رمضان المبارک اور ہماری ذمہ داریاں۔۔۔شہلا نور

گلدستہ مختلف پھولوں کےاس مجموعے کا نام ہے جس میں رنگ برنگے پھول اپنی اپنی بہار دکھا رہے ہوتے ہیں لیکن ان پھولوں میں گلاب کا پھول سب سے الگ، منفرد اور ممتاز نظر آتا ہے۔۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالی کے بنائے گئے بارہ مہینوں میں رمضان المبارک کا مہینہ سب سے ممتاز اور نمایاں ہے کیونکہ نبی کریم علیہ الصلوة والتسلیم نے ارشاد فرمایا:

“رمضان شہر  اللہ”

“رمضان اللہ کا مہینہ ہے”

(الجامع الصغیر للسیوطی، ح: 4889)

اس ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کامقصد تقوی قرار دیا گیا۔ ارشاد ہوتا ہے:

“یایھاالذین آمنو کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون۔”

“اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے جیساکہ تم سے اگلوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بنو۔”
(بقرہ:183)

دین اسلام کے تمام ارکان خواہ نماز ہو یا روزہ، زکوة ہو یا حج سب کی حکمتیں ہیں۔۔
نماز، عبدیت کے اظہار اور حاکمِ مطلق کے حضور سجدہ ریز ہونے کی تربیت کے ساتھ ساتھ اجتماعی زندگی میں یکسانی کا پیغام ہے۔۔
زکوٰۃ تو سراسر معاشرتی عمل ہے۔ اس کی ادائیگی سے یہ احساس دوبالا ہوتا ہے کہ میری محنت میں دوسرے بھی شریک ہیں اور یہ شرکت خود پسندی اور تفاخر کا ذریعہ نہیں ہے ۔۔
حج، اسلامی عبادات میں وہ رکن ہے جس میں اسلامی تصورِ حیات کی مرکزیت کا اعلان ہے۔ انسانی شرف کے حاملان کی ہم خیالی، ہم لباسی اور ہم آوازی کا اہتمام بین الاقوامی یکسانی کا فعال اظہار ہے۔۔۔
لیکن جب ہم روزے کی بات کرتے ہیں تو روزہ ایسی عبادت ہے جو اپنے جلو میں دیگر تمام ارکان وعبادات کو لیے ہوئے ہے۔۔ نماز کا اہتمام، زکوة کی ادائیگی، صدقہ فطر، خیرات؛ حج کی تیاری ، دربار نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر حاضری کا ارمان، حرام سے اجتناب کی کوشش ، گناہوں سے کنارہ کشی ، اجر و ثواب میں کئی گنا اضافہ اسی ماہ مقدسہ کی برکات ہیں ۔۔ گویا کہ ہم اسے “حسنات کا موسم بہار” کہہ سکتے ہیں کہ اس ماہ مبارکہ میں قدم قدم پر نیکیاں بکھری ہوئی ہیں بلکہ نیکیوں کی لوٹ سیل لگی ہوئی ہے۔۔۔ ساتھ کے ساتھ اللہ رب العزت کا یہ فرمان بھی جوش پیدا کردیتا ہےکہ:

“بندے کا ہر عمل اپنے لیےہے مگر روزہ میرے لیے ہے اور اسکی جزا بھی میں خود دوں گا”
(مسلم، کتاب الصیام،رقم الحدیث 1151 )

اسکے علاوہ روزے کےامتیازات یہ بھی ہیں:

پہلی بات یہ ہے کہ روزہ بندے کو اپنے رب سے جوڑتا ہے اور اس سے وفاداری اور صرف اس کی اطاعت کے جذبے پر دل و دماغ کو قانع اور مستحکم کرتا ہے، اور اس کے اس عہد کی تجدید کی خدمت انجام دیتا ہے کہ بندے کا جینا اور مرنا اور عبادات اور قربانیاں سب صرف اللہ کے لیے ہیں۔ حلال اور حرام کا تعلق صرف اللہ کی مرضی اور حکم سے ہے۔ جو چیز اُفق پر روشنی کی پہلی کرن آنے تک حلال تھی وہ صرف اس کے حکم سے سورج کے غروب ہونے تک حرام ہوگئی اور سورج کے غروب ہوتے ہی پھر حلال ہوگئی۔ یہ وہ عبادت ہے جس کا حقیقی گواہ صرف اللہ تعالیٰ ہے۔
* روزے کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کا تعلق انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے ہے۔ جن انبیاے کرام ؑ کو کتاب سے نوازا گیا، ان کو یہ کتاب اس حالت میں دی گئی جب وہ روزے سے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی وحی کا آغاز غارِحرا میں اس وقت ہوا جب آپؐ وہاں مسلسل روزوں کی حالت میں تھے اور اس مقدس کتاب کا آغاز بھی روزے سے ہوا اور اس کی تکمیل ماہِ رمضان میں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مہینہ دراصل قرآن کا مہینہ ہے اور اس کے شب و روز قرآن سے تعلق کی تجدید، اس کی تلاوت، تراویح میں اس کی سماعت اور اس کے پیغام کی تفہیم اور تلقین کے لیے خاص ہیں۔

اصل موضوع پر گفتگو کرنے سے پہلے روزے کے تیسرے امتیازی پہلو کی طرف بھی اشارہ کردینا مناسب ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ ایک طرف رمضان کے روزوں کو مکمل کرو لیکن اس کے ساتھ ساتھ جو ذمہ داری تمھیں ادا کرنی ہے انھیں بھی ادا کرو۔۔

چنانچہ کلام الملک ، ملک الکلام کے مصداق اگر شھر اللہ کو تمام شھور کا بادشاہ کہا جائے تو بے جا نہیں ۔۔۔۔ اس ماہ کی اہمیت، فضیلت اور خصوصیت جس قدر زیادہ ہے اسی قدر صاحب ایمان پر عائد ہونےوالی ذمہ داریاں ہیں ۔۔ چونکہ روزے کا مقصد تقوی کا حصول مقرر کیا گیا یے لہذا اسکے حصول کے لیے ان ذمہ داریوں کی بجاآوری ضروری ہے جو ایک مسلمان پر اس ماہ کے حوالے سے خاص طور پر عائد ہوتی ہیں۔۔

اول: تو یہ کہ اس ماہ کو احکام الہیہ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے گزارا جائے۔۔

اللہ تبارک وتعالی ارشاد فرماتا ہے :

“ما خلقت الجن والانس الا لیعبدون”

“میں نے جن و انس کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا”
(ذریت: 56)

تخلیق انسان میں جو مقصد کارفرما ہے اس کی تکمیل کے لیے اگر اس ماہ مقدسہ سے ابتداء کر دی جائے تو یہ سلسلہ آگے بڑھ سکتا ہے۔۔

دوم: یہ کہ روزے کے آداب ملحوظ رکھے جائیں اور مکروہات سے بچا جائے

صوم کے معنی امساک یعنی رک جانا ہے لیکن اس سے مراد صرف کھانے پینے اور عمل زوجیت سے رکنا نہیں بلکہ ہر اس چیز، ہر اس فعل سے رکنے کا نام صوم یعنی روزہ ہے جو رضائے الہی کے خلاف ہو۔۔ اسی لیے حدیث مبارکہ میں آیا :

مَنْ لَمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِهِ لَیْسَ لِلّٰهِ حَاجَةٌ فِیْ اَنْ یَدَعَ طَعَامَهٗ وَ شَرَابَهٗ.

’’جس روزہ دار نے جھوٹ بولنا ترک نہ کیا اور اس پر عمل جاری رکھا تو اللہ تعالیٰ کو اس کے کھانے پینے کے چھوڑنے کی ضرورت نہیں۔‘‘

صحیح البخاری، کتاب الصوم، 2: 673، الرقم: 1804

اسی طرح فضولیات سے کنارہ کشی ضروری ہے۔۔۔ رات گئےتک کرکٹ کھیلنا جس میں نماز و تراویح کو ترک کردینا، دن میں روزے کا وقت گزارنے کے لیے فلموں یا ڈراموں کا سہارا لینا نیز چینلز کا انعامات کا لالچ دیکر عوام کو بجائے عبادت میں مصلی پر وقت گزارنے کے پروگرامز میں وقت گزارنے کی ترغیب دینا اور عوام کا ٹکٹس کے لیے کوشاں رہ کر اس ماہ کی برکات سے مستفید نہ ہونا سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔۔

سوم: یہ کہ خواہشات نفس کو پابند کرنا ضروری ہے۔۔

بے لگام خواہشیں بجائےخوشی و سکون دینے کے پیسہ بنانے کی مشین اور ڈپریشن کا مریض بنا دیتی ہیں بندے کو ہوش تب آتا ہےجب وہ قبر میں پہنچ جاتا ہے۔۔ چونکہ جنت کو مکروہات سے اور جہنم کو خواہشات سے ڈھانپ دیا گیا ہے اسلئےخواہشات کے گھوڑے کو بے لگام چھوڑ دیا جائےتو وہ جہنم میں پہنچا کر ہی دم لیتاہے۔۔ چنانچہ یہ ماہ مبارکہ سنہری موقع ہے کہ جہاں کھانےپینے اور دیگر کچھ معاملات میں خواہش کو رب کی رضا کےتابع کیا ہے وہیں خود پر کنٹرول کرتے ہوئے غیر ضروری خواہشات سے تاعمر بچنے کا عزم کر لیاجائے۔۔

چہارم: یہ کہ نفس کے اندر اطاعت و عبادت کا ذوق پیدا کیا جائے۔۔

سخت گرمی کے موسم میں بھی گھر میں بہت سی نعمتوں کی موجودگی کے باوجود بھوک پیاس نفس پر ڈال کر ایک ماہ گزارا جاتا ہے صرف اللہ تعالی کی اطاعت و عبادت میں ۔۔ تو کیوں نہ ہم اطاعت کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے اپنے نفس میں سارا سال کے لیے عبادت کا ذوق و شوق پیدا کریں ۔۔ محبت و خلوص میں عمل کرنے کی کوشش کریں اور اپنی زندگی کم از کم فرائض کی ادائیگی میں گزاریں۔۔ ورنہ نفس کو اگر مائل با اطاعت نہ کیا تو وہ کبھی نہ ہوگا ۔۔ علامہ بوصیری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :

والنفس کالطفل ان تھملہ شب علی
حب الرضاع وان تفطمہ ینفطم

“نفس تو دودھ پیتے بچے کی طرح ہے اگر تم اسے پلاتے رہو گے وہ دودھ کی محبت میں جوان ہوگا اگر چھڑوا دوگے تو وہ چھوڑ دےگا۔۔”

پنجم: حسنات کے موسم بہار کو زندگی بھر کے لیے راہ عمل بنانا

اس ماہ میں کی جانے والی نیکیاں اگر ہم زندگی بھر کے لیے اپنا لیں تو امید ہے ہماری دنیا و آخرت فلاح سے ہمکنار ہوگی۔۔ جس کے لیے ہم دعا کرتے ہیں

ربنا آتنا فی الدنیا حسنة و فی الاخرة حسنة و قنا عذاب النار۔۔

“اے رب ہمارے ہمیں دنیامیں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطافرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا”
(بقرہ:201)

یہ ذمہ داریوں کا ایک رخ تھا جو ہماری ذات سے متعلق ہیں ۔۔۔ رمضان المبارک کا دوسرا رخ انسانیت کی فلاح و بہبود اور دوسروں سے ضرر دور کرنا ہے۔ ایسا معاشرہ جہاں برائی کا غلبہ ہو وہاں روزے دار کا وجود یہ اعلان کرتا ہے کہ میں برائی سے دور رہ کر دوسروں کو بھی بچاؤں گا۔۔ چنانچہ غصہ، لڑائی جھگڑا، گالی گلوچ سے پرہیز کرتے ہوئے یہ کہہ دینا ” میں روزے سے ہوں” تو بہت سے افراد نقصان سے محفوظ رہتے ہیں۔۔
نیز اس ماہ میں صدقات کی زیادتی سے بے شمار ایسے افراد بآسانی رمضان و عید گزار لیتے ہیں جو عام دنوں میں اس آسانی سے محروم ہوتے ہیں۔۔ صدقات دینے میں اگر ہم دو باتوں کو مدنظر رکھیں تو اس کے ثمرات بڑھ سکتے ہیں

1) تشہیر نہ کی جائے اس سے فقراء و مساکین کی عزت نفس پامال ہوتی ہے۔۔ اور یہ شریعت کی تعلیمات کے بھی برعکس ہے کہ سلیقہ یہ سکھایا گیا کہ تمہارے دوسرے ہاتھ کو بھی پتہ نہ چلے۔۔۔
2 ) صدقات صرف رمضان المبارک تک محدود نہ رکھیں۔ بلکہ اگر سارا سال ہی ہم اللہ پاک کی راہ میں کچھ نہ کچھ دیتے رہیں تو غربت نہ صرف کم ہوگی بلکہ بہت سی برکات ہمارے لیے بھی ظاہر ہوں گی۔۔ کہ
لن تنالو البر حتی تنفقو مما تحبون
“تم میں سے کوئی اس وقت تک بھلائی کو نہیں پہنچ سکتا جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز خرچ نہ کرو۔”
(آل عمران :92)

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر ہم مندرجہ بالا چند ذمہ داریوں کا لحاظ رکھیں تو امید ہے روزے کے مقصد یعنی تقوی تک پہنچ سکتے ہیں۔۔ اور اگر اس ماہ صیام کو عبادت و اطاعت سے لاپرواہی، سحری و افطار ٹرانسمیشن میں انٹری کی جدوجہد میں گزاریں، گناہوں اور فضولیات سے کنارہ نے کریں تو ہم نہ اس ماہ کی روحانیت حاصل کرسکتے ہیں اور نہ ہی رب العزت کی بارگاہ میں سرخرو ہوسکتے ہیں۔۔ یہ ماہ بھی دیگر مہینوں کی طرح گزر جائیگا لیکن ہم خالی ہاتھ رہیں گے۔۔
یاد رکھیے!!
بارش ہر جگہ برستی ہے لیکن اسکا اثر صرف زرخیز زمین قبول کرتی ہے۔۔ تو اس رحمتوں کی بارش کے ماہ میں ہم پر منحصر ہے ہم زرخیز زمین بنتے ہیں یا پتھر۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply