نائن الیون اور سازشی نظریات۔۔۔۔ عمیر فاروق

اسپین ایمبیسی اسلام آباد سے پاسپورٹ وصول کیا اور لاہور کی راہ پکڑی کہ ٹکٹ وہیں سے خریدنا تھا۔ چھوٹا بھائی حسن ہمراہ تھا۔ لاہور ایک دوست کے پاس رکے، ٹکٹ خرید کے دوست کے فلیٹ پہ پہنچا تو حسن جو اس وقت کافی بچپن میں تھا خوشی سے جذباتی ہورہا تھا آتے ہی بتایا کہ بھائی امریکہ کی ایسی تیسی ہوگئی۔ حیرانی سے پوچھا کہ کیا ہوا ساتھ ہی ٹی وی پہ نظر پڑی تو طیارے بار بار ٹوئن ٹاور سے ٹکرا رہے تھے۔ ایک لحظہ کے لئے گم سم ہوگیا۔ حسن کہہ رہا تھا بہت اچھا ہوا۔ لیکن میری سوچ کا اپنا ایک بیک گراؤنڈ تھا نوے کی دہائی میں جب جہادی اور طالبانی نظریات مقبول تھے تب سے ہی اس کے خلاف تھا اور اٹھتے بیٹھتے تنقید کرتا تھا جو اسلام کی گرمئ جذبات میں رد ہوا کرتی تھی اور ہم سوچ کم ہی نظر آتے۔ میرا جواب یہ تھا کہ اچھا نہیں بہت برا ہوا اس کے نقصانات اور اثرات بہت دور جائیں گے۔ تب گرمئ جذبات میں میری بات ہمیشہ کی طرح رد ہوئی۔

کچھ ہی دنوں بعد عروس البلاد بحیرہ روم کی ملکہ ، بارسلونا میں تھا۔ بس میں میرا ہم سفر لاہور کا عمران اور ایک مراکشی لڑکی تھی عمران نے مراکشی لڑکی سے نائن الیون کا فخریہ ذکر کیا تو اس نے کہا کہ یہ تو سوچو ہم کتنے طاقتور ہیں اور وہ کتنے؟ اس کا نتیجہ کیا برآمد ہوگا؟
امریکہ بدل چکا تھا لیکن یورپ نہیں بدلا تھا۔ عام یورپی کہہ رہا تھا کہ دہشت گردی دنیا میں ہمیشہ رہی باسک سپین میں بم پھاڑتے رہے، ریڈ بریگیڈ اٹلی میں اور آئی آر اے برطانیہ میں دریں اثنا امریکہ میں آئی آر اے کے لئے کھلم کھلا چندہ جمع ہوتا تھا۔ کیا آج ہم اس لئے دنیا بدل لیں کہ پہلی دفعہ امریکہ دہشت گردی کا شکار بنا؟

یونیورسٹی میں ایرک سے بہت دوستی ہوگئی وہ پیرس کا فرنچ تھا ایک دن اس کے کچھ فرنچ دوستوں کے ساتھ اکٹھے تھے اور اس کے دوست نے پوچھا کہ نائن الیون کے بارے میں کیا خیال ہے کہ کس نے کیا؟ میں نے اپنا اندازہ دیا کہ اسامہ کا ساتھ فلسطینیوں کاکام ہوگا۔ تب مجھے اس نے بتایا کہ نہیں ایک فرنچ صحافی اس پہ کتاب لکھ چکا ہے کہ یہ ان کا اندر کاکام ہے اگلا سوال میرا تھا کہ پھر اسامہ؟ جواب صاف تھا کہ انہی کا بندہ ہے اسی کی دہائی میں جب سی آئی اے کے لئے کام کرتا رہا جو تسلیم شدہ ہے تو ایجنسی سے بھاگنا ممکن نہیں ہوتا ایجنسیاں روپ بدلواتی رہتی ہیں کام کی نوعیت کے پیش نظر، خیر اس وقت عقل آج سے بھی کم تھی کچھ سمجھا کچھ نہ سمجھا بلکہ یقین نہ ہوا۔ نیوز ویک ، ٹائم ریڈرز سب انگلش میں ہی ہیں۔ ہم یورپی صحافت کو تو پڑھتے ہی نہیں زبان کی وجہ سے، یہ بھی مصیبت ہے۔ کبھی عرب کہا کرتے تھے کہ خدا عربی بولتا ہے آج انگلش پوچھتا ہے کہ جب اوپر جاؤ گے تو کونسی زبان بولو گے؟ خدا کے لب و لہجہ کے ساتھ اس کی زبان بھی بدلتی ہے ارتقا اسی کا نام ہے شاید۔

سال بعد گھر چکر لگا، پنڈی صدر جانے کے لئے گھر سے گاڑی نکالی تو ہمسایہ نے کچھ مہمانوں کو صدر کے قریب ڈراپ کرنے کا کہا، وہ سب بہت نیک لمبی لمبی داڑھیوں والے تھے۔ راہ میں گپ رہی۔ مذہبی لوگ سننے سے زیادہ بتانا پسند کرتے ہیں تاکہ آپ کا قبلہ درست ہو۔ چھوٹتے ہی تحمکانہ اور پرامید لہجہ میں پوچھا کہ سپین میں اب مسلمانوں کے اب کیا حالات ہیں؟ تنگ کرتے ہیں؟ کہا کہ نہیں چار سو سال پرانی کہانیاں ختم ہوئیں اب تو سڑکوں کے نام بھی پرانے مسلمان بادشاہ، شہزادیوں اور ملکاؤں کے نام پہ رکھے جاتے ہیں۔ مایوسی ان کے چہرے سے نظر آئی پھر نائن الیون کے بعد کے حالات کا پوچھا۔
تب صاف کہا کہ معاملہ مشکوک ہے جو وہ کہتے ہیں کہ اسامہ سے لیکر نائن الیون سب گڑ بڑ گھوٹالہ ہی ہے۔ متشرع چہرے سخت ہوگئے اسامہ کے مشکوک ہونے کے ذکر پہ پھر ہوں ہاں ہی ہوتی رہی۔

مجھے آج تک یہ سمجھ نہ آیا کہ اگر نائن الیون کسی سازشی پلان کا حصہ تھا ،تو اسامہ بھی تو اسی پلان میں شامل تھا، اسامہ کا سازشی کردار ماننے سے ہم انکار کیوں کر جاتے ہیں؟

بہرحال کافی سال بیت گئے اور حسن بڑا ہونے کے ساتھ بالغ بھی ہوگیا بات کرتے ہوئے نائن الیون پہ اپنی جذباتیت پہ مبنی سوچ کا اعتراف کیا اور کہا کہ واقعی بہت تباہی ہوئی اس کے نتیجہ میں۔مجھے آج تک سمجھ نہ آئی کہ ہم جذباتیت پہ مبنی سوچ کے دائروں سے باہر کیوں نہیں نکلتے؟ ہم صرف ردعمل کی دنیا میں ہی رہنا کیوں پسند کرتے ہیں؟ ردعمل در ردعمل کا گھن چکر ہی ہمارا مقدر کیوں ہے؟ کچھ کیمونزم کے ردعمل میں ہوا، کچھ امریکہ کے ردعمل میں ہوا ، کچھ جاہلانہ مذہبیت کے ردعمل میں ہوا، کچھ مشرف کے ردعمل میں ہوا، کچھ طالبانیت کے ردعمل میں ہوا، کچھ فوج کے ردعمل میں آج کل ہورہا ہے جہاں مذہبی اور غیر مذہبی دہشت گردی کا ردعمل مل گیا۔ سازشی نظریات تو سازشی نظریات ہیں یا ان سب کو رد کریں یا سب کو تسلیم کریں۔ آدھے سازشی نظریات تسلیم کرنا اور آدھے کو مسترد کرنا کیا ہوا؟

Advertisements
julia rana solicitors

اگر نائن الیون کے پیچھے امریکہ ہی تھا تو اس بات سے فرار کیوں کہ اسامہ کے پیچھے بھی امریکہ ہی تھا؟ یہاں دہرے معیار کیوں؟لیکن حتمی سوال کہ ردعمل دینے کی بجائے سنجیدگی سے بیٹھ کے سوچنا اور ٹھنڈے دل سے حقائق کو تسلیم کرکے پالیسی بنانا کب شروع ہوگا ؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply