• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کیا اقبال نے خطبات سے رجوع کر لیا تھا؟۔۔۔۔ ڈاکٹر محمد شہباز منج

کیا اقبال نے خطبات سے رجوع کر لیا تھا؟۔۔۔۔ ڈاکٹر محمد شہباز منج

ماہنامہ “البرہان” لاہورکے اگست 2016ء کے شمارے میں اپنے گذشتہ مضمون کے تسلسل میں خالد جامعی صاحب نے مغرب کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی تفصیلی خبر لی ہے اور اس میں میرا اور عمار ناصر صاحب کا “ذکرِ خیر” قرآن اور سائنس کے تعلق کے حوالے سے التباسات کے شکار افراد کی حیثیت سے فرمایا ہے، اور ہماری تردید اپنے خیال میں ہمارے پیر و مرشد غامدی صاحب کے ایک اقتباس کے حوالے سے کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔یہ مضمون بڑا دلچسپ ہے، اور سائنس وٹیکنالوجی کے حوالے سے جامعی صاحب اور ان کے حلقۂ فکر کے نقطۂ نظر کو سمجھنے میں بہت ممد ومعاون ہے۔

سائنس اور مذہب کے تعلق کے تناظر میں راقم الحروف کے کئی مضامین شائع ہو چکے ہیں، ضرورت محسوس کی تو اس پر پھر تفصیلی بحث کروں گا، لیکن سرِ دست جامعی صاحب کے اس موقف کا تذکرہ مقصود ہے کہ علامہ اقبال نے اپنے خطبات سے رجوع کر لیا تھا۔ اس کے لیےجامعی صاحب سہیل عمر صاحب کی “خطباتِ اقبال نئے تناظر میں ” کی مددسے اقبال کے خطبات میں پیش کیے گئے خیالات کو غیر اسلامی ثابت کرتے ہیں ، اور واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کس طرح اقبال اپنے اخلاص ، علم اور راسخ العقیدگی کی بنا پر اپنے خطبات کے افکار پر قائم نہ رہے تھے!جامعی صاحب کے مطابق 1920ء اور 1926ء میں ہزرل اور ہائیڈیگر سائنس وٹیکنالوجی کے پیدا کردہ سنگین مسائل کا تنقیدی جائزہ لے رہے تھے اور علامہ اقبال اپنے خطبات میں اسی سائنس وٹیکنالوجی کو اسلام کی میراث ثابت کر رہے تھے اور اسی کے ذریعے مستقبل میں اسلامی عقائد کی حقانیت کے امکانات تلاش کر رہے تھے۔ لیکن چونکہ وہ ایک صاحب ِ ایمان ،سچے عاشقِ رسول اور درد مند امتی تھے ، اس لیے ہزرل اور ہائیڈیگر سے عدمِ واقفیت کے باوجود اپنےکشف اور قوتِ ایمانی سے سے ان حقائق سے واقف ہو کر ، جن تک سائنس وٹیکنالوجی کے یہ مغربی ناقدین پہنچے تھے، انھوں نے خطبات سے رجوع کر لیا تھا، مگر عصرِ حاضر کے جدیدیت پسندوں کو یہ اطللاع بھی نہیں کہ اقبال کے جن خطبات پر وہ اپنے تجدد کا شور مچا رہے ہیں ،اقبال ان سے رجوع کر چکے تھے۔ یہ لوگ امالی غلام محمد پڑھ لیں ، پھر بات کریں۔اکثر متجددین سائنس کے بارے میں اقبال کے خیالات کو سرقہ کر کے اپنے نام سے پیش کرتے رہتے ہیں ، حالانکہ ان کے رجوع کے ثبوت کے بعد اس پر بحث کا خاتمہ ہو جانا چاہیے۔

اقبال سے متعلق سہیل عمر صاحب کے حوالے سے جامعی صاحب کے افکار اور خطبات سے اقبال کے رجوع کی دلیل کے طور پر امالی غلام محمد پڑھنے کے اس مشورے کو دیکھ کر، میرا دل چاہاکہ میں قارئین ِ کرام اور خود جامعی صاحب کو بھی (اگر انھوں نے پڑھ لی ہے تو بارِ دگر)اجمل کمال کی “اقبال شناسی یا اقبال تراشی ” پڑھنے کا مشورہ دوں، جس میں مصنف نے خالد جامعی اور سہیل عمر کے ساتھ ساتھ احمد جاوید صاحب کی بھی خوب خوب خبر لی ہے، اور بتایا ہے کہ کس طرح اقبال اکیڈمی کے حالیہ کار پردازوں نے اقبال کو اپنے نظریات کا جامہ پہنانے کی کوشش کی ہے!

imageمیں نہیں کہتا کہ اجمل کمال کی محولہ بالا تحریر پر ایمان لانا چاہیے، مجھے اس کے اندازِ تنقید و گرفت سے اختلاف بھی ہے، لیکن اس میں اقبال کے ساتھ ہمارے دانش وروں کے “حسنِ سلوک” سے متعلق مواد بہر حال قابلِ دید ہے۔یہاں راقم کی گزارش فقط اتنی ہے کہ اقبال کے نظریات سے دلائل کی بنا پر اختلاف ہر اہلِ علم کا حق ہے،(راقم الحروف ایسے بے مایہ کو بھی آپ کے متعدد افکار سے طالب علمانہ اختلاف ہے) لیکن خدارا مختلف حیلوں بہانوں سے اقبال کو اپنے نظریات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش نہ کریں۔ اقبال اکیڈمی والوں کی تو مجبوری ہو سکتی ہے کہ وہ اقبال کو اپنے نظریات سے،جس طرح ممکن ہو تطبیق دیں،کھلے بندوں اختلاف نہ کریں، کہ اقبال ان کے روزگار کا ذریعہ ہے۔ لیکن جو اقبال اکیڈمی سے وابستہ نہیں ، ان کی تو کوئی مجبوری نہیں ؛ انھیں تو چاہیے کہ اقبال سے دلائل کی بنا پر اختلاف کریں ، نہ کہ سنی سنائی باتوں پر اقبال کے اپنے نظریات وخیالات سے رجوع کو ثابت کرنے پر تل جائیں۔ویسے بھی اقبال سے اختلاف بلکہ ان کی مخالفت کی روش اس ملک میں اب عام ہوگئی ہے۔ ہمارے دانش ور مختلف مجالس اور مذاکروں ہی میں نہیں ٹی وی چینلزپر بیٹھ کر اقبال کے اس قوم پر “ظلم ” گنواتے رہتے ہیں۔اور تو اور خود احمد جاوید صاحب ا یسے مفکر،فلسفی ، اقبال شناس اور اقبال اکیڈمی کے روح ِ رواں، اقبال کے متعدد اشعار سے پہلے نعوذ باللہ پڑھتے پائے جاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اقبال کا خطبات سے رجوع کوئی ایسا مخفی راز نہیں ہو سکتا، جو امالی غلام محمد کے بغیر افشا نہ ہو سکتا، یہ ایسی بات ہوتی کہ اس سے کوئی انکار نہ کر سکتا۔ کیا خطبات کے بعد کے طویل عرصے میں اقبال نے کچھ لکھا ، کہا نہیں تھا کہ ان کے خطبات سے رجوع کے لیے اس سے دلیل لانے کی بجائے سنی سنائی روایتوں پر اعتماد کیا جاتا!
اقبال کا خیال تھا کہ اپنے مفسر تاویل سے قرآن کو پاژند بنا دیتے ہیں ، لیکن ان کو خبر نہ تھی کہ وہ تاویل سے ان کا بھی یہی حشر کرنے والے ہیں۔فاعتبروا یا اولی الابصار۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply