مقبوضہ کشمیر اور انڈین جنگی جنون۔۔۔۔۔ احسن سرفراز

سالہا سال سے انڈین استعمار کے زیر قبضہ کشمیر, دنیا میں سب سے زیادہ فوجی تعیناتی والا علاقہ ہے. آج مقبوضہ کشمیر میں انسانیت ایک دفعہ پھر نو حہ خواں ہے اور زمین پر ناجائزقبضےکی چاہت نے دنیا کی سب سے بڑی مبینہ جمہوریت کو باؤلا بنا ڈالا ہے. نوجوان برہان وانی جو مقبوضہ وادی میں انڈین ظلم وبر بریت کے خلاف مزاحمت کا ایک استعارہ بن چکے تھے,انکی جعلی مقابلے میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں ہلاکت نے کشمیریوں کے صبر کا بند توڑ ڈالا ہے. آج تقریباً تین ماہ سے کشمیری کرفیو کی پابندیوں کے باوجود اپنے حق خود ارادیت کے لئے سراپہ احتجاج ہیں. کشمیریوں کا آزادی کے حق کیلیے عزم دیکھ کر پوری دنیا کی انصاف پسند قوتیں یہ سوال اٹھا رہی ہیں کہ جمہوریت کیا کروڑوں لو گوں سے محض ووٹ ڈلوانے کا ہی نام ہے؟ کیا حق خود ارادیت کا پوری دنیا سے وعدہ کر کے پھر اس سے مکر جا نا جمہوریت اور جمہوری روایات کی پا ما لی نہیں؟کیا اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے والے لوگوں کو گولیوں سے بھون ڈالنا اور چھروں سے اندھا کر ڈالنا جمہوریت ہے؟ کہاں ہیں وہ جمہو ریت کے عالمی چیمپئن جو جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپتے تھکتے نہیں, ایک فارمولا جو ایسٹ تیمور اور سکا ٹ لینڈ میں آزما نا بہتر ین حکمت عملی قرار پا تا ہے اور وہی فا رمولا جو دنیا کے ایجنڈے پر کشمیر کے لئے گزشتہ 70 کے قریب سالوں سے موجوداسے بھلا دیا جاتا ہے. نام نہاد جمہوریت پسند عالمی قوتوں کا مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بے اعتنائی کا رویہ اگر برقرار رہتا ہے تو مسلمان یہ کہنے میں حق بجا نب ہونگےکہ خون مسلم جو دنیا کے کسی بھی خطے میں بہتا ہے اسکی خوشبو عالمی قوتوں کیلیےنشہ کی سی کیفیت رکھتی ہے اور جب ان نا انصا فیوں کے بطن سے دہشت گردی جنم لیتی ہے(جسکی ہر صورت کی ہم مذمت کر تے ہیں) تو اسکی تمام تر ذمہ داری ان قوتوں کے متکبرانہ, ظالمانہ, اور منافقت سے بھر پور پالیسیوں پر ہی عائد ہو گی۔

اب جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان نے کشمیر کے حوالے سے بھر پور آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا ہےجس پربھارت کشمیر میں اپنی انسانی حقوق کی عریاں ترین خلاف ورزیوں کی وجہ سے پریشان تھا اس موقع پر اچانک اڑی سیکٹر مقبوضہ کشمیر میں انڈین قابض فوج پر مشکوک حملے کے بعد انڈیا میں جنگی جنون سر چڑھ کر بول رہا ہے, لگتا ہے انڈین اسٹیبلشمنٹ نے کشمیر میں جاری بھرپور عوامی احتجاج سے دنیا کی توجہ ہٹانے اور پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کا جواز فراہم کرنے کیلیے یہ ڈرامہ رچایا ہے. انڈین قابض فوج پر اس مبینہ حملے کے بعد انڈین الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں زور و شور سے اس بحث کا آ غاز ہو چکا ہے کہ آزاد کشمیر میں موجود مبینہ کیمپوں پر اس بار لازمی سرجیکل سٹرائک کیا جائے, آج انڈیا میں ہونے والے قومی سلامتی سے متعلق اجلاس میں بھی اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ پاکستان کے خلاف کاروائی کے حوالے سےوزیر اعظم نریندر مودی کو سفارشات پیش کی جائیں گی. بھارت اپنے ان جارحانہ عزائم سے پورے خطے کو آگ وخون میں جھونکنا چاہتا ہے. بھارت اس غلط فہمی کا شکار ہے کہ امریکہ کی طرح وہ کسی پر کوئی سا الزام لگا کر چڑھ دوڑے گا اور اسکی اس جارحیت کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیا جائے گا.

 جنگ کسی بھی ذی شعور کے لئے پسندیدہ نہیں ہوسکتی لیکن پاکستان کے عوام بھارت کی ان گیدڑ بھبکیوں سے ڈرنےاور گھبرانے والے نہیں. آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری قوم بھارتی توہین آمیز رویےکے خلاف ڈٹ جائے اور اس عزم کا اظہار کرے کہ پاکستان کے خلاف کسی بھی نوعیت اور پیمانے کی براہ راست جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا. اگر ہمیں زخم لگے گا تو محفوظ انڈیا بھی نہیں رہے گا. اس موقع پر ہمارے آستین کے سانپوں کو بھی ہر موقع پر انڈین مؤقف کی حمائت اور پاکستان کو انڈیا کی باجگزار ریاست بننے کے مشورے دینے سے احتراز کرنا چاہیے,ان مبینہ دانشوروں کو دیکھنا چاہیے کہ کشمیری آج انڈیا کی نام نہاد سیکولر جمہوریت سے خوش ہوتے تو کبھی بھی لازوال قربانیاں دیکر آزادی کا مطالبہ نہ کر رہے ہوتے اور نہ ہی انڈیا کے مسلمان تو مسلمان ہندو دلتوں پر بھی گاؤ کشی کے نام پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہوتے. ان نام نہاد لبرلز کو محترمہ آصمہ جہانگیر سے ہی سبق حاصل کرلینا چاہیے جنہوں نےکھل کر کشمیریوں کے حق خود ارادیت کیلیےآواز بلند کی ہے. آج خطے کو جنگ کے شعلوں سے محفوظ رکھنے کا واحد حل کشمیر میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق ریفرنڈم کا انعقاد ہے.

Advertisements
julia rana solicitors london

کشمیر کے مسلے کا کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق مستقل حل پورے خطے میں ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوسکتا ہے. اس مسلے پر کسی بھی فریق کی ہٹ دھرمی اس خطے میں رہنے والے کروڑوں عوام کی حق تلفی ہو گی. جنگ خود ایک بہت بڑا مسلہ ہوتی ہے, ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی میں یہ کسی مسلہ کا حل ثابت نہیں ہوسکتی. اب پوری دنیا کی جارح مزاج قوتوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ انسانوں کو انسانوں کا غلام بنانے کی روش ظالم کیلیے بھی کبھی باعث عافیت نہیں بن سکتی اور برصغیر میں امن کا رستہ کشمیر سے ہو کر ہی گزرے گا.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply