• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مارکسِزم، خونی یا معصوم ؟۔۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

مارکسِزم، خونی یا معصوم ؟۔۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ لینن کے انقلاب و نفاذِ نظام میں موجود خونی عنصر کی بنیادی وجہ مارکس کے فلسفے کی “معصومیت” ہے، بنیادی سوال یہ ہے کہ مارکس سے کہاں غلطی ہوئی کہ جس کے نتائج کی، اشتراکیت کے زیرِ اثر ممالک کو انتہائی بھاری قیمت چکانی پڑی، انسانی جانوں کے ضیاع کی صورت میں، ان گنت انسانی جانوں کا ضیاع۔

فلسفۂ مارکس اِزم میں دو انتہائی اہم اور بنیادی ستون مارکس کی توجہ حاصل نہ کر پائے، بغیر کسی تمہید کے ان ستونوں پر بحث کی شروعات کی اجازت چاہوں گا۔

سماجی ڈھانچہ، یہ پہلا ستون ہے، اشتراکیت کے طلباء یہاں اعتراض اٹھا سکتے ہیں کہ مارکس نے ہی تو سماجی ڈھانچے میں موجود دو طبقات، استحصال کرنے والے اور وہ جن کے حقوق کا استحصال کیا جا رہا ہے، کی نشاندہی کی، جن کے درمیان ایک کشمکش جاری ہے، بلکہ اُن سے بہتر و مفصّل کسی نے اس موضوع پر نہیں لکھا، یہی نہیں بلکہ مارکس ہی نے شرحِ پیداوار اور ان دو طبقات کا اس پیداوار کے استعمال کے تناسب کی طرف توجہ دلائی، یقیناً یہ تمام نکات درست ہیں اور ان کا تعلق سماجی ڈھانچے ہی سے ہے، لیکن اس کے باوجود ایسا کیوں ہے کہ مارکس اِزم کی ان بنیادی تعلیمات کا نتیجہ عملی طور پر لینن اور سٹالن کے خونخوار اور غیر انسانی ادوار کی شکل میں سامنے آیا؟
سماجی ڈھانچے کا حقیقی مطلب معاشرے میں آزادی، عدل، مساوات اور بھائی چارہ ہے، اور یہ خصوصیات اشتراکیت کی بجائے برژووا کی تحریک کے جواہرِ خاص تھے، لیکن چونکہ برژووا کی تحریک ایک حد سے زیادہ انسانی جان کی قربانی طلب نہیں کرتی، اور نہ ہی کر پائی، اس لیے اشتراکیت جیسے آلۂ قتل کے سامنے اس کی کوئی اہمیت نہیں، چہ جائیکہ اس تحریک کے جواہرِ خاص کو خاطر میں لایا جائے۔
مارکس نے طبقات اور پیداوار کے وسائل کے بیرونی تعلقات پر بحث کی ہے، جبکہ طبقات کی اندرونی ساخت اور کشمکش پر انہوں نے قلم نہیں اٹھایا، ہم جانتے ہیں کہ انقلابِ فرانس و روس کے دوران اگرچہ جانی نقصان عام آدمی کو ہی اٹھانا پڑا مگر یہ جنگ و قتال درحقیقت انقلابیوں کے جتھوں کے درمیان رہا، اس میں طبقات کے درمیان جدوجہد اور معاملات کی حیثیت ثانوی سے بھی نیچے رہی، یہی وہ سماجی ڈھانچے کا بنیادی عنصر ہے جو مارکس کی تعلیمات میں کوئی مقام حاصل نہ کر سکا۔
کیا سوشلزم نے استحصالی اضافی قیمت میں کمی کی؟، جی نہیں سوشلزم نے اس قیمت کا مکمل خاتمہ کر ڈالا، سوشلزم میں کسی چیز کی کوئی قیمت نہیں، انسانی جان کی بھی نہیں، سوشلزم میں سرپلس ویلیو (surplus value ) پر قابو پانے کا ایک ہی اصول ہے کہ کسان و مزدور سے اس کی ہر چیز چھین لی جائے، گویا کہ نہ رہے گا بانس، نہ بجے گی بانسری۔

مارکس کی تعلیمات میں صنعت کے فروغ کی ترغیب دی گئی، مگر کیمونزم کے دور میں تمام صنعت کاری کا مقصد ہتھیار سازی رہا، کیونکہ سٹالن کا خواب تھا کہ پوری دنیا میں سوشلزم کا راج ہو، اس کیلئے اسے دنیا کو فتح کرنا تھا اور ایسے عزائم کیلئے زیادہ سے زیادہ ہتھیار ناگزیر تھے۔
یہ بات درست ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں سر پلس ویلیو کا معاملہ کافی حد تک گھمبیر ہے، لیکن کیا یہ سچ نہیں کہ اس نظام کے پھلنے پھولنے کی بنیادی وجہ یہی فلسفۂ اضافی قیمت (surplus value) ہے، مگر سمجھنے کی بات یہ ہے سرمایہ دار کے کُل سرمائے کا کتنے فیصد حصہ اس کے ذاتی استعمال میں ہوتا ہے، یا ہو سکتا ہے؟، سرمایہ دار کے سرمائے کا بڑا حصہ، جو کسی کارخانے یا کارپوریشن کی صورت ہوا کرتا ہے، عوام الناس یعنی اس کارخانے کے کارکنان کے زیرِ استعمال ہوتا ہے، جو نجی و سماجی پیداوار میں بہتری کا کام دیتا ہے، جہاں ہر شخص کو اس کی قابلیت کے مطابق معاوضا  و سہولیات مہیا کی جاتی ہیں، یا کم از کم کی جانی چاہییے، سرمایہ دارانہ نظام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ہر شخص کو، جو سرمایہ رکھتا ہو، نجی پیداوار کی سہولت میسر ہے، اس سہولت کا حتمی نتیجہ یہ ہے کہ معاشرے میں مخصوص پیداوار کے وسائل میں اضافہ ہوتا ہے، ایک مقابلے کی فضا پیدا ہوتی ہے، جس سے پیداوار کی قیمت میں کمی اور معیار میں اضافہ ہوتا ہے، جس کا فائدہ عوام کو پہنچتا ہے، دودھ کی رکھوالی بِلّے سے نہ کرائی جائے، والے قول کے مطابق ہر تحریک نے بِلّے کی نشاندہی کی اور اس کے پنجوں سے دودھ کو آزاد کرانے کی کوشش کی، لیکن کوئی یہ طے کرنے کا تکلف نہیں کرتا کہ یہ دودھ آخر کس کی ملکیت ہے جس کیلئے اتنی تگ و دو کی جا رہی ہے؟، اشتراکیت میں اس دودھ کی مالک ریاست ہے، دوسرے معنی میں وہ ایک شخص جو ریاست کا سربراہ ہوگا، جبکہ سرمایہ دارانہ نظام میں یہ دودھ عوام الناس کی ملکیت ہے۔

قارئین نے یقیناً مشاہدہ کیا ہو گا کہ جدید سرمایہ داروں کی دو اقسام ہیں، ایک وہ جو سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، جیسے مختلف سکولوں، ہسپتالوں اور دیگر رفاعی اداروں کا قیام وغیرہ، جبکہ دوسری قسم وہ ہے جن کی توجہ اپنے محلات و جائیداد تک محدود ہے، اگر سرمایہ داروں کی ان دو اقسام کے ماضی اور ان کی نفسیات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ اول الذکر کی اکثریت جدید سرمایہ دارانہ نظام کے علمبردار ہیں، جیسا کہ بل گیٹس وغیرہ، جبکہ دوسرا گروہ درحقیقت نظامِ اشتراکیت کی باقیات ہے، اس کی سب سے بڑی مثال جدید روس کے اولیگارخ (oligarch) ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام میں فرد انعام کے لالچ میں محنت کرتا ہے جبکہ اشتراکیت میں سزا کے خوف سے، یہی وہ نفسیاتی نکتہ ہے جس پر محنت کے پھل کے معیار کا انحصار ہے۔ اشتراکیت میں فرد کی کوئی ملکیت نہیں، جبکہ سرمایہ دارانہ نظام میں ہر فرد اپنی قابلیت اور محنت کے بل بوتے پر اپنی ملکیت میں اضافہ کر سکتا ہے، اس نظام کی خوبی یہی ہے کہ اس میں فرد اور سرمایہ دار ایک ہی کشتی کے سوار ہیں، دونوں کا نفع و نقصان سانجھا ہے، اگرچہ اس کا تناسب یقینا ًًً مختلف ہو گا، جبکہ اشتراکیت میں ،نفع ریاست کا اور نقصان صرف عوام کا، والا فلسفہ رائج ہے۔

مارکس نے سماجی ڈھانچے کا یک رخی مطالعہ کیا، یعنی کہ پیداوار کی ساخت و تناسب کا اور اس میں صرف استحصال دیکھا ، لیکن اسی ساختِ پیداوار کے اہم ترین پہلو، لچک دار مگر مضبوط پیداواری نظام کو نظرانداز کیا گیا، وہ نظام جو فرد کو نجی ملکیت کی ضمانت دیتا ہے، یہ نظام زندگی کا وہ سماجی و معاشی دھارا ہے جو اپنی سمت خود طے کرتا ہے، یہی لچک دار مگر مضبوط پیداواری نظام ہی معاشرے میں معاشی استحکام کی بنیاد ہے، اس سے چھیڑ خانی کا نتیجہ ایک بے ہنگم سی معاشی بھِیڑ کی صورت نکلے گا، جہاں پیداوار کا معیار اور قیمت کوئی معنی نہیں رکھتے، اسی ستون کو سماجی ڈھانچے سے تعبیر کیا گیا، جسے مارکس نے کوئی اہمیت نہ دی، اور اس کی عملی و بھیانک ترین تصویر سوویت یونین کے دورِ کمیونزم میں دیکھی جا سکتی تھی۔

یہ پہلا ستون ہے، جس پر بحث ہوئی، اب دوسرے ستون کی طرف آتے ہیں۔

” سائنس، مذہب، فلسفہ، فنونِ لطیفہ و سیاست میں مصروفیت سے پہلے ضروری ہے کہ فرد کیلئے کھانے پینے، کپڑے و مکان کا بندوبست کیا جائے، اور اس کیلئے ضروری ہے کہ پیداوار میں اضافے کیلۓ فرد اپنی صلاحیتیں بروئے کار لائے ”

یہ سنہری الفاظ مارکس کے ہیں اور ان سے متفق نہ ہونا مشکل ہے، یقیناً پیداوار معاشرے کیلئے ناگزیر ہے، لیکن یہاں یہ یاد دلانا ضروری ہے پیداوار میں اپنی صلاحیتیں لگانے سے پہلے فرد کا اپنا وجود ضروری ہے، یعنی کہ اس کی پیدائش، جسے چاہیں تو حیاتیاتی پیداوار کا نام دیا جا سکتا ہے، گویا کہ صنعتی پیداوار کیلئے حیاتیاتی پیداوار یعنی افزائش نسل اولین شرط ہے ، جس کیلئے ایک قدرتی اور زندگی دینے والا سماجی نظام ، جسے خاندان کہاجاتا ہے، اپنی تمام تر متنوع اشکال میں درکار ہے۔

اگر طبقاتی ساخت معاشرے کا ڈھانچۂ اکبر ہے تو اسی معاشرے کا ڈھانچۂ اصغر، خاندان ہے جو کہ کسی بھی معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔ خاندان ہی ایک قبیلہ ہے، اور قبائل کے درمیان رابطہ و اتحاد ہے، اور خاندان ہی فرد کی شناخت اور قومیت ہے، اگر ایسا ہے، اور ایسا ہی ہے، تو ہم کہنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ ایک بڑا، بلکہ سب سے بڑا اور اہم سماجی ڈھانچہ یا اکائی ہے۔
قومیت اور قومی شناخت ایک بڑے خاندان کی مانند ہے، جسے اجتماعی انفرادیت کہا جا سکتا ہے جو ایک مخصوص روحانی و اخلاقی عنصر اپنے اندر لئے ہوئے ہے، یاد رہے کہ انفرادیت و روحانیت کا چولی دامن کا ساتھ ہے، انفرادیت کو کچلنا روحانیت کو کچلنے کے مترادف ہے، اور مارکس کے فلسفے نے انفرادیت، خاندان، قبیلے و قومی شناخت کا گلا گھونٹا جب یہ نعرہ لگایا کہ ، ” ساری دنیا کا مزدور طبقہ متحد ہو جائے ” یعنی کہ خاندان، نسل، قوم، شناخت و قبیلہ کوئی معنی نہیں رکھتے، سب استحصالی قوتوں کے خلاف ایک ہی رنگ میں رنگ دئیے گئے، مگر پہلا، دوسرا اور تیسرا سب ایک کیسے ہو سکتے ہیں، یہ رنگ ہر کسی کو زیب نہ آیا، یہیں سے نسل پرستی اور بعد میں اسی نسل پرستی کی بنیاد پر دو عالمی جنگیں انسانیت کا مقدر ٹھہریں کہ قومیت و قومی شناخت مٹانے کی کوشش میں فرد روحانیت سے ہاتھ دھو بیٹھا اور انہی کھوکھلے مزدورں اور کسانوں نے ایک دوسرے کا بیہمانہ قتل کیا۔

ثقافت و فن کسی بھی معاشرے کی ترقی میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں، بلکہ گاہے معاشرے کی ترقی کی رفتار انہی دو کو پیمانہ بنا کر ناپی جا سکتی ہے، اور ان دونوں پہلوؤں کی ترقی کیلئے ایک قدرتی نظام، خاندان، کی ضرورت ہے، جو فرد کو شناخت دے، قومیت دے، اعتماد دے، جبکہ اس کے برعکس پیداواری نظام ایک جزو ہے معاشرے کا، اگر اسے کُل گرداننے کی کوشش میں، فن، ثقافت، خاندان، قومیت، انفرادیت و روحانیت کو مسخ کیا جائے گا تو انجامِ گلستاں تباہ کن ثابت ہوگا۔

ثقافت اور فن درحقیقت تاریخ کی مصنوعات ہیں اور تاریخ اپنی اصل میں خالصتاً مذہبی اور قومی ہے، اور اس میں کیا شک ہے کہ مذہب اور روایات کسی بھی معاشرے کی روحانیت میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں، جبکہ ہم جانتے ہیں کہ مارکس کے نزدیک مذہب عوام کیلئے افیون ہے، اسی لیے مذہب کو بھی، نجی ملکیت کی طرح، نیست و نابود کیا جانا چاہئیے، اور مارکس، لینن اور سٹالن نے اپنی تمام تر توانائیاں اسی سمت میں صرف کیں۔
کسی بھی معاشرے کے ان دو اہم ترین ستونوں ، مادّی اور روحانی، یعنی کہ نجی ملکیت اور انفرادیت، کو مکمل طور پر تباہ کرنا ہی کیمونزم کا خاصہ رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

( کامریڈ دوستوں اور اشتراکیت کے طلباء کا تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں)۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply