باباجی، چاچا جی تے میں۔۔ مدثر بشیر/بُک ریویو

معاشرے میں بکھری ہوئی کہانیوں اور باتوں کو ایک لڑی میں پرونا بہت بڑا فن ہے، بظاہر یہ کچھ مشکل دکھائی نہیں دیتا مگر ان کہانیوں اور باتوں کو تحریر کی شکل دینا کچھ اتنا آسان بھی نہیں، خاص طور پر دیہاتوں کی زندگی کو سامنے لانا۔ مدثر بشیر کو اس فن میں خصوصی ملکہ حاصل ہے وہ معمولی باتوں کو بھی اس انداز میں پیش کرتے ہیں کہ پڑھنے والا سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کیونکہ ہر بات یا کہانی کوئی سبق لئے ہوتی ہے۔

زیر تبصرہ کتاب کی کہانیوں کے عنوانات ہی اس کی نشاندہی کر دیتے ہیں جیسے پنچائیت، نیوندرا، حویلی، اوکات، پرکھ وغیرہ۔

اس کتاب میں مدثر بشیر نے دیہات میں بسنے والے بزرگوں سے سنی ہوئی باتوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ بابا جی، جو ان کے دادا جان تھے اور گاؤں کی زندگی میں ایک سربراہ کی حیثیت رکھتے تھے ان کی باتیں اور فیصلے انھوں نے بڑی تفصیل سے بیان کئے ہیں۔

دوسرے حصے میں انھوں نے اپنے چچا جان کی سنائی ہوئی کہانیاں بیان کی ہیں، کتاب کے تیسرے حصے میں وہ کہانیاں شامل ہیں جو دیہات کے رہنے والے دوسرے افراد نے انھیں سنائی ہیں، مدثر بشیر نے اس بات کی وضاحت کر دی ہے کہ بہت سی کہانیوں میں ضرورت کے مطابق تھوڑی بہت تبدیلی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ دیہات میں گائے جانے والے گیت بھی کتاب کے آخری صفحات کی زینت بنائے گئے ہیں جس سے کتاب کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ پنجابی زبان میں لکھی گئی یہ کتاب پنجاب کے معاشرے کی صحیح معنوں میں عکاسی کرتی ہے۔ مجلد کتاب کا ٹائٹل بھی بہت خوبصورت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

قیمت: 160روپے، صفحات: 104
ناشر: سانجھ، مزنگ روڈ، لاہور

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply