مارکس، سماج اور انقلابی سیاست۔۔۔اسد الرحمان

آج مارکس کا یومِ ولادت ہے مارکسی فکر نے جدید دنیا کی پرداخت میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ مارکس نے بہت سے حوالے سے جدید معاشی اور سیاسی فلسفے میں گراںقدر اضافے کئے تاہم اسکی کی گئیں سیاسی تشکیلات تجربات کے بعد اپنی افادیت ثابت کرنے میں ناکام ثابت ہوئیں۔ ایک ریاست اور ایک پارٹی کا( ’مزدور آمریت‘ کی نظریاتی ردا کے تلے) کا سیاسی ڈھانچہ انسانی آزادیوں کی بڑھوتری کی بجائے سرمائے کی بہتر ’ مینجمنٹ‘ کا کارن ہی بنا۔ لیکن اس کا سب سے بڑا کارنامہ دراصل سرمایہ دارانہ معشیت کی فلسفیانہ وضاحت تھی۔ محکموں کو تاریخ میں پہلی بار مارکس نے اخلاقی کی بجائے منطقی بنیادوں پہ یہ جواز فراہم کیا کہ انکی محنت ہی دراصل دولت کی پیدائش اور بڑھوتری کا باعث ہے۔
اسی طرح مارکس غالبا ًًً واحد انیسویں صدی کا مفکر ہے جس کے ہاں نسلی تفاخر موجود نہیں اور وہ انسانی حقوق کو رنگ کی بنیادوں پہ متعین نہیں کرتا جیسا کہ اس وقت کے  بڑے نام (جان ملز وغیرہ) کرتے ہیں بلکہ اس نے شاید تاریخ میں پہلی بار بنا کوئی حد بندی قائم کیے ( تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں میں مسلمان ہونا حد ہے) تمام محکوموں کو ایک ہونے کا نعرہ دیا۔ مارکس نے ہندوستان جیسے محکوم ممالک کے لوگوں کی بغاوت کی کھل کر حمایت کی جبکہ یہاں سر سید اور بعد میں کے کے عزیز (تاریخ دان) جیسے لوگ بھی اس تحریک کو ایک ’بے کار’ وقتی ابال قرار دیتے رہے۔ اس حوالے سے ایڈورڈ سعید کا مارکس کو بھی متشرقین کی لسٹ میں ڈالنا بالکل سمجھ نہیں آتا ( اعجاز احمد، عرفان حبیب اور صدیق ال ازم کے مضامین مزید تفصیلات کیلئے دیکھئے)۔
مارکس کا سب سے اہم نظری کارنامے تاریخی مادیت کا نکتہ نظر پیش کرنا تھا جس کی وجہ سے تاریخ کو ٹھوس بنیادوں پہ دیکھنے کا اہم اوزار انسانوں کے سامنے آیا۔ تاہم بقول ڈاکٹر منظور پاکستان جیسے سماجوں میں مارکس کے تاریخی مادیت سے کشید تاریخی اداور ( جو کہ طرزِ پیداوار سے جڑے ہوتے ہیں) کو ایک میکانکی انداز سے سمجھا ، پرکھا اور استعمال کیا گیا۔ مارکس کی تاریخی جبریت کو (historical determinism) کو تقدیری جبر سمجھا گیا کیونکہ معاشرے زرعی پیداواری رشتوں پہ قائم تھے اس لئے انقلاب اور تبدیلی کو بھی تقدیر ہی مانا گیا بنا اس بات کو سمجھے کہ ٹھوس معاشی حالات کے بنا کبھی بھی سوشلسٹ معشیت کو قائم نہیں کیا جا سکتا۔
بیسویں صدی میں ہونے والے تمام تر انقلابات مارکس کی پیشن گوئی کے الٹ پچھڑے ہوئے سماجوں میں ہوئے جو کہ میرے نزدیک معاشرے کو صنعتی دور میں لانے کی ایک کوشش ہی ثابت ہو سکے اور بالا آخر سرمایہ دارنہ اداروں کی بحالی اور تقویت پہ ہی منتج ہوئے۔ غرض یہ کہ لین اور ٹراٹسکی اور ماو وغیرہ کی نظریاتی بحثوں سے بالائے نظر تاریخ کا ٹھوس مشاہدہ اور سبق یہی بتلاتا ہے کہ صنعتی ہوئے بنا کوئی سماج سوشلسٹ ہونے کی جانب نہیں بڑھ سکتا۔ ہمارے مارکسی آج بھی معاشرے کی صنعتی تشکیل کے بنا ہی سوشلسٹ انقلاب لانے کو مطمع نظر جانتے ہیں اور اسی وجہ سے سماج کا ٹھوس تجزیہ بھی نہیں کر پاتے اور سیاسی طاقت کے حصول سے بھی کوسوں دور کھڑے نظر آتے ہیں۔
پوری دنیا میں لیفٹ یا بایاں بازو بکھرا ہوا نظر آتا ہے، لوگ تحریکیں چلا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف پارٹیاں تحلیل ہوئے جا رہی ہیں۔ سوشلسٹ پارٹی اقتدار میں آ بھی جائے تو ‘سوشلسٹ’ پالیسی بنانے کا کشٹ نہیں کر سکتی ۔ اسکی وجوہات کیا ہیں اور کیوں ہیں اس پہ ہر روز ہزاروں صفحات کالے کیے جاتے ہیں لیکن کوئی بھی جواب بن نہیں پڑ رہا۔ وین گارڈ ازم کا ’دلی احترام’ تو سب کرتے پائے جاتے ہیں ّ( مثلاًًً  ززک جو کہ لیفٹ کا ایک بڑا نام ہے) لیکن اس پارٹی کا نظریہ کیا ہو گا اس پہ کوئی اتفاق نہیں ہو پا رہا۔ تاہم عوام ان سب بحثوں سے دور خود ہی تحریکیں بنا کر حکومتوں کو اپنے سامنے جھکا رہے ہیں (پیلی قمیض تحریک ایک مثال ہے)۔ آخر کیا وجہ ہے کہ مارکس کا بتایا گیا ’ کرائسز موومنٹ’ آ کے ٹھہر گیا ہے لیکن مارکسی قیادت نہیں ابھر رہی؟
سینا بدائی کے مطابق سیاسی انقلابات صرف معاشی کرائسز کے لمحات سے پیدا نہیں ہوتے بلکہ اس لیے ایک طاقتور ویزن بھی چاہیے ہوتا ہے جو کہ اس قدر لبھا دینے والا ہو کہ لوگوں میں قوتِ عمل کو ابھارے۔ بیسیوں صدی کے تمام انقلابات میں مارکسی فکر سے ہٹ کر دئیے گئے سیاسی نعرے ہی کامیاب ٹھہرے ۔ روس ہو یا چین، کیوبا ہو یا ایران لیڈروں نے مارکس کے دئیے گئے پروگرام سے ہٹ کر اپنے پروگرام پیش کیے اور انکو قبولیت کی سند بھی عطا ہوئی۔ پاکستان اس وقت ایک شدید بحران میں ہے لیکن کیا عوام پھر بھی بائیں بازو کی جانب متوجہ ہے؟ صرف قیادت کا بحران کہہ کر اپنی ناکامی کا جواز تراشنا اس بات کا انکار ہے کہ بائیں بازو کی سٹریجی اور عوام کے درمیاں ایک حدِ فاصل قائم ہے اسی وجہ سے یہاں قومی بنیادوں پہ تو تحریکیں نکل رہی ہیں لیکن طبقاتی تحریکیں؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ حالات کا ٹھوس تجزیہ کیا جائے بیسیوں صدی کے سیاسی ماڈلز کا تنقیدی جائزہ لیا جائے اور عوام کی ضرورتوں کو مد نظر رکھ کر سیاسی لائحہ عمل بنائے جائے نہ کہ اپنے تصورات کو سماج پہ انڈیلنا جاری رکھا جائے۔ مارکس کا نظریہ اپنی جگہ پہ قائم ہے کہ انسان کو قلت کے سماج سے فراوانی کے سماج تک پہنچنا ہے لیکن کیا ایک صنعتی بندوبست کے بنا یہ ممکن ہے؟ اور اس بندوبست کی سیاسی شکلیں کیا ہوں گی؟ ضروری نہیں ہے کہ روس اور چین کے تجربات یہاں بھی من و عن دہرائے جائیں ۔ یہ جہاں امکانات کا ہے اور نئے امکانات کی تلاش اور تشکیل ہی انقلابی سیاست کی واحد مضبوط اساس ہے،
۵مئی ۲۰۱۹ پیرس

Facebook Comments

اسد رحمان
سیاسیات اور سماجیات کا ایک طالبِ علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply