘‘ انہوں نے سرگوشی میں جواب دیا تھا،’’ جب سینئر ہنسے تو سب کو ہنسنا چاہیے‘‘۔ کھانے کے تھوڑی دیر بعد محفل برخواست ہوئی تھی اور میں باقی افسروں کے ساتھ رہائشی کمروں کی طرف چل دیا تھا۔ کمرے میں پہنچ کر وردی سے گلوخلاصی کرائی تھی۔ میجر عالم کو کہا تھا،’’ دیکھی جائے گی سرکون کس کو کیا سکھاتا ہے‘‘۔ میجر شاہد نے کہا تھا،’’ یار ڈاکٹر تھکا ہوا آیا ہے اِسے تنگ نہ کرو۔‘‘ تھوڑی دیر اِدھر اُدھر کی باتیں ہوئی تھیں اور میں اپنے کمرے میں سونے چلا گیا تھا۔

صبح اٹھا تھا ۔ نہایا دھویا تھا۔ طبیعت بحال ہو چکی تھی ۔ سب اچھا لگ رہا تھا۔ رات کو تو مجھے یہی لگتا تھا جیسے بریگیڈ پہاڑکی آخری چوٹی پر ہے لیکن صبح پتہ چلا تھا کہ اُس کے عقب میں سربفلک برف پوش پہاڑ تھے اور سامنے سڑک کے پار پہاڑی نالے کے دوسری طرف ناصرف پہاڑ بلکہ ان کی ڈھلوانوں پر چھوٹے چھوٹے گھر، چھوٹے چھوٹے کھیت اور باغ بھی تھے۔ استور تحصیل ہیڈ کوارٹر بھی تھا لیکن پنجاب کے میدانوں کی تحصیلوں کا چھوٹا سا بچہ ،جہاں صرف تحصیلدار اور ڈی ایس پی تھے اور ان کا بھی زیادہ وقت گلگت میں ہی کٹتا تھا۔ نہ تو کوئی ہسپتال تھا نہ کوئی کالج ، نہ کوئی عدالت نہ کوئی جج ۔ اوپر سے سڑک کنارے چند ایک چھوٹی چھوٹی دکانیں دکھائی دے رہی تھیں یا پھر گھر اور گھروندے۔ مجھے مزید آگے گوری کوٹ بھجوانے کی ذمہ داری ڈی کیو کی تھی۔ اِس لیے میجر اکبر شریف نے مجھے اپنے آفس میں بٹھا لیا تھا۔

یہ شخص چرب زبان، چاپلوس اور کائیاں اہل ِزبان شخص تھا۔ اُس نے مجھے بتایا تھا وہاں سے دس کلومیڑ آگے ایک مقام گوری کوٹ ہے جہاں پہ وہ یونٹ متعین تھا، جس میں میری پوسٹنگ ہوئی تھی اور یہ کہ وہاں میری یونٹ کے کمانڈنگ آفیسر جسے فوج میں مختصراً سی او کہا جاتا ہے لیفٹینٹ کرنل محمد انعام بہت ہی اچھے آدمی تھے وہ میرا بہت خیال رکھیں گے وغیرہ وغیرہ ۔ اپنی عادات و اطوار سے ہی یہ افسر مجھے جھوٹا لگ رہا تھا ۔ اس نے مجھے چائے پلائی تھی اور پھر میں اپنے سامان کے ساتھ ایک جیپ میں سوار ہوکر گوری کوٹ کے لیے روانہ ہوگیا تھا۔ کہنے کو تو یہ مقام استور سے صرف دس کلو میٹر تھا لیکن پرپیچ سڑک سے وہاں پہنچتے ہوئے تقریباََ چالیس منٹ صَرف ہوئے تھے۔ یہ استور سے چھوٹی جگہ تھی۔ منظر تقریباَ وہی تھا۔ جیپ جس میں مَیں سوار تھا،ایک بڑی سی عمارت کے صحن میں جا کر رُکی تھی جس کی چھتیں ترچھی تھیں اور عمارت لکٹری سے بنی ہوئی تھی۔ وہاں میرا سامان اتارا گیا تھا اور مجھے میرا کمرہ دکھا دیا گیا تھا۔

یہ پانچ کمروں پر مشتمل ریسٹ ہاؤس ،مہاراجہ کشمیر کے کئی ریسٹ ہاؤسز میں سے ایک تھا۔ میرے کمرے میں پلنگ پہ صاف ستھرا بستر بچھا تھا۔ کمرے کے عقب میں جوکمرہ تھا وہ غسل خانہ اور کموڈ والے بیت الخلاء کا کام دیتا تھا۔ میں وہاں تھوڑی دیر رکا تھا، پھر منہ ہاتھ دھو کر اسی جیپ پر یونٹ چلا گیا تھا۔ ریسٹ ہاؤس جسے آفیسر میس میں بدلاجا چکا تھا بلندی پر واقع تھا۔ یونٹ جانے کے لیے سڑک بتدریج ڈھلوان کی طرف جاتی تھی۔ جس پہاڑ کے ساتھ ساتھ سڑک تھی اُس کے متوازی دوسری جانب کے پہاڑ وں کے درمیان ایک وادی تھی۔ تقریباََ دو اڑھائی کلو میڑ کے بعد سڑک وادی کی سطح پر پہنچ جاتی تھی جہاں 32 فیلڈ ایمبولینس کا یونٹ تھا۔

سڑک سے دائیں طرف اوپر چڑھ کر دائیں طرف مڑ جانے والی سڑک سے پہلے اُبھار کے نیچے پتھروں کو کاٹ کر اوپر نیچے دو کمرے بنے ہوئے تھے جس میں ایک پر CO کی تختی لگی ہوئی تھی۔ اِس کے علاوہ اِسی میدان کو صاف کرکے چھوٹے چھوٹے پتھروں کی روشیں بنائی گئی تھیں۔ دفاتر کے سامنے فوجیوں کے لیے بیرکیں اور گودام تھے اور دفاتر کے آگے ’’ کوارٹر گارڈ’’ اور لنگر کا باورچی خانہ جسے فوج کی زبان میں صرف ’’لنگر ‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ میرے پاس فی الحال یونٹ کی ساخت و عمارت پرغور کرنے کا وقت نہیں تھا۔ میں نے جرسی کو نیچے کھینچا، ٹوپی ٹھیک کی اور کرنل کے دفتر میں داخل ہو کر سلیوٹ کیا تھا۔

کرنل کیا تھا کِسی اور ملک بلکہ کسی ا ور سیارے سے آئی ہوئی مخلوق ایک کرسی میں پھنس کر بیٹھی ہوئی تھی۔ ساڑھے چھ فٹ قد، تھلتھلاتا جثہ، موٹے موٹے ہونٹ، طباق سا بڑا چہرہ، موٹی گدی، کالے سیاہ کروکٹ بال، سیاہ رنگت، ایک آنکھ دوسری آنکھ سے خاصی بڑی اور کچھ زیادہ ہی کھلی ۔ انہوں نے مجھے صرف اتنا پوچھا تھا ’’ آگئے ہو‘‘؟ اور پھر ہل ہل کر ہنسنا شروع کر دیا تھا اور ملانے کے لیے موٹا سا گدگدا بڑا سا سیاہ ہاتھ میری طرف بڑھا دیا تھا۔ میں نے ہاتھ ملا کر جلد ہی چھوڑ دیا تھا لیکن ان کا قہقہہ بلند تر ہوتا چلاگیا تھا اور انہوں نے اپنے ہاتھ کو ایسی بے تکی حرکت دی تھی کہ ان کے آگے رکھی چائے کی خالی پیالی ہاتھ کے لگنے سے لڑھکتی ہوئی میرے اوپر گرتے گرتے بچی تھی۔

انہوں نے گرنے سے بچنے والی پیالی کی طرف مٹھی بند کرکے انگشت شہادت سے اشارہ کرتے ہوئے قہقہہ جاری رکھا تھا اور پھر دوسرے ہاتھ سے گھنٹی بجا دی تھی۔ باہر کھڑے گارڈ سپاہی کے اندر آتے ہی ان کے قہقے کو ایسی بریک لگی تھی جیسے ویکیوم بریک لگی ہو۔ وہ لمحہ بھر کے لیے بس تھوڑاسا ہلے تھے، یا مظہرا لعجائب ۔ یہ معاملہ کیا ہے۔ انہوں نے گارڈ سے میزصاف کرنے کے لیے کہا تھا اورمجھے سامنے پڑی کرسی پہ بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا ۔ چائے آگئی تھی اور انہوں نے یونٹ کی فارمیشن کے بارے میں بتانا شروع کر دیا تھا کہ کہاں کہاں میڈیکل ڈیٹیچ منٹس ہیں اور اسی معلومات کے دوران نجانے کون سی  ایسی بات آئی تھی کہ کرنل صاحب کے قہقوں کے فوارے پھر سے پھوٹنے لگے تھے ۔ یہ فوارے رک رک کر پھوٹتے تھے۔ ان کا حجم کبھی کم ہو جا تا تھا کبھی زیادہ ۔ کبھی قہقے کے اثرات چہرے کے عضلات اور پیٹ کے پٹھوں سے واضح ہوتے تھے لیکن حجرہ ءصوت سے آواز غائب ہوتی تھی۔

میں ایک تو جونیئر تھا دوسرے ماتحت تیسرے بالکل ہی نیا، اِس بارے میں کچھ بھی رائے نہیں دے سکتا تھا لیکن ایک ہی دن میں پتہ چل گیا تھا کہ قہقہہ باری کرنل صاحب کی عادتوں میں سے ایک ہے۔ انہوں نے ایک صوبیدارکو بلا کر کہا تھا کہ مجھے یونٹ دکھائے اور اس کے بارے میں بتائے۔ ساتھ ہی مجھے یہ بھی بتا دیا تھا کہ ان سے پہلے والا کمرہ عارضی طور پر میرا دفتر ہے۔ میں نے یونٹ کا معائنہ کیا تھا اور عام فوجیوں سے اسی خوش خلقی سے ملا تھا ،جس طرح عام لوگوں سے ملتا تھا۔ میں عوامی اور ملنسار شخص تھا اس لیے میرا رویہ قطعاً افسروں والا نہیں تھا اور نہ ہی ہو سکتا تھا ،چنانحہ افسروں کی بہ نسبت میرے تعلقات عام فوجیوں کے ساتھ زیادہ بہتر رہے تھے۔

معائنے کے بعد میں دفتر میں آبیٹھا تھا جو پتھروں کو ایک دوسرے میں پھنسا کر تعمیر کیا گیا تھا۔ کرنل صاحب کے دفتر کی طرح اِس کمرے میں بھی بخورے  روشن تھی جس کے اطراف میں پانی کے بھرے جیری کین رکھے تھے،جس کے دو فائدے تھے ایک تو استعمال کرنے کے لیے پانی گرم ہو جا تا تھا دوسرے کمرے میں مسلسل آگ بھڑکائے رکھنے کے باعث کم ہو جانے والی نمی پوری ہوجاتی تھی۔ دفتر کا وقت ختم ہونے کے بعد میں کرنل صاحب کے ہمراہ میس پہنچ گیا تھا۔ کپڑے تبدیل کیے تھے اور استراحت کی خاطر لیٹ گیا تھا۔ شام تک میرے لیے ایک بیٹ مین بھیج دیا گیا تھا جس نے چھ بجے کے قریب مجھے چائے کی پیا لی پیش کی تھی۔

میرے سپرنگوں والے بیڈ کے سہارے بائیں جانب ایک بڑی سی کھڑکی تھی جو بند تھی، اُس کے دوسری طرف والے کمرے میں، کٹے ہوئے بکرے لٹکا دیے جاتے تھے تاکہ سردی کے سبب محفوظ رہیں اور گوشت کی قلت نہ ہو۔ میری پائینی کی طرف سامنے کی دیوار میں دائیں کونے پر ایک دروازہ تھا جو درمیانی کمرے یعنی ہال میں کھلتا تھا۔ اندھیرا ہونے لگا تھا۔ایک پیٹرو میکس روشن کر کے اسی بند کھڑکی کے سامنے رکھ دیا گیا تھا۔ فرش کے نیچے خلاء تھا جس کے اوپر پھٹے لگا کر فرش بنایا گیا تھا۔ اونچی چھت، پھٹوں کے فرش پر چلتے ہوئے پھٹوں کے دبنے اور کبھی کبھار چرچرانے کا تاثراس پر مستزاد پیٹرو میکس کی مسلسل آواز، عجیب جادوئی سا ماحول تھا۔ تھوڑی دیر میں مجھے کرنل صاحب نے بلا بھیجا تھا ۔

بلانے کے لیے ان کا بیٹ مین آیا تھا، دونوں پاؤں جوڑ کر اٹین شن ہوا تھا اور کہا تھا کہ کرنل صاحب نے سلام کہا ہے۔ فوج میں کسی ماتحت افسر کوبلانے کے لیے اِسی طرح کہا جاتا تھا۔ سامنے کی دیوار میں بائیں جانب کا دروازہ کھول کرہال میں سے گذرنا پڑا جہاں اندھیرا تھا اور ڈائننگ ٹیبل و کرسیاں بھی وہیں رکھی ہوئی تھیں۔ اُس طرف کی دیوار میں پہلے دروازے کے عین سامنے والے دروازے پردستک دے کر میں نے پوچھا تھا ،’’ سر کیا میں اندر آسکتا ہوں؟‘‘۔ کرنل صاحب شلوار قمیض پہنے، جرسی زیب تن کیے آلتی پا لتی مارے تکیوں کے سہارے پلنگ پر بیٹھے تھے۔ انہوں نے مجھے ایک کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا اور پوچھا تھا ،’’ Scrabbleکھیلنا آتاہے‘‘؟ سچی بات ہے ،میں نے تو اس گیم کے بارے میں پہلے کبھی سنا نہیں تھا۔ ویسے بھی میں کھیلوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا حتٰی کہ  ٹیڈی پیسہ فی پوائنٹ کی شرط پہ ساڑھے تین سو روپے ہار کر، میں فرقان سے تاش کا کھیل ’’ رَمّی‘‘سیکھ سکا تھا۔

میرے لاعلمی کے اظہار پر کرنل صاحب کے قہقہے شروع ہو گئے تھے اور ان کے پیٹ بلکہ پورے جسم کے ساتھ ساتھ پلنگ بھی ہلنے لگا تھا۔ پھر انہوں نے اپنے تکیے کے نیچے سے Scrabbleنکالی تھی اور سامنے میز پر رکھ کر مجھے کھیلنا سکھائی تھی۔ خیر یہ کوئی اتنا مشکل کھیل نہیں تھا۔ دو تین بار کے بعد میں نے کرنل صاحب کو ہرانا شروع کر دیا تھا اور وہ یہ کہہ کرکہ ’’ دیکھا سیکھ گئے ناں‘ ‘ ایک بار پھر قہقہے لگانے لگے تھے۔ ان کی ہنسی کودیکھ کر ہنسی آتی تھی لیکن میں نے بڑی مشکل سے ہنسی روکی ہوئی تھی۔ بیٹ مین نے داخل ہونے کے لیے دروازہ کھٹکھٹایا تھا اوران کے قہقہے کو ایک بار پھر ویکیوم بریک لگ گئی تھی۔ بیٹ مین اجازت لینے آیا تھا آیا کھانا لگا دیا جائے؟ کرنل صاحب نے اثبات میں سر ہلا دیا تھا اور تھوڑی دیر بعد اُ س نے آکر اطلاع دی تھی کہ کھانا لگا دیا گیا تھا۔ ہم ساتھ والے ہال میں چلے گئے تھے۔ سردی سے کھانا سرد نہ ہو جائے اِسکے لیے بڑی گہری پلیٹوں میں گرم پانی ڈال کر اُس کے اوپر مسطح پلیٹیں رکھی گئی تھیں، کھا نا گرم گرم لایا گیا تھا اور گرم گرم چپاتیاں کپڑے میں لپیٹ کر۔ کھانا بہت لذیذ تھا۔ میں نے تلی ہوئی ٹراؤٹ مچھلی پہلی بار کھائی تھی۔ کھانے کے بعد کرنل صاحب نے پلیٹ میں موجود گرم پانی سے ہاتھ دھوئے تھے اور اپنے ہونٹوں پر اِس طرح پانی پھیراتھا جیسے چونچ دھو رہے ہوں۔ میں نے جب انہیں اِس طرح منہ پونچھتے دیکھا تو وہ مسکرانے لگے تھے۔

مسکراہٹ میں ان کی بڑی آنکھ چھوٹی آنکھ سے کچھ زیادہ ہی کِھل اٹھتی تھی اور ان کی آنکھوں میں قدرتی طور پر موجود سرخ وریدوں کا جال مزید سرخ ہو جا تا تھا۔ رات کے کھانے کے بعد ان کے کمرے میں ان کے ساتھ بیٹھ کر چائے پی تھی ، پھر میں اپنے کمرے میں چلاگیا تھا۔ جانے سے پہلے انہوں نے مجھے بتا دیا تھا کہ صبح کتنے بجے دفترجانا ہو گا۔ میں نے اپنے بیڈ مین کو ’’ بیڈ ٹی‘‘ کا وقت بتا دیا تھا، پھر خاصی دیر کتاب پڑھتا رہا تھا اور سو گیا تھا۔
اگلے روز کرنل صاحب نے مجھے کہا کہ گودام کا حساب چیک کر لو۔ میں نے بنا دیکھے جہاں جہاں دستخط باقی تھے وہاں کر دیے تھے۔ اُ سکے بعد گودام کے انچارج سجاد نے شاید ہی کسی اور سے دستخط کرائے ہوں ۔میں دیگر مقامات سے جب بھی یونٹ میں واپس آیا تھا، سجاد نے رجسٹروں پر دستخط کرنے کی درخواست کی تھی۔ جرسیاں ،بنیان ،جوتے اور پیٹیاں، کتنی بد عنوانی کر سکتا تھا گودام انچارج؟ ہمارا تو پورا ملک بدعنوانی کی لپیٹ میں ہے، تھا اور رہے گا جبکہ فوج تو ہمارے ملک کا سب سے زیادہ بجٹ ادھر اُدھر کرتی ہے۔ جرنیلوں سے کرنیلوں تک پہ بھلا کِس نے گرفت کی ہے جو میں بیچارے نائک کو ایک آدھ جرسی، جوتے کے ایک دو جوڑے پر دس روز کوارٹر گارڈ میں بند کرنے کی سزا کا ذمہ دار بنتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply