یونیورسٹی گریجویٹس کے لیے دینی تعلیم

یونیورسٹی گریجویٹس کے لیے دینی تعلیم
حافظ محمد زبیر
تبلیغی جماعتوں، اسلامی تحریکوں اور دیگر دعوتی سرگرمیوں کی وجہ سے یونیورسٹی گریجویٹس کی ایک بڑی تعداد نہ صرف دین کی طرف راغب ہو رہی ہے بلکہ دین کا سنجیدہ طالب علم بننے کی خواہش بھی رکھتی ہے۔ یہ بہت ہی خوش آئند رجحان ہے کہ دین ودنیا کے امتزاج کا ایک فطری اور آسان ترین حل یہی ہے کہ دنیا کی تعلیم کے بعد دین کی تعلیم حاصل کر لی جائے یا دین کی تعلیم کے بعد دنیا کی تعلیم حاصل کر لی جائے۔
مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ دونوں طقبے لاشعوری طور شیطان کے وسوے میں ہیں۔ مدرسے کا فارغ التحصیل ساری زندگی روایتی دینی تعلیم میں کھپا کر اب جدید علوم میں امام بننے کی خواہش رکھتا ہے اور یونیورسٹی گریجویٹ دنیا کی تعلیم میں زندگی کھپا کر دین کا امام بننا چاہتا ہے۔ یہ سوال ہو سکتا ہے کہ اس میں غلط کیا ہے؟ اس میں غلط یہ ہے کہ یونیورسٹی گریجویٹ میں جدید علوم کا امام بننے کی خواہش ہونی چاہیے اور مدرسہ کے فارغ التحصیل میں قدیم کا۔
فیلڈ کو تبدیل کرنا بالکل بھی مناسب نہیں ہے، اس سے آپ کا سابقہ علم بالکل بے کار ہو جاتا ہے جبکہ ہمیں یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ اللھم علمنی ما ینفعنی وانفعنی بما علمتنی وزدنی علما۔ ترجمہ: اے اللہ، مجھے نفع بخش علم دے دے، اور جو علم آپ نے مجھے دے دیا ہے تو اسے میرے لیے نفع بخش بنا دیں اور میرے علم میں اضافہ فرما دیں۔ تو ایک یونیورسٹی گریجویٹ کو دین کی تعلیم ضرور حاصل کرنی چاہیے لیکن اس طرح نہیں کہ اپنا میدان تبدیل کر لے بلکہ اپنے اصل میدان میں دین کی خدمت کے مواقع تلاش کرے۔
یہ عجب نہیں ہے کہ مدرسے میں پڑھانے والا استاذ اس بات کی خواہش رکھتا ہے کہ یونیورسٹی میں جائے تا کہ دنیا داروں کو صحیح معنی میں دیندار بنا سکنے میں اپنا موثر کردار ادا کر سکے اور یونیورسٹی میں پڑھانے والا پروفیسر اس کا طلبگار ہے کہ اس مخرب ایمان ماحول سے نکلے اور مدرسے میں جا کر قرآن وحدیث کی تعلیم وتعلم میں دل کا سکون تلاش کرے اور دینداروں کو دین دار بنانے کے لیے کچھ کر سکے۔ بس انسان ایسا ہی ہے کہ جو اس کے پاس ہے، اس کی نعمت کا احساس نہیں ہے اور جو نہیں ہے، اس کا خواہش مند ہے۔
ایک یونیورسٹی گریجویٹ کو آٹھ سالہ درس نظامی یا مفتی کورس کی بجائے ایک سالہ یا دو سالہ یا زیادہ سے زیادہ تین سالہ دینی کورس کر لینا چاہیے کہ جس سے ان کی دینی بنیادیں پختہ ہو جائیں اور پھر اپنی ہی فیلڈ میں دین کی خدمت کے مواقع نہ صرف تلاش کرے بلکہ پیدا کر کے دکھا دے۔ اس کے لیے ڈاکٹر اسرار احمد کی قرآن اکیڈمی کا ایک سالہ اور دو سالہ کورس بہت مفید ہے اور اس طبقے کے لیے شاید ہی اس سے مفید کوئی کورس میرے علم میں ہو۔
ایک تو یہ ڈیزائن ہی جدید طبقے کے لیے کیا گیا ہے، دوسرا اس میں انداز تدریس، نصاب تعلیم وغیرہ میں بھی جدید کا استعمال کافی ہے کہ یونیورسٹی گریجویٹ کو بالکل محسوس نہیں ہوتا کہ وہ یونیورسٹی کے ماحول سے نکل کر مدرسہ کے ماحول میں آ گیا ہے بلکہ اسے یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ اسی ماحول اور ذہنی سطح کے ساتھ دین کی تعلیم حاصل کر رہا ہے، کہ جس کے ساتھ اس نے دنیا کی تعلیم حاصل کی تھی۔ تو یونیورسٹی گریجویٹ کے لیے مشورہ یہ ہے کہ سائنس کے امام بنیں کہ آج دنیا کی امامت انہی کی ہے جو سائنس میں امام ہیں، دین کے امام پہلے ہی بہت ہیں، ابھی یہاں نئے اماموں کی اتنی ضرورت نہیں ہے۔ اور سائنس کا امام بننے سے یہ دین کے امام بھی آپ کو اپنا امام بنا لیں گے کہ میدان بالکل خالی ہے۔

Facebook Comments

حافظ محمد زبیر
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر صاحب علوم اسلامیہ میں پی ایچ ڈی ہیں اور کامساٹس یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، لاہور میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ آپ تقریبا دس کتب اور ڈیڑھ سو آرٹیکلز کے مصنف ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply