حقیقی راحت اور مصنوعی زندگی… رمضان رفیق

سادگی اپنائیے صاحب، وہ جو اقبال نے کہا تھا کہ

تیرے صوفے ہیں افرنگی، تیرے قالین ایرانی

بس ایسے ہی رنگ برنگی عینک، مہنگی گھڑی، چمکتی چپل، کسی ڈیزائنر کے ٹھپے والے ملبوسات، اور ایسا ہر رنگ جو ہمارے مزاج کا حصہ صرف ذاتی دکھاوے کی تسکین کے لیے ہے، ایک جھوٹا رنگ ہے، ایک نظر کا دھوکہ ہے. ایسی اشیا سے بازار بھرے پڑے ہیں جو لوگوں کی رعونت اور دکھاوے کو بڑھاوا دینے کا سامان مہیا کرتی ہیں، اور لوگ ایک دوسرے سے ممتاز نظر آنے کی دوڑ میں اشیا بدل بدل کر خود کو منفرد کرتے نظر آتے ہیں۔

پچھلے سالوں میں ہمارے ایک منتخب وزیر اعظم کی گھڑی نے شہرت پائی تھی جس کی قیمت لاکھوں میں بتائی جا رہی تھی. کسی خاتون اول کے پرس کے بارے میں بھی کچھ ایسا ہی سننے کو آیا تھا. ہمارے امرا کے خاندان پیرس کی شانزے لیزے، دوبئی کے سپر مال اور برطانیہ اور امریکہ کے میگا سٹوروں پر مضحکہ خیز مہنگی اشیا کی خریداری میں ملوث پائے گئے ہیں۔

مجھے ان کہانیوں اور کرداروں کے نام بھول گئے جو اپنے دستر خوانوں پر سیکڑوں خوان سجایا کرتے تھے، اپنے حرم میں ستائیس سو بیویاں رکھتے تھے، جو اس لیے دشمن کے مفتوح علاقے سے نہیں نکلتے تھے کہ ان کے پاپوش بردار بھاگ گئے ہوتے تھے، یا جو انسانی بدنوں سے شطرنج کی بساط سجاتے تھے، یا جو بوتلوں میں نہیں حوض بھر کر شراب پیتے تھے۔ ان کی دولت کے اظہار کا یہ ذریعہ ان کے ساتھ رخصت ہوا اور وہ اپنے پیچھے دھندلی سی کہانیاں چھوڑ کر چلے گئے۔ کیا تاریخ نے ان عیاش لوگوں کی زندگیوں کو دوام بخشا؟ اور کتنے لوگ ہیں جو ان کے نام پر آج کورنش بجا لاتے ہیں؟

اگر آپ مذہب کے دلائل سے میدان عمل روشن کیے ہوئے ہیں تو ایک ہی بات میں سارے اخراجات کی تقسیم کو بیان کر دیا گیا ہے، کہ خیر الامور اوسطھا… میانہ روی بہترین حکمت عملی ہے۔ مطلب یہ کہ نہ بخیلی اس قدر کہ لباس سے خدائے بزرگ و برتر کی نعمتوں کا کفر نظر آئے اور نہ اسراف اس قدر کہ چادریں بازاروں میں لٹکتی جائیں۔

بل گیٹس کے بچوں سے کسی نے پوچھا کہ تم دنیا کے امیر ترین شخص کے بچے ہو، زندگی آسائشوں میں کٹتی ہوگی. انھوں نے کہا نہیں جناب. ہمیں ایک محدود سا جیب خرچ ملتا ہے، حتی کہ اپنا پسندیدہ پھل کھانے کے لیے بھی کبھی کبھی پیسے کم پڑ جاتے ہیں.

وارن بفٹ نامی امیر آدمی کی دانش آمیز باتیں بھی آپ نے سن رکھی ہوں گی. خرچ کرنے کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ اگر تم ایس چیزوں پر خرچ کرتے ہو جن کی تمھیں ضرورت نہیں تو تم پر ایسا وقت بھی آئے گا جب تمھیں ایسی چیزیں بیچنا ہوں گی جن کی تمھیں ضرورت ہے۔

یہ سادگی صرف اخراجات کے خرچ کی ہی سادگی نہیں بلکہ زندگی بسر کرنے کی سادگی کو بھی اس میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ یعنی رہن سہن میں ایسے اطوار کا انتخاب ہو جس میں نخوت اور غرور نہ ہو بلکہ سادگی و پرکاری ہو۔ جیسے دو سال پہلے کی برف باری میں ڈنمارک کی وزیر اعظم اپنے گھر کے دروزے کے سامنے سے برف ہٹا رہی تھیں اور ایک ہمسائے نے ان کی تصاویر بنا ڈالیں. ناروے کے وزیر اعظم ملک کے سیاسی حالات جاننے کے لیے ٹیکسی چلاتے رہے. ڈنمارک کے موجودہ وزیر اعظم اس سال کی انتخابی مہم کے دوران سائیکل پر شہر کے مختلف محلوں میں تشریف لے گئے۔ مجھے خود پچھلے سال اپنے علاقے کے ناظم کے ساتھ ایک ملاقات کا موقع ملا. پروگرام کےآخر میں جب سب لوگ سامان سمیٹنے لگے تو ناظم صاحب نے چائے کے برتن دھونا شروع کر دیے. جاپانی ائیر لائن کا چیف اپنے ورکروں کے ساتھ کھانا لینے لیے لائن میں لگتا بھی آپ نے بارہا دیکھا ہوگا، یا اوبامہ کا عام جگہوں پر جا کر لائن میں لگ کر برگر خریدنا بھی سوشل میڈیا کی زینت بنا رہا ہے.

لیکن اگر ہم اپنے طرز زندگی کو اخراجات اور اطوار کی سادگی کی کسوٹی پر پرکھیں تو ہم دنیا سے ابھی بہت پیچھے ہیں۔ یہاں اسراف کا نام امارت سمجھ لیا گیا ہے، اور چند جھوٹے سٹیٹس سمبل ہماری سادگی کا جابجا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں۔ اگر اپنے قومی راہبروں کی زندگی کو معیار سمجھ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے تقریبا سبھی لیڈر عام عوام سے ایک فاصلے پر ہیں. وہ عام اجتماعات میں جا ہی نہیں سکتے. آپ ان کو کسی عوامی مقام پر کبھی پائیں گے ہی نہیں، نہ کسی بس پر، نہ ریل پر، نہ کسی ڈھابے پر. ہاں اگر کبھی کوئی فوٹو شوٹ وغیرہ ہو تو الگ بات ہے، وگرنہ طرز زندگی کی حد تک کسی کی زندگی بھی عوامی نہیں اور نہ ہی سادہ ہے۔ ہمارے پیارے امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب ایک سادہ سے شخص ہیں اور عوامی بھی. خدا ان کو خوش رکھے اور ان کے چاہنے والوں کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی بھی توفیق ہو۔ عمران خان صاحب کے چاہنے والے بھی ان کو سادہ سا شخص بتاتے ہیں، لیکن مجھے وہ عام آدمیوں سے تھوڑے فاصلے پر رہنے والے شخص معلوم ہوتے ہیں کیونکہ ایک دو جلسوں میں جب لوگ ان پر ورافتہ ہوتے ہوئے بہت پاس پہنچ جاتے ہیں تو خان صاحب اس عوامی محبت پر جو رد عمل دیتے ہیں وہ تھوڑا سا غیر عوامی اور خاصا غیر انسانی ہوتا ہے۔

اس ترتیب سے اگر ملک کے باقی لیڈران کو دیکھا جائے تو زیادہ تر لوگ عوامی کہلواتے ضرور ہیں لیکن ان کا رابطہ عوام میں سے خواص لوگوں سے ہی ہے۔ اور سادگی ان خواص سے بہت دور ہے۔ اپنے پروٹوکول کے لیے ہزاروں کو سڑکوں پر ذلیل کرنا، اپنے میزبانوں کو اپنے فرمائشی کھانوں کا پابند کرنا، اپنے لباس و اطوار سے خود کو دوسروں سے ممتاز بتانا ان میں سے اکثریت کا عام رویہ ہے۔

کس کے بچوں نے سادگی کا درس پڑھا، کون کسی عام سے سکول کا طالب علم ہوا، کس نے استاد کے جوتے سیدھے کیے، کس نے عوامی سواری میں سفر کیا، کس نے تپتی دوپہروں کی دھوپ جھیلی، کون مون سون کی بارش میں بہا؟ ہمارے لیڈران اور ان کے بچوں کی زندگیاں ہمارے عمومی عوامی مزاج سے ہٹ کر پروان چڑھتی ہیں۔

اس لیے کسی بھی عام آدمی میں خاص بننے کی آرزو میں لباس و اطوار بدل لینے کا عارضہ لاحق ہونے کا خطرہ بدرجہ اتم موجود ہے۔ یہ چھوت کی بیماری نگاہوں کو یوں خیرہ کرتی ہے کہ نام نہاد سٹیس کی خاطر آدمی اپنی سادہ سی گردن میں لوہے کا سریہ لگوانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ کسی کے ایرانی قالینوں کے سے قالین لانے کے لیے لوگ کسی شارٹ کٹ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں، اور اس دوڑ کا حصہ بن جاتے ہیں جو دوڑ لکھنو کے نواب دوڑ چکے۔

ان لوگوں نے کیا پایا جنھوں نے من چاہی زندگی حآصل کرلی، چمکتی ہوئی زندگی، دھوپ سے بچانے والی عینک کے خوشنما شیشے کی سی زندگی، بڑی گاڑی، نوکر چاکر، اور سب کچھ جس کی تمنا کی جا سکتی ہے؟ دوستو، زندگی کے رنگوں کا فیصلہ ہم نے خود کرنا ہے، ایک ایسی زندگی جو خود کو خوبصورت لگے نہ کہ دوسروں کو محرومیاں بانٹے اور کمتر ہونے کا احساس دلائے۔ یا ایسی زندگی جو ندی کے پانی کے ایسی ہو، آہستہ آہستہ چلتی ہوئی، سردیوں کی دھوپ… ایسی جو آہستہ آہستہ کسی سرور کی صورت بدن میں اترتی رہے اور کسی دوسرے کی زندگی میں باعث خلل نہ ہو.

فیصلہ آپ نے کرنا ہے. انسان سادہ اور صاف ستھرے کپڑے پہن کر بھی خوبصورت لگ سکتا ہے، اس کے جوتوں کی قیمت سے اس کی شخصیت کی قیمت میں اضافہ ہرگز نہیں ہوتا. سٹیٹس کی اس دوڑ سے خود کو باہر کرکے ایک پرسکون زندگی کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

محترم رمضان رفیق ڈنمارک میں مقیم اور ایگرو ہنٹ کمپنی کے روح رواں ہیں۔ آپ معروف بلاگر اور بلاگز کی کتاب “بےلاگ” کے مرتب ہیں۔ 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply