اللہ کا عذاب اور ہماری سوچ/تحریر -عاصمہ حسن

اللہ تعالی اس پوری کائنات کا خالق و مالک ہے ـ اللہ تعالی ٰٰ ہی ہے جس نے چھ دن میں آسمان و زمین کو پیدا کیا ـ وہ ذرّے ذرّے پر قدرت رکھتا ہے ـ ہر چیز اس کے ایک کُن کی محتاج ہے ـ موسموں کی تبدیلی’ دن اور رات کا اپنے وقت پر آنا اور جانا’ سورج کے گرد زمین’ مختلف سیاروں اور ستاروں کی اپنے مخصوص مدار میں گردش ‘ بارش کا برسنا ‘برف باری’ آندھی و طوفان’ قدرتی آفات’ زلزلے’ غرض زمین و آسمان کے بیچ جو کچھ بھی ہے وہ اس کے حکم کا محتاج ہے ـ
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے :
” زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے اور اسی کی طرف لوٹنے والی ہے۔ـ”

اللہ تعالی نے حضرت آدمؑ کو تخلیق کیا اور فرشتوں کو سجدے کا حکم دیا تو ابلیس انکاری ہو گیا یعنی منکر ٹھہرا حالانکہ اللہ تعالی جانتے تھے کہ وہ ایسا کرے گا لیکن پھر بھی انھوں نے اس کو سجدے کا حکم دیا ـ بے شک اللہ رب العالمین ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ـ یہ بھی ہم جانتے ہیں کہ ابلیس کے بہکانے پر حضرت آدمؑ نے حکم عدولی کی اور جنت سے بے دخل ہو گئے ـ۔

اللہ تعالی نے ہم انسانوں کی ہدایت کے لئے اپنے خاص بندے اس دنیا میں بھیجے جنھوں نے اللہ تعالی کا پیغام اپنے لوگوں تک پہنچایا ـ یہ عمل یا سلسلہ کوئی آسان نہ تھا کہ اس وقت کے لوگوں کو اللہ تعالی کی واحدانیت کا یقین دلایا جائے، ـ منکر لوگوں پر اللہ تعالیٰ نے اپنا عذاب بھی نازل کیا اور وہ قومیں صفحہِ ہستی سے مٹ گئیں ـ۔

موجودہ دور میں جہاں سائنس و ٹیکنالوجی نے بے پناہ ترقی کر لی ہے ـ سائنس دانوں نے چاند اور دوسرے سیاروں تک رسائی ممکن بنا لی ہے ـ وہاں ایک ہی جھٹکے میں اللہ تعالی اس دنیا کے باسیوں کو جو خود کو خدا سمجھنے لگتے ہیں اور اپنے رب کو بھول جاتے ہیں یاد کروا دیتا ہے کہ وہی خالق و مالک ہے ـ ہماری ہر ایک سانس اس کی محتاج ہے ـ سپرپاور صرف اللہ کی ذات ہے ـ۔

لیکن یہ سب سوچنے کے لئے دماغ کی ضرورت ہے ـ ہم وہ قوم ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے عذاب کو سمجھ نہیں پاتے اور موت کو سامنے دیکھتے ہوئے بھی اپنی موت کو بھول جاتے ہیں اور پھر سے گناہ ‘ ریاکاری ‘ ذخیرہ اندوزی جیسے دیگر جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں ـ
اگر ایک لمحے کے لئے سوچیں کہ جن کے گھر’ مویشی’ راشن ‘ بچیوں کا جہیز کا سامان’ قیمتی جانیں سب اس منہ زور پانی میں بہہ گیا ان پر کیا بیت رہی ہو گی ـ یہ سوچتے سوچتے اپنے گھر پر نظر دوڑائیں، کتنے آرام کا سامان ہے ‘ ہر ضرورت کی چیز میسر ہے۔

ـ اگر اچانک مجھے یہ کہا جائے کہ اپنا ضروری سامان اٹھاؤ کسی محفوظ مقام پر جانا ہے ‘ محفوظ مقام ‘ کیا واقعی میرے اور میری بچیوں کے لئے محفوظ ہو گا ؟

یہ ایک سوالیہ نشان ہے ـ خیر میں کیا کیا اُٹھا پاؤں گی ـ میری تو دنیا ہی اندھیر ہو جائے گی ـ تو سوچیں ان پر کیا گزری ہو گی جن کے پاس اپنی عزت بچانے کے لئے نہ چادر تھی اور نہ کوئی ٹھکانہ ـ ،بچوں کو کھانے کی میز پر کھانا پسند نہ آئے تو ساتھ کئی دوسری چیزوں کے نام لئے جاتے ہیں تاکہ وہ انتخاب کر لیں اور کھا کر خوش ہو جائیں تو ایک لمحے کے لئے سوچیں جن کو کھانے کو ہی نہیں مل رہا ان کے بچے ماں باپ کے سامنے بھوک سے بلک بلک کر رو رہے ہیں تو ان والدین کے کلیجے تو تکلیف سے پھٹ گئے ہونگے ـ۔

بچے اکثر دکان پر جائیں تو اپنی پسند کے کھلونے اُٹھا لیتے ہیں یہ ان کا بہترین مشغلہ ہوتا ہے تو سوچیں کہ ان بچوں پر کیا گزر رہی ہو گی جن کے اپنے گھر نہیں رہے ان کے صحن ‘ گھر کے آنگن سیلاب میں بہہ گئےـ جن بچوں کا بچپن ہی اس بپھرے ہوئے پانی کی نذر  ہو گیا وہ کس چیز سے دل بہلائیں گے ـ؟

بارش کے دوران سڑکیں پانی سے بھر گئیں بچوں کو اسکول سے لینے گئی تو سڑکوں پر پانی کسی دریا کا تصور دے رہا تھا ـ اپنی آرام دہ گاڑی میں بیٹھے ہوئے شدت سے محسوس ہوا کہ ہائے ان معصوموں پر کیا گزری ہوگی جو سیلاب کے پانی میں چٹان پر کھڑے اپنی موت کا سامنا کر رہے تھے ـ ان پر کیا گزری ہو گی جن کے اردگرد خوفناک’ پانی کی بے باک لہریں تھیں جو سب کچھ تباہ و برباد کرنے پر تلی ہوئی تھیں ـ۔

زندگی میں پہلے کبھی بارش سے اتنا خوف نہیں آیا جتنا اس بار آیا ـ حیرت ہوئی ان لوگوں پر جو یہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود گانے لگا کر وڈیوز مختلف سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر لگا رہے تھے ـ جبکہ آدھے سے زیادہ پاکستان اپنی تباہی پر ماتم کر رہا تھا ـ ہم اس قدر بے حس اور گمراہ کیسے ہو سکتے ہیں ـ کیا ہم نے محسوس کرنا’ سوچنا اور اللہ سے’ اپنی موت سے’ اپنے عملوں کے حساب کتاب سے ڈرنا چھوڑ دیا ہے ـ کیا ہم اپنی موت کو بھول گئے ہیں جو کسی بھی لمحہ بنا دستک کے آ سکتی ہے ـ؟

یا ہم اس قدر بے حس اور خود غرض ہو گئے ہیں کہ اپنی تکلیف کے سوا ہمیں کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا ـ ،کسی دوسرے کی تکلیف ‘ لاچاری و مجبوری ہمارے دل کو چھو کر بھی نہیں گزرتی ـ۔

حکومت اور اس کے اداروں پر بہتان لگانا آسان ہے کیونکہ اپنی ذمہ داری کا بوجھ اُٹھانا مشکل ہوتا ہے اور دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرانا انتہائی آسان محسوس ہوتا ہے، ـ کیا ہم نے کبھی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھا ہے کہ ہم کیا کرتے ہیں ‘ اپنی ذمہ داریاں بحیثیت انسان اور ایک معزز شہری ہونے کے پوری کر رہے ہیں یا نہیں ؟

ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم اپنے اعمال کے جواب دہ ہیں ـ جہاں ہمیں اپنے اگلے لمحے کی خبر نہیں ہوتی وہاں ہم ذخیرہ اندوذی سے باز نہیں آتے ـ مصیبت کے وقت استعمال کی چیزوں کے نرخ کم کرنے کی بجائے کئی گنا بڑھا دیتے ہیں اور دوسروں کی جو ہمارے ہی بہن بھائی ہیں ان کی تکلیف اور ضرورت سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ ـ ایسا کرتے وقت ہم بھول جاتے ہیں کہ یہ مال جو ہم جمع کر رہے ہیں وہ ہمارے کسی کام نہیں آئے گا اور عین ممکن ہے کہ ہمیں اس کو استعمال کرنے کی مہلت بھی نہ مل سکے ـ۔

دراصل ہم حساب کا دن بھول جاتے ہیں حالانکہ قیامت تو آ چکی ہے لیکن پھر بھی ہم قیامت کے انتظار میں ہیں ـ ابھی بھی وقت ہے کہ ہم سدھر جائیں اور اپنے اعمال کی معافی مانگ لیں وہ ذات بہت رحیم و کریم ہے معاف فرمانے والی ہے ـ ہمارا ایک نیک عمل ہمیں ہمارے پروردگار کے سامنے سرخرو کر دے گا ـ۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ وقت سوچنے اور عمل کرنے کا ہے ـ کہیں ایسا نہ ہو کہ پانی ہمیں بھی ساتھ بہا کر لے جائے اور ہمیں اپنے رب سے معافی مانگنے کی مہلت بھی نہ مل سکے ـ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply