شاعری ، گیت ، کلام ،ادب آفاقی ہوتے ہیں یا کلچرل ؟-سائرہ رباب

“اٹھ شاہ حسینا ویکھ لے”
جو لوگ پنجابی اور اردو دونوں زبانوں میں مہارت رکھتے اور ان کے مزاج اور ثقافت کو سمجھتے ہیں وہ محسوس کر سکتے ہیں کہ پنجابی کے اس کلام کی تاثیر اور طاقت ، الفاظ اور تراکیب جس شدت سے ہماری روح ، جذبات ، وجدان پر اثر انداز ہوتے ہیں، اردو ترجمہ اس مخصوص چاشنی ، ذائقہ ، تاثیر اور لطف سے محروم ہے ۔۔۔ تمام امیجری ، استعارات ، علامات ، تلازمات اس زبان کے بولنے والوں کے اجتمائی لاشعور کا حصہ ہیں ۔۔جس کی وجہ سے وہ اسکے صوتی ، جمالیاتی ، جذباتی و روحانی جہتوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں ۔۔

زبان محض ایک ذریعہ اظھار یا کمیونیکشن ٹول نہیں ہوتی بلکہ یہ کسی بھی سماج یا کلچر میں موجود خیالات و تصورات ، رویوں ، ورلڈ ویو ، ویلیوز (اقدار ) اور نارمز، مجموعی ثقافت کی ترجمان بھی ہوتی ہے جس میں تہذیبی رنگ اور سماجی نقوش ہوتے ہیں۔۔قوم کا پورا ماضی اور شناخت سمٹے ہوتے ہیں ۔۔ یہ کسی قوم کی memory یاداشت ہوتی ہے ۔
یہ زبان کلچر کے اندر پیوست rooted ہوتی ہے ۔۔ یہ الفاظ نیوٹرل اور ویلیو فری نہیں ہوتے ۔۔ یہ جذباتی اور کلچرل تلازمات رکھتے ہیں ۔۔۔۔ جس طرح مغرب میں پاکی ، hoodie, مسلمان سے جڑے دہشت گرد کا تصور منفی تلازمات رکھتے ہیں اسی طرح مراثی ، چوڑا ، چماڑ کے الفاظ یہاں منفی کلچرل معنی رکھتے ہیں اور یہاں کے کلچر میں موجود كاسٹ سیسٹم اور نسلی تعصبات کے بھی عکاس ہیں جسکا ادراک اس کلچر کا باسی ہی کر سکتا ہے ۔

بلھے نوں سمجھاون آئیاں، بھیناں تے بھرجائیاں
من لے بلھیا ساڈا کہنا، چھڈ دے پلّا رائیاں
آل نبی اولادِ علی نوں، توں کیوں لیکاں لائیاں
چیہڑا سانوں سیّد سدّے، دوزخ ملن سزائیاں

بلهے شاہ کے ان اشعار میں بہن اور برجائی ، آرائئں اور سید کے تلازمات اور تاریخی پس منظر ، کلچر کی پیچیدگی کو کوئی انگریز یا جاپانی ، جرمن نہیں سمجھ سکتا نہ محسوس کر سکتا ہے ۔

الفاظ سے جڑے جذبات ، ویلیوز یا کلچرل معنی کو کچھ مثالوں سے سمجھا جا سکتا ہے ۔ جیسے ہمارے کلچر میں خالہ اور آنٹی کا لفظی مطلب ایک ہی ہونے کے باوجود انکے کلچرل معنی ایک نہیں ۔۔آنٹی اشتعال انگیز ہو سکتا ہے ۔ محبوبہ کو آپ ہرنی کہہ سکتے ہیں ، کتیا یا بندريا نہیں ۔۔ بیوہ کا لفظ اتنا نا گوار نہیں گزرتا جتنا کہ طلاق یافتہ کا ۔۔ کھسرا ، ہیجڑا ، خواجہ سرا ایک ہی entity کے نام ہیں لیکن خواجہ سرا نیوٹرل ہے جبکہ كهسرا ، ہیجڑا منفی تلازمات رکھتے ہیں ۔۔۔ وحشیا ، کنجری ، طوائف ، سوسائٹی گرل ، سیکس ورکر کے الفاظ کس حد تک منفی یا نیوترل ہیں یہ اپ کلچر کے اندر رہ کر ہی جان سکتے ہیں ۔۔۔

زبان میں ایک قوم کا پورا ماضی اور تاریخ چھپا ہوتا ہے۔۔ اس کلام کی ہر سطر علامات ، امیجز ، ریفرنسز سے پر ہے ۔۔ بلہے شاہ ، وارث شاہ ، جھنگ ، قصور ، تخت ہزارہ کی کیا تاریخی اہمیت ہے ۔ ہیر ، رانجھا ، ونجلی میں کیا تعلق ہے ، گھنگرو ، محبت کے قصے ، عشق کے دھمال ہم پر کونسا وجد طاری کردیتے ہیں اور یہ کس چیز کے استعارے ہیں ۔ کیدو ، کھیڑے کے ساتھ کون سے تلازمات جڑے ہیں ۔۔ یہ سب داستانیں ہمارے اجتمائی لا شعور کا حصہ ہیں یہ کسی باہر کے فرد پر یوں اثر انداز نہیں ہو سکتے جیسے مجھ پر یا آپ پر ۔۔۔ جو پنجاب کے اجتمائی لا شعور میں موجود محبت کی لا زوال داستانوں ، رشتوں کی کیمسٹری اور پیچیدگیوں ، اجتماعیت میں ڈھلی زندگیوں کے درمیان پنیتی محبتوں کو نہیں جانتا وہ ان الفاظ کی تہوں میں چھپے شاعر کے نوحہ کو کبھی نہیں سن سکتا ۔۔۔۔
ویڈیو نیچے کمنٹ باکس میں ہے ۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply