مشرق میں روز قتل ہوتا ہوا سورج۔۔۔اظہر مشتاق

 

کسی دیہی علاقے کے مرغزاروں سے بل کھاتی ندیوں ، گنگناتے جھرنوں  اورسر پٹختی آبشاروں کے ساتھ سفر کرتے کرتے جب  دریا کی ساتھ والی سڑک پر چلنا شروع کریں تو تھوڑی دور جاتے ہی ایک  بڑا سا بورڈ دکھائی دے اور اس بورڈ کی عبارت آپ کو یہ بتلائے کہ اس دریا میں ایک  نایاب نسل کی مچھلی کی تعداد خطرناک حد تک کم ہو گئی ہے اور اس نایاب نسل کی مچھلی کو  بچانے کیلئے متعلقہ محکمہ اور غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ تعاون کیجئے ، تو آپ سمجھ لیجئے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات ان  سرسبز وادیوں کے دامن تک پہنچ چکے ہیں، یہی نہیں جوں جوں آپ دریا کے ساتھ محوِ سفر ہوتے ہوئے ، شہری زندگی کے قریب تر ہوتے جائینگے دریا کے پانی کے رنگ  و بو میں تبدیلی، دریا کے کناروں پر تمام تر کثافتوں کا مجموعہ آپکو دریا برد ہوتا  ہوا دکھائی دے گا، اس کے ساتھ  ساتھ آسمان کو چھوتی شہری عمارتوں کو اگر ایک فاصلے اور مناسب اونچائی سے دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ زمین پر سیمنٹ  سے بنی عمارتوں کا جنگل امڈ آیا ہے، اگر آپ  فطرت اور ماحول کے بارے میں تھوڑی سی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں تو آپ کسی بھی چھوٹے یا  بڑے شہر میں عمارتوں کے جنگل میں  ہریالی کا نشان ڈھونڈھتے ہوئے اس شہر کے  اندر بسنے والے انسانوں کی زندگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے ممکنہ اثرات کے بارے میں  ضرور متفکر ہوں گے۔

بڑھتی ہوئی ترقی اور صنعتی ترقی کے عمل سے انسان نے اپنی آسائشوں اور آرام دہ زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ سرمایہ دارانہ نظام کی ضروریات  کو مدِ نظر رکھتے ہوئے منڈی میں اپنے منافع  میں حصے کے حصول کیلئے مشرق کا  انسان فطری نظام اور اس میں موجود توازن  کو برقرار رکھنے میں  غفلت برتتے ہوئے  ماحول پر صنعتی اثرات کو مکمل نظرانداز کئے ہوئے ہے۔  مشرقی معاشرے میں ماحول  کے بارے میں عدم آگاہی اور ماحول کے مسئلے  کو اہم مسئلہ نہ سمجھنےکے نتیجے میں زیر زمین پانی کی کمی، جیوویودتا (بائیو ڈائیورسٹی ) میں بگاڑ، موسمی تغیر و تبدل ، سیلاب، بے موسمی برسات اوردرجہ حرارت میں خطرناک حد تک اضافے کے مسائل جنم لے رہے ہیں ۔ اسکے علاوہ مشرقی ممالک میں توانائی کے  حصول کے لئے آج بھی  حیاتیاتی ایندھن   مستعمل ہیں جن کے استعمال میں روز افزوں اضافے کی وجہ سے   فضائی آلودگی اس حد تک بڑھ چکی  ہےکہ تاروں بھرے آسمان کا نظارہ ممکن نہیں رہا۔    پاکستان اور بھارت میں بجلی پیدا کرنے کیلئے آج بھی حیاتیاتی ایندھن کا استعمال  بجلی پیدا کرنے کا معقول اور سستا ذریعہ سمجھا جاتا ہے جبکہ  توانائی کے قابلِ تجدید ذرائع ماحول دوست بھی ہیں اور دیرپا بھی۔ستم ظریفی یہ ہے کہ کوئلے سے بجلی پیدا  کرنے کی تکنیک دنیا میں ماحول کیلئے مہلک ہونے کی وجہ سے متروک ہوتی جارہی ہے لیکن پاکستان اور بھارت میں آج بھی کول پاور پلانٹس کی تنصیب کی جارہی ہے ۔  کول پاور پلانٹس سے نکلنے والا دھواں انسانی صحت کے لئے  خطرناک حد تک مہلک ہے  ، کوئلے سے پیدا ہونے والا  دھواں دل ، پھیپھڑوں ، سانس کی نالی ، دماغ، آنکھوں اور جلد کی بیماریوں کا مؤجب بنتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے    کہ مقامی ماحولیاتی تحفظ کے اداروں اور ان کے  متعین کردہ اصولوں کے ہوتے ہوئے بھی صنعتی آلودگی پر قابو پانا دیوانے کا خواب لگتا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں کالے پولیتھین لفافے پر حکومت کی طرف سے عائد کردہ پابندی کے باوجود بھی  آج بھی میٹروپولیٹن اور کاسموپولیٹن شہروں  میں کالے لفافے  کی صنعت ، ترسیل اور استعمال جاری ہے۔ اسکے علاوہ پاکستان کے دارلخلافہ اسلام آباد میں شہر کے کچرے کو سائنسی اصولوں کے مطابق ٹھکانے لگانے کیلئے معقول جگہ کا انتخاب محض دو سال قبل ہوا ہے، جبکہ ماحولیاتی اعتبار سے اسلام آباد کو دوسرے شہروں سے بہتر سمجھا جاتا ہے۔

اگر بڑے صنعتی شہروں کو دیکھا جائے تو  کسی بھی کارخانے میں پانی کی نکاسی سائنسی  اور ماحولیاتی معیار کے مطابق نہیں کی جاتی ، کارخانوں اور بڑی صنعتوں کا ذکر تو درکنا ر شہری حکومتیں گھریلو  استعمال کے نتیجے میں پیدا ہونے والے گندے پانی کی نکاسی کے قابل عمل نظام کو وضع کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں، یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ بعض علاقوں میں گندے پانی اور پینے  والےپانی کے پائپ  اتنے بوسیدہ ہوچکے ہیں کہ پینےوالے  پانی میں گندے پانی کی آمیزش ہو رہی  ہوتی ہے، جسکی وجہ سے  انسان ہیپاٹائٹس بی ، سی ، ڈی اور ای جیسے موذی امراض کا شکا ر ہوتے ہیں۔   عالمی ادارہ ءِ صحت کی 2019 کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں پانچ کروڑ اور  پاکستان میں تقریباً  پچاس لاکھ لو گ  ہیپاٹائیٹس کے مرض کا شکار ہیں ،  عالمی ادارہ ءِ صحت کے ماہرین کے مطابق اس مرض کے پھیلنے کی وجہ آلودہ خوراک اور آلودہ پانی کا استعمال ہے۔ صنعتوں سے نکلنے والے زہریلے مادے اور زرعی اجناس  کی پیداوار کو بڑھانے کیلئے مستعمل  کھادیں، کرم کُش ادویات اور جڑی بوٹیوں کو تلف کرنے کی ادویات بلا واسطہ  زیرِ زمین پانی اور غذائی اجناس کو آلودہ کرنے کے سبب بنتے ہیں، اسی لئے آج نامیاتی طرز پیداوار کو خوراک پیدا کرنے کا محفوظ طریقہ سمجھا جاتا ہے۔

پاکستان ، بھارت اور بنگلہ دیش میں ماحول  کے لئے بڑا مسئلہ سمندر کی سطح میں اضافہ اور ساحلی علاقوں کے  ایکویفر میں سمندری پانی کی مداخلت بھی ہے ، جسکا بالواسطہ اثر  سرحدی زراعت اور زندہ رہنے کیلئے کام کرنے والے  انسانوں کی زندگی پر ہے، پاکستان میں سمندری پانی کی مداخلت سے سندھ کے سرحدی علاقوں  کی زندگی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔  آئی یو سی این (International Union for Conservation of Nature (نے 2015 تنبیہہ کی تھی کہ  اگر سمندری پانی کی مداخلت اور ساحلی کٹاؤ اسی طرح جاری رہا تو اگلے پچاس سال میں صوبہ سندھ  میں ٹھٹھہ  اور بدین جبکہ اگلے ساٹھ سال  میں کراچی  سمند ر برد ہو جا ئیگا،  آئی یو سی این  کی ایک اور رپورٹ کے مطابق اگلے پچاس سال میں سمندر کی سطح پانچ سینٹی میٹر تک بلند ہونے کا خدشہ ہے۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ  انڈس بیسن آف پاکستان کے مطابق  گذشتہ بیس سالوں میں  سندھ کی بیس لاکھ ایکڑ  قابل کاشت زمین نمکین پانی کی مداخلت سے برباد ہوچُکی ہے۔ اگر سمندری پانی کی مداخلت کو زرعی زمینوں کو میں مداخلت سے روکنے کے اقدامات نہ کئے گئے تو ساحلی علاقوں کی زرعی زمینوں کا مکمل برباد ہونا   بعید از قیاس نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر آپ بڑے شہروں سے باہر کہیں ملازمت کرتے ہیں یا آپ کا معمول ایسا ہے کہ آپ تڑکے گھر سے نکلتے ہیں اور سورج کو طلوع ہوتے ہوئے اس کا بغور مشاہدہ  کرسکتے ہیں  اور سورج کے دن کے سفر کی تکمیل کے وقت ہی آپ واپس شہر کی جانب لوٹتے ہیں ، آپ مشاہدے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ماحول کے بارے میں مطلق سائنسی نہ سہی صرف مشاہداتی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں تو چند دن کے مشاہدے سے آپ محسوس کریں گے کہ فیکٹریوں کے دھویں سے آلودہ افق سے سورج ایسے طلوع ہورہا ہے جیسے اسے گذشتہ شام قتل کر نے کی بھرپور کوشش کی گئی تھی مگر قسمت سے  قاتل اسے نیم مردہ حالت میں سسکتا ہوا چھوڑ کر اپنی راہ کو ہولیا، سورج رات بھر غنودگی میں رہا اور صبح پھر تھکے بدن کو لیکر دوبارہ ایسے طلوع ہورہا جیسے خالی ابھرنے کی کوشش کر رہاہو آپ  دیکھتے ہیں کہ پرندے اسکے استقبال کو نہیں آتے وہ فیکٹریوں کی چمنیوں کی زہر آلود بو  سے پچھم کی راہ لئے کسی دوسری دنیا میں بسیرا کر چکے ہیں، اسی طرح جب شام کو سورج غروب ہونے کے قریب ہوتا ہے تو  لگتا ہے کہ آلودہ  سرخ افق پر سورج  اور دھویں یا گرد کی دھینگا مشتی جاری ہے ، سورج کا چہرہ سُرخ ہے جیسے کسی شدید زخمی انسان کا خون آلودہ چہرہ، سورج غروب ہونے پر محسوس ہوتا ہے کہ سورج اور آلودہ دھویں کی باہمی کشمکش میں سورج قتل ہوچُکا ہے۔ مشرقی ممالک میں آلودگی کی بھرمار زہریلے گردو غبار اور دھویں سے اٹے افق میں سورج روز قتل ہوتا ہے  اور شاید یہ فطرت کا انسانوں کے لئے اعشاریہ ہے کہ اگر انسانی عمل اور  زیادہ منافع کمانے کی لالچ میں بغیر مناسب اقدامات کئے فطری نظام میں دخل اندازی جاری رہی تو ماحولیاتی اور موسمی بگاڑ کے زیر ِ اثر یہ زمین انسان  سمیت دیگر جانداروں کے رہنے کے لئے موزوں نہیں رہیگی ۔

Facebook Comments

اظہر مشتاق
اظہر مشتاق سماج کے رِستے زخموں کو محسوس کرنے والا عام انسان ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply