نائن الیون اور ہم ۔۔۔۔۔۔ نذیرناصر

نائین الیون تاریخ کا وہ موڑ ہے جس نے پوری دنیا کی تاریخ کو بدل دیا. مجاہد دہشت گرد قرار پائے اور دہشت گرد مجاہد قرار پائے. نائن الیون کے بعد امت مسلمہ پر جو ظلم کے پہاڑ ڈھائے گئے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی. اسلامی حکومت کے خاتمے سے لیکر عراق، شام و لیبیا تک آگ خون میں نہلا دیا گیا. وطن عزیز پر غیروں کی جنگ مسلط کر دی گئی.

اسی جنگ کی پاداش میں ہم اپنے سیکڑوں فوجی جوان اور ہزاروں معصوم عوام کی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے اتحادی ہم پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں بلکہ وہ اپنی ہر پالیسی سے ہمارے دشمنوں کو مضبوط اور ہمیں کمزور کرنے میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں. وہ بھول چکے ہیں ہم نے اپنی بہن عافیہ کو ان کی مانگ پر حوالے کیا. ہم نے سیکڑوں لوگ انھیں سونپ دیے تھے. انھیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ جس وقت ساری دنیا انھیں چھوڑ کر روس کی ہمنوائی میں جانے والی تھی، ہم نے سہارا دے کر روسی عزائم کو خاک میں ملا کر پوری دنیا کی دشمنی مول لینے کے ساتھ اپنے وطن کو خطرات کے بھنور میں دھکیل دیا.

آج وہ بھوکے بھیڑیے کی طرح اس تاک میں ہیں کہ ہم کب غلطی کریں اور وہ ہم پر مسلط ہوجائیں. وہ ہمارے پڑوس کے ساتھ ہر قسم کے معاہدے بھی کر رہے ہیں اور ہر قسم کی مراعات سے بھی ان کو نوازا جا رہا ہے.

میں تو کہتا ہوں کہ نائن الیون جہاں دنیا میں سیاسی تبدیلی کا باعث بنا وہی پر کھوٹے کھرے کا امتیاز بھی واضح ہوگیا.

نائین الیون سازش تھی، حادثہ تھا یا دہشتگردی کا وار، مگر امریکی حکمرانوں کی داد دینا دینی پڑے گی. ایک واقعے کی آڑ میں پوری دنیا کا نقشہ ہی بدل دیا. ہمیں سبق سیکھنے کی ضرورت ہے. ہم دنیا سے دوستی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں مدمقابل کے استعمال کی چیز بننے کے بجائے مستقل ایک طاقت کی حیثیت سے خود کو منوانا ہوگا.

نائن الیون کے بعد پاکستان میں بڑے بڑے واقعات رونما ہوئے مگر ہم نے اپنے دشمن کو پہچاننے اور بے نقاب کرنے کے زحمت نہیں کی بلکہ اسی لکیر پر چلتے رہے جو نائن الیون کے بعد امریکہ نے کھینچی تھی. اس کا نقصان یہ ہوا کہ اپنے ہی ہم سے روٹھ گئے. واجبی سے رشتے سارے ٹوٹ گئے اور دشمن کو بھرپور موقع ملا کہ وہ ہمارے پڑوسی ممالک کو ہمارے خلاف استعمال کرے اور وہاں ایک مضبوط نیٹ ورک قائم کرے.

اے پی ایس حملے کے بعد ہمیں ہوش آیا کہ ہم غلط سمت جا رہے تھے. ہمیں لکیر کا فقیر بننے کے بجائے خود فیصلے کرنا ہوں گے. دیر آید درست آید کے مصداق ہم اپنی پالیسیوں میں تبدیلیاں لائے جو ہمیں بہت پہلے لانی چاہیے تھے. اگر ہم پہلے ایسا کرتے تو ہزاروں عوام دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے سے بچ سکتی تھی اور خطے میں ہمارے دشمنوں میں اضافہ بھی شاید اتنا نہ ہوتا.

اب وطن عزیز درست سمت گامزن ہے. شہروں میں امن قائم ہو رہا ہے. سوات وزیرستان میں پھول کھل رہے ہیں. بارود کی بدبو پھولوں کے عطر میں تبدیل ہو رہی ہے.

Advertisements
julia rana solicitors

کاش یہ سب فیصلے ہم جو اب کر رہے ہیں، نائن الیون سے قبل کرلیتے.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply