حفظ قرآن پر ایک نظر/ابو جون رضا

جس زمانے میں قرآن نازل ہورہا تھا، اس زمانے میں اس کی حفاظت کے جو طریقہ کار اختیار کیے گئے ان میں سے ایک انسان کے حافظہ پر بھروسہ تھا۔ عربوں کا حافظہ تیز ہوتا تھا، وہ ہزار دو ہزار اشعار یاد رکھتے تھے، لوگوں کے شجرے ان کو یاد ہوتے تھے۔ اس لیے حفظ قرآن کی طرف رغبت دلائی گئی۔ قرآت قرآن پر تشویق دی گئی۔ ایک آیت کے پڑھنے کا ثواب بتایا گیا۔ دیکھ کر پڑھنے کا ثواب بدرجہا بڑھ کر بیان کیا گیا۔

کچھ عرصہ بعد جب دیکھا گیا کہ قرآن صرف رٹو طوطے کی طرح رٹا جارہا ہے تو بغیر تدبر تلاوت کو بے اثر قرار دیا گیا یہاں تک کہ دل پر تالے پڑ جانے سے تشبیہ دی گئی۔

حفظ کی یہ روایت ہزار سال گزرنے کے باوجود مسلمانوں میں آج بھی موجود ہے۔

اہل تشیع میں کسی زمانے میں حفاظ کم پائے جاتے تھے۔ اس پر ان کو طعن کیا جاتا تھا۔ انقلاب ایران کے بعد قرآن حفظ کی روایت ان کے یہاں جدید طریقہ سے اُبھری۔ آج شیعہ حفاظ بچے، قرآن کی آیت معہ ترجمہ اور صفحہ نمبر تک بتا دیتے ہیں۔

بچپن میں بچوں کا حافظہ سلیٹ کی طرح سے ہوتا ہے۔ ان کو جو چیز یاد کرادی جائے وہ طوطے کی طرح رَٹ لیتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ایک دقت طلب کام ہے۔ روزانہ کم سے کم چار گھنٹے بچہ  قرآن  کو طوطے کی طرح رَٹتا ہے۔ پھر گھر آکر بھی اس کو پریکٹس کرنی ہوتی ہے۔

حفظ کرنے کے بعد ایسا نہیں ہے کہ انسان اگر دس سال تک قرآن کو کھول کر نہ دیکھے تو تب بھی قرآن اس کو رٹا ہوا ہوگا۔ ہر سال رمضان میں شبینہ پڑھانے کے لیے بھی حفاظ سال بھر وقتاً فوقتاً مشق کرتے رہتے ہیں۔

میں نے کالج لائف میں ایک پروگرام دیکھا تھا. یہ ایک ٹی وی شو تھا۔ پروگرام کا نام تھا۔

How do they do that?

اس شو میں مختلف شعبوں میں حیرت انگیز صلاحیتیں دکھانے والے افراد بلائے جاتے تھے جو اپنے کمالات سے ناظرین کو دنگ کردیتے تھے۔

ایک دفعہ ایک صاحب کو بلایا گیا۔ وہ انگلش میں لکھی ہوئی دو انتہائی ضغیم کتابوں کو لیکر شو میں وارد ہوئے ۔

ان صاحب کو وہ دو موٹی کتابیں زبانی رَٹی ہوئی تھیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے کتابیں ناظرین کے حوالے کیں اور ان سے کہا کہ کسی بھی صفحے کا کوئی ایک لفظ پڑھ کر سنائیں اور لائن نمبر کے ساتھ صفحہ نمبر بھی بتائیں۔

ناظرین کوئی بھی ایک لفظ معہ صفحہ نمبر اور لائن نمبر بتاتے تھے۔

وہ صاحب اس ایک لفظ سے آگے رٹو طوطے کی طرح سے کتاب بغیر دیکھے پڑھنا شروع ہوجاتے تھے۔

یہ انتہائی حیرت انگیز بات تھی۔ کیونکہ صرف ایک لفظ معہ صفحہ نمبر اور لائن نمبر بتانے سے پورا متن ذہن میں آجائے ، بہت مشکل بات ہے۔ ایک جیسے الفاظ کتابوں میں بہت زیادہ موجود ہوتے ہیں، انسان کا گڑبڑا جانا بالکل بدیہی ہے۔

یہ حضرت انسان ہیں جو اس طرح کے کمالات دکھاتے ہیں۔ اس کے لیے کوئی معجزاتی اَمر کی ضرورت نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جتنی بھی کتابیں انسان نے پڑھی ہوں، اس میں سے سمجھی کتنی ہیں؟

بچپن میں اپنے آبا و اجداد کا دین بچوں پر ٹھونسنا ایک غلام کی طرح انسانی ذہن کی تربیت کرنا ہے جس کو جتنا بتا دیا جائے، اس سے سر مو انحراف نہیں کرتا ۔ میرا نہیں خیال کہ اس طرح کا کوئی انسان خدا کو مطلوب ہوگا۔

میں نے ایک حافظ سے پوچھا کہ تم شبینہ پڑھا رہے ہو ، تمہیں پورے قرآن کی سمجھ ہے؟ کیا اس حوالے سے سوالات پوچھے جائیں تو تم جواب دے سکتے ہو؟ میرے حافظ دوست نے ہنستے ہوئے انکار کردیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اللہ ہمارے عقل و شعور میں اضافہ کرے اور مذہبی جنونیت سے محفوظ رکھے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply