شیخ سعدی کے تعاقب میں۔۔۔۔ اویس قرنی

سیر و سیاحت کا شوق تو تقریباً ہر انسان میں پایا جاتا ہے۔ اس دنیا کے بے شمار انسانوں میں سے مشہور سیاح بھی بہت گزرے ہیں۔ کچھ اٹھے زمین ناپ آئے، پھر اپنا وقت آنے پر مر گئے۔ اور اپنے پیچھے سفرنامے چھوڑ گئے۔

ایک چچا مارکوپولو تھا۔ جدید تحقیق کے مطابق اس نے کبھی وینس سے باہر قدم نہ دھرا تھا اور دنیا اس کے وسط ایشیا اور چین کے سفر ناموں پر لوٹ پوٹ ہوئی جاتی ہے۔

ایک شیخ سعدی ؒبھی تھے۔ شیراز سے بس اتنا تعلق ہے کہ اس شہر میں پیدا ہوئے اور پھر عمر کے آخری چند سال گزار کر وہیں دفن ہوئے۔ اس کا درمیانی طویل وقفہ جو کہ کم و بیش سو سال پر مشتمل ہے , سیاحت اور حصولِ علم میں گزرا۔ کبھی سومناتھ کا سن کر طبیعت بے چین ہو گئی تو کبھی دمشق جاکے دم لیا۔ کبھی صلیبی جنگوں میں عیسائیوں کی بیگار بھگتاتے رہے ، کبھی سمرقند و بخارا کی سیر کو نکل گئے۔ پھر جو کچھ دیکھا تھا اسے لکھ ڈالا اور آج دنیا کی 32 بڑی زبانوں میں دنیا کی ہر بڑی یونیورسٹی میں سعدی ؒ پڑھا جا رہا ہے۔

عادت سے مجبور شیخ ایک بار حمام کی سیر کو نکل گئے۔ وہاں خوشبودار مٹی سے ملاقات ہو گئی۔ حیران ہو کر مٹی سے پوچھا:۔ اے اپنی دلآویز خوشبو سے مجھے مست کر دینے والی تو مشک ہے یا عبیر ہے؟ آخر اس خوشبو کا راز کیا ہے؟

جب مٹی کی ٹال مٹول سعدی کے آگے نہ چلی تو اس نے راز اگل دیا , بولی:- میں تو حقیر سی خاک تھی۔ مگر مدت تک پھولوں کے ساتھ رہی۔ جمالِ ہمنشیں نے اپنا اثر دکھایا اور وہ خوشبو مجھ میں بھی رچ بس گئی۔ پس یہ اس صحبت کا اثر اور پھل ہے ورنہ میں تو صرف خاک ہوں۔

ایسے ہی کئی اور سیانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آدمی اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے۔

کند ہم جنس باہم جنس پرواز ۔۔۔۔ کبوتر با کبوتر ، باز با باز

عنقریب ابھرنے والے نیم فلسفی جوگی کا کہنا ہے کہ دوستی ایجاد نہیں کی جاتی بلکہ دوستی دریافت کی جاتی ہے۔ جیسے نیوٹن نے کشش ِثقل ایجاد نہیں کی تھی بلکہ صرف دریافت کی تھی۔ آواز کو بغیر کسی تار کی مدد سے دور دور تک پہنچا دینا مارکونی سے پہلے بھی ممکن تھا۔ مگر یہ طریقہ ڈھونڈنے میں سب سے پہلے مارکونی کا میاب ہوا۔

قدرت انسان کے ساتھ ٹریژر ہنٹ والا کھیل , کھیل رہی ہے۔ خزانے چھپا کر رکھ دئیے اور انسان کو ایک معین وقت دے دیا کہ چل بھئی کاکا اس معینہ وقت میں جتنے خزانے ڈھونڈ سکتے ہو ڈھونڈ لو۔ وقت پورا ہوتے ہی قدرت لگامیں کھینچ لیتی ہے۔ اور کاکا واپس چلا جاتا ہے۔ اب جیسی کسی کی تلاش ہے وہ ویسا ہی کچھ پا رہا ہے۔

ٹھیک ہے یہ بات سمجھ میں آتی ہے ۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔

یہ تلاش و دریافت ۔۔۔؟؟

میں یہ واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ مگر میری ناقص رائے سے کسی کا متفق ہونا ضروری بھی نہیں۔

ذرا عالم ارواح کا تصور کیجیے۔ نہ کوئی نام نہاد “بڑا” تھا ، نہ مجھ جیسے “چھوٹے” تھے. نہ مقام و مرتبے کا فرق تھا نہ ذات پات کا جھنجھٹ تھا. نہ کوئی مذہب ، فرقہ آڑے تھا، نہ ہی مرد و عورت کی تفریق تھی۔ گویا دوستیاں کرنے کیلئے آئیڈیل ماحول تھا۔ ظاہر ہے دوست تو وہاں بھی ہونگے۔ لیکن ہم میں سے شاید کسی کو بھی یاد نہیں کہ روح کی پیدائش سے لے کر دنیا میں پیدا ہونے کے درمیانی وقفے میں ہماری دوستی کس کس روح سے تھی۔

نہ تو روح کی جیب ہوتی ہے نہ پرس کہ وہاں کے دوستوں کی تصویر ہی لے آتی اور یہاں آ کر ڈھونڈ لیتی۔ اب روح کے پاس صرف ایک ہی آپشن ہے کہ اُس دوست روح کے سامنے آتے ہی وہ اسے پہچان لے گی۔ مگر اس بات کی تصدیق کیسے ہو کہ جس پر روح کو اپنا دوست ہونے کا شبہ ہے وہ واقعی وہی عالم ارواح والی/والا دوست ہے بھی ، یانہیں۔ اس مقصد کیلئے روح اپنے کمیونیکیشن سسٹم کی مدد سے سگنل نشر کرتی ہے ، اور سگنل کیچ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اور جس روح سے یہ فریکوئنسی میچ ہو جائے روح اپنا بچھڑا دوست پا لیتی ہے۔

زندگی میں ہمیں بہت سے لوگ اچھے لگتے ہیں، اور ہم ان سے دوستی کرنا چاہتے ہیں مگر دوستی ہو نہیں پاتی۔ کبھی دوستی کی تالی ایک ہاتھ سے نہیں بج پاتی تو کہیں دوستی کی بیل منڈھے چڑھنے سے پہلے ہی سوکھ جاتی ہے۔ وہ دراصل ہماری روح کا مغالطہ ہوتا ہے ، جو اسے محسوس ہوتا ہے کہ شاید میر ی اسی سے عالم ِارواح میں دوستی تھی۔ اور فریکوئنسی میچ نہ ہونے پہ روح پر واضح ہو جاتا ہے کہ یہ وہ نہیں ہے۔ اور اسی طرح تلاش کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے ، حتیٰ کہ روح اپنا/اپنے حقیقی دوست پا لیتی ہے۔ اکثر ہم کسی سے دوستی ہونے کے بعد محسوس کرتے ہیں کہ ہم اس سے پہلے بھی ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ یہ احساس کیا ہے؟؟؟ ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے کہ جس سے ہمیں ملے جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے اسے ہم صدیوں سے جانتے تھے۔؟؟؟

اب فریکوئنسی پر آتے ہیں۔ یہ کیسے میچ ہوتی ہے؟ اور آخر ہم کیوں مان لیں کہ فریکوئنسی کا میچ ہونا ہی حقیقی دوست ملنے کا ثبوت ہے؟

مثال کے طور پر پنجاب میں آٹھ ریڈیو اسٹیشن میڈیم ویو پر نشریات دے رہے ہیں۔ پورے پاکستان میں پتا نہیں کتنے ریڈیو اسٹیشن نشریات دے رہے ہیں۔ پوری دنیا میں کتنے ہی ریڈیو اسٹیشن ایک ہی وقت میں اپنی نشریات فضا کے حوالے کر رہے ہیں۔ شارٹ ویو ، اور ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز کا تو شمار ہی کیا…. چاہے ساری دنیا کے اناؤنسرز ، ڈی جے ، آرجے بول بول کر اپنا گلا خراب کر لیں، لیکن جس کے پاس ریڈیو سیٹ ہی نہیں اس کی جانے بلا کہ کون کیا کہہ رہا ہے۔

یعنی ریڈیو ٹرانسمشن سننے کیلئے ضروری ہے کہ کسی کے پاس کوئی ریڈیو سیٹ ہو اور وہ آن بھی ہو۔ اگر ریڈیو سیٹ ہے اور وہ بج بھی رہا ہے تب وہ صرف اسی ریڈیو اسٹیشن کی نشریات سنائے گا جس کی فریکوئنسی اس پہ سیٹ کی گئی فریکوئنسی سے میچ ہوں گی۔

مثلا ًاگر ریڈیو سننے کے کسی شوقین نے ریڈیو کی سوئی میڈیم ویو 1641 کلو ہرٹز پر سیٹ کی ہوئی ہے تو اسے صرف ریڈیو پاکستان بہاولپور کی نشریات ہی سنائی دیں گی۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس وقت دنیا میں صرف بہاولپور سے ہی ریڈیائی سگنل آ رہے ہیں۔ عین اسی وقت دنیا کے بے شمار ریڈیو اسٹیشنز اپنی نشریات میں مصروف ہیں، لیکن ریڈیو صرف وہی نشریات سنا رہا ہے جس کے سگنل اس پر مقرر کی گئی فریکوئنسی سے میچ ہو رہے ہیں۔ اگر اسی وقت کوئی BBC کی نشریات سننا چاہتا ہے تو اس کو لازم ہے کہ وہ سوئی کو اس فریکوئنسی پر سیٹ کرے۔

ٹھیک اسی طرح روح کا کمیونیکیشن سسٹم کام کرتا ہے۔ لیکن ریڈیو اور روح میں فرق یہ ہے کہ جب ایک روح اپنے سگنل نشر کرتی ہے تو ساتھ ہی ساتھ وہ سگنل وصول کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ بالکل اسی طرح دوسری روح بھی اپنی سوئی اس فریکوئنسی پر سیٹ کر کے اپنے سگنل نشر کرتی ہے۔ جونہی یہ فریکوئنسی کہیں میچ ہوتی ہے تو روح کو روح کا نشر کردہ پیغام سنائی دینے لگتا ہے۔ اور ہم انسانی زبان میں اسے احساس کا نام دیتے ہیں۔ روح کو احساس ہوتا ہے کہ یہی وہ عالم ِارواح والی دوست روح ہے۔ اور یوں اس عالم کی دوستی اس عالم میں تجدید پاتی ہے۔ اور اربوں انسانوں سے بھری دنیا میں ایک خاص شخصیت سے مل کر اچانک ہمیں لگتا ہے کہ جیسے ہم تو صدیوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اویس قرنی ادب کی قدیم روایات کا نیا جنم ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply