آن لائن قرآنی تعلیم اور احتیاط ۔ حافظ صفوان محمد

قرآنِ پاک کی باقاعدہ تدریس کا سلسلہ حضرت ارقم رضی اللہ عنہ کے گھر سے شروع ہوا۔ یہ تعلیم و تعلم ہماری قدیمی مذہبی روایت ہے۔ بدلتے زمانے کے ساتھ ساتھ اس تعلیم کے طریقوں میں تبدیلی آتی رہی ہے۔ آج آن لائن ٹیوٹر سے قرآن پڑھنا وقت کی اہم ضرورت اور مقبول ترین طریقہ بن گیا ہے۔

پاکستان میں انٹرنیٹ کی فراہمی پبلک ڈیٹا نیٹ ورک سے شروع ہوئی۔ میں نے قرآنِ پاک کی آن لائن اور آف لائن تعلیم دسمبر 1996 سے شروع کی۔ اولًا ICQ اور Hotmail اور بعد ازاں مختلف میسنجرز اور ای میل سروسز کے ذریعے یہ کام چلایا۔ پھر اس کارِ خیر کے لیے مختلف کمپنیوں کے پروگرام جیسے یاہو، سکائپ، ٹیم ویوئر اور فیسبک وغیرہ استعمال کیے۔ کئی لوگوں کو چھوٹے بڑے پیمانے پر یہ کام شروع کرایا جو ان کی حلال یافت کا ذریعہ بنا۔ مجھے اس شعبے میں پہل کار (pioneer) ہونے دعویٰ نہیں ہے تاہم ابھی تک مجھے ایسا کوئی آدمی نہیں ملا جس نے وطنِ عزیز میں مجھ سے پہلے آن لائن تعلیمِ قرآن کا کام کیا ہو۔ پاکستان کا پہلا آن لائن فتویٰ سافٹ ویئر اور ویب سائٹ بھی اسی خاکسار نے بنائی۔

عرصہ دراز سے مختلف حیثیتوں میں آن لائن تعلیمِ قرآن کے شعبہ سے منسلک ہونے کی وجہ سے مجھے ہر طرح اور ہر سطح کے نشیب و فراز کا سامنا ہوا۔ جو مسئلہ پیش آیا، تکنیکی ہو یا سماجی یا شرعی، اس کا حل بھی خود ہی نکالا۔ کل ایک بڑے مفتی صاحب نے اس سلسلے میں والدین کے لیے کچھ ہدایات لکھنے کا حکم دیا چنانچہ یہ سطور لکھنے کی ہمت کی۔ یاد رہے کہ آن لائن تعلیمِ قرآن کا کاروبار زیادہ تر ملک سے باہر ہوتا ہے، یعنی پاکستان کے قاری صاحب یا قاریہ (جو ننانوے فیصد علمائے دین ہوتے ہیں) بیرونِ ملک پاکستانیوں کو تعلیم دیتے ہیں۔ آگے کی ساری گفتگو اسی تناظر میں ہے۔

آن لائن تعلیمِ قرآن سے متعلق چند اہم امور جنھیں والدین کو ملحوظ رکھنا اشد ضروری ہے، درجِ ذیل ہیں:

1۔ اپنی بیٹیوں کو مرد استاد کے حوالے ہرگز نہ کریں۔ تجربے نے ثابت کیا ہے کہ اکثر یہ تجربہ خطرناک ثابت ہوا۔ بیرون ممالک میں رہنے والی بچیاں ان کے لیے پاکستان سے بھاگنے کا ذریعہ ہیں۔ یہ استاد چونکہ امیگریشن کے حصول کے لیے درکار لازمی کوائف سے بوجوہ محروم ہوتے ہیں اس لیے تعلیمِ قرآن کے اسی کاروبار کو امیگریشن کے لیے شارٹ کٹ سمجھتے ہیں اور اس کے لیے کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانے کو تیار ملتے ہیں۔

2۔ بیرون ملک مقیم جب چھٹیوں پر یا کسی وجہ سے پاکستان آئیں تو استاد صاحب کو ملاقات کا موقع ہرگز مت دیں، اور نہ ان پر اپنی رہائش گاہ کا پتہ یا تفصیلات آشکار کریں۔

3۔ ان استاد صاحبان کے نت نئے تقاضوں کو ان کا پروفیشن سمجھیں۔ تقاضوں سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ استاد کو باور کروائیں کہ مشاہرے کے علاوہ دیگر مدات کی رقم مشاہرے سے منہا ہوگی۔ اپنے گاڑھے پسینے کی کمائی سے کسی حاجت مند کی امداد کے لیے کسی حقیقی مستحق رشتہ دار کو ترجیح دیں۔ بہتر یہ ہے کہ کسی ٹرسٹ کو بھی امداد نہ دیں۔ یقین کیجیے کہ آپ لوگوں کو ملک سے باہر رہتے ہوئے یہاں کے چندہ مانگنے والوں اور عاملینِ زکوٰۃ وغیرہ کے بارے میں درست معلومات مہیا نہیں ہیں۔

4۔ استاد جس ادارے کا ملازم ہے اس ادارے کے منتظم کا مختلف اوقات میں دو تین بار ویڈیو کال کے ذریعے جائزہ لیں کہ آیا اس کا حلیہ اور باڈی لینگویج اس کے دعوے کے مطابق ہے یا نہیں، نہ کہ آپ کسی غیر مسلم کے ہاتھ جا پڑیں۔

5۔ منتظم اور اساتذہ کی اسناد ضرور طلب فرمائیں اور ان کا اچھی طرح جائزہ لیں۔

6۔ منتظم کی سرکاری شناختی دستاویزات جیسے قومی شناختی کارڈ، بالخصوص NTN ضرور طلب فرمائیں۔ پاکستان میں جائز کاروبار کرنے کے لیے یہ قانونی ضرورت ہے۔

7۔ اگر پاکستان میں کوئی بااعتماد رشتے دار یا دوست ہو جو ادارے میں جاکر وہاں کا تفصیلی تعارف لے سکے تو اچھا ہے، تاکہ آپ انجانے میں کسی کالعدم تنظیم کے ہاتھ مضبوط نہ کر بیٹھیں جس کی وجہ سے آپ کے ملک کے سیکورٹی ادارے آپ کے پیچھے پڑ جائیں۔

8۔ اجنبی کالز پر کان نہ دھریں۔ یہ لوگ بہت لہک لہک کر باتیں کرتے اور لمبے چوڑے دعوے کرتے ہیں۔ اس کے بجائے کسی اعتماد والے ریفرنس سے استاد تلاش کریں تاکہ آپ کا بچہ بچی تجربہ گاہ نہ بنے۔

9۔ دورانِ کلاس ماں باپ میں سے ایک اپنی موجودگی کا لازمی اہتمام فرمائیں۔ اور اپنی اس موجودگی کا احساس استاد کو دلاتے رہیں تاکہ وہ ہوشیار رہے۔

10۔ استاد کی کسی قسم کی منفی سرگرمی یا کسی کالعدم تنظیم سے تعلق کی بو محسوس کرتے ہی استاد کو بلاک کر دیں اور ہرگز ہرگز شک کا فائدہ نہ دیں۔

11۔ نہایت تیز نگاہی سے دیکھتے رہیں کہ قرآن کے نام پر بچہ بچی کو کسی فرقہ کی طرف داری کرنے اور کسی فرقہ کے خلاف بھڑکانے کی کوشش تو نہیں کی جا رہی۔

12۔ قرآنِ مجید پڑھانے والے استاد کو صرف قرآن کی تعلیم تک محدود رکھیے۔ اس کو ون سٹاپ شاپ بناکر اس سے ہر قسم کا دینی مسئلہ مت پوچھیے، اور اگر وہ خود سے بتانے لگے تو روک دیجیے۔

13۔ قرآن پڑھانے والے استاد اور اس کے منتظمِ ادارہ کو اپنی ذاتی اور گھریلو زندگی کے متعلق کچھ مت بتائیے اور نہ اسے پوچھنے کا موقع دیجیے اور ان لوگوں کو اپنی ذاتی یا عائلی زندگی میں داخل ہونے کا موقع نہ دیجیے۔ ان کو اپنی موومنٹ کی اطلاع اور اپنے رشتہ داروں وغیرہ کا تعارف بھی مت کرائیے۔

14۔ بچوں کو پڑھانے والے تمام اساتذہ سے وٹس ایپ، سکائپ، فیسبک، وائبر، آئی ایم او، وغیرہ پر رابطے کے لیے ایک فون نمبر/سم الگ سے لے لیجیے اور ای میل ایڈریس بھی الگ سے بنائیے اور الگ آئی ڈیز بنائیے۔ آپ کے یا بچوں کے ذاتی نمبر اور ای میل ایڈریس وغیرہ ان اساتذہ کے پاس نہیں ہونے چاہییں۔

15۔ احتیاط کیجیے کہ آپ یا بچے کسی صورت میں منی لانڈرنگ کے لیے استعمال نہ ہوں۔

16۔ ویب کیم آف رکھا جائے، بالخصوص بیٹیوں کا۔

17۔ سائبر کرائم کا دھیان رکھیے، کہ دورانِ تعلیم کوئی ایسا مواد یا بات نہ لکھی جائے جو پاکستان یا آپکے اپنے ملک کے قانون میں جرم ہو۔

18۔ اگر آن لائن پڑھانے والا آپ ہی کے شہر میں ہو تو اور بھی احتیاط کیجیے اور بالمشافہہ ملاقات سے بچیے. اس سے بہت مکروہ خرابیاں پیدا ہوتی ہیں. آن لائن تعلق کو صرف آن لائن اور سائبر تعلق تک محدود رکھیے۔

19۔ انتہائی دھیان رکھنے کی آخری بات یہ ہے کہ مغربی ممالک میں قانونی طور پر آپ کو اپنی مرضی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا حتیٰ کہ آپ کے والدین بھی، اور اس قانون کا استاد اور شاگرد دونوں ناجائز فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اٹھاتے بھی ہیں۔

ان باتوں کا اگر دھیان رکھا جائے تو قرآنِ مجید آن لائن کی تعلیم کے شعبے میں گھس آنے والے بدکاروں کی غلط کاریوں سے بڑی حد تک بچا جا سکتا ہے اور اس مقدس کام کو بدنامی سے بچایا جا سکتا ہے. الله تعالیٰ ہم سب کو قرآنِ مجید پڑهنے، سمجهنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ نہ صرف بچوں کو قرآن (عربی ناظره) پڑهایا جائے بلکہ والدین کو چاہیے کہ وه کبهی کبهار آیات اور سورتوں کا ترجمہ بچوں کو سلیس زبان میں سمجها دیا کریں۔ ایسا کرتے وقت بچوں کی عمر اور سمجھ کو ملحوظ رکهتے ہوئے آیات اور سورتیں منتخب کیجیے۔ جو کچھ بچے کو بتایا جائے، کوشش کی جائے کہ گهر میں خود اس پر عمل کریں۔ بچوں کو ترغیب عمل سے ہوتی ہے نہ کہ تقریر سے۔

Advertisements
julia rana solicitors

(حافظ صفوان محمد صوفیا کے شہر سے اٹھتی ہوئی آواز ہیں، جو اکیسویں صدی میں شاہ رکن عالم کی سنتِ محبت زندہ کر رہی ہے۔)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply