پارسل سے موصول ہونے والے مسائل۔۔۔عظمت نواز

کل رات گھر پہنچا تو ایک پارسل میرا منتظر تھا – کھولنے پر فلاں فلاں چار عدد کتب فلانے صاحب نے ارسال کی تھیں جنہیں دیکھ کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ کیسے کیسے اللہ والے موجود ہیں جو بنا ہم سے بات کیے ہمارا پوسٹل کوڈ پوچھے ہمارے گھر کے پتے پر ہماری ہی پسندیدہ کتب ارسال کرتے رہتے ہیں – ایسا اکثر مختلف احباب کی پوسٹس سے ہم گمنام لوگوں کو پتہ چلتا رہتا  ہے- خیر یہ سب احباب بھی حضرت غالب سے کم مشہور تو نہیں کہ انہوں نے فرمایا تھا میرا نام لکھ کر خط دہلی بھیج دو تو مجھ تک پہنچ جائے گا – ان سب دوستو  کے ساکن پتے کی مشہوری کا بھی یہی عالم ہے شاید کہ ارسال کنندے نام اور شہر لکھ کر روانہ کر دیتے ہیں –

انہونی تو ہوتی رہتی مگر اس بار ہمارے چنیدہ کپتان کے ساتھ کچھ الگ ہی ہو رہا ہے وہ نور پیر کے وقت نکلتے ہیں تو ستے خیراں ہوتی ہیں مگر جونہی وہ دفتر پہنچتے ہیں وہاں انکو مسائل بہ شکل پارسل ملتے یعنی وہ اظہار یونہی کرتے ہیں کہ جیسے انکی دانست میں کچھ مسائل نہ تھے بس یہاں پہنچ کر پتہ چلا، کہ یہاں غربت ہے، یہاں بے روزگاری ہے، یہاں چوری ہے، قتل کی وارداتیں ہیں، یہاں مافیاز ہیں، یہاں سیاسی، معاشی، سماجی، مذہبی، ہر قسم کے مافیاز ہیں، پولیس کا نظام دگرگوں ہے، رشوت ستانی عروج پر ہے، تعلیم کا نظام ایک مذاق ہے، انتظامی معاملات میں حد درجہ غفلت ہے، بیوروکریسی بے لگام ہے، کسی ادارے، کسی محکمے کا کوئی سر پیر نہیں ہے-

خان صاحب آپ اس ملک کے چپے چپے سے واقف تھے، آپ کی دو عشروں پر محیط سیاسی جدو جہد کے دوران آپ تک ہر مسئلہ، ناکام اداروں انکی ناکامی کی وجوہات، پولیس نظام کی خرابی، تھانہ کلچر، عدالتی نظام کے سقم، سیاستدانوں کی چیرہ دستیاں، ہر دور میں مخصوص ٹولے کی حکومتی میدان میں لینڈنگ، مافیا کی طاقت، ان تمام چیزوں سے آپ واقف تھے – کہنے کا مقصد یہ ھے کہ یہ پارسل مسائل سمیت آپکو آنکھ کھلتے نہیں ملے ان تمام مسائل و مسائل زدہ لوگوں کو آپ نے بائیس سال تک اپنا پتہ خود بتایا ہے چیخ چیخ کر بتایا ہے کہ یہی وہ پتہ ہے جہاں آکر تمہارے مسئلے کا پارسل ردی کی ٹوکری میں نہیں جائے گا، یہی وہ جگہ ہے جہاں تمہاری شنوائی ہو گی، یہی وہ پتہ ہے جہاں تمہارے دَرد کے درماں ہوں گے، اس پتے پر پہنچ جانے کے بعد تمھیں ٹھوکر نہ لگنے دی جائے گی، یہ فہرست بھی طویل ہے –

Advertisements
julia rana solicitors

فرنود عالم نے لکھا تھا کہ سوال کی حرمت کا سوال ہے- اب سوال بچا ہے نہ حرمت، کیونکہ ہر وہ امید دم توڑ چکی ہے یا توڑ رہی ہے جو ستم زدگان نے آپ سے وابستہ کر رکھی تھی اور آپ اس  سلسلے کو سرعت سے جاری رکھے ہوئے ہیں – آپ سے کوئی سوال پوچھ سکتا ہے کہ آپکی کابینہ میں چند ناموں کے سوا باقی یہ کون لوگ ہیں اور یہ کہاں سے نازل ہوئے ہیں انکی قابلیت کیا ہے – آپکا روڈ میپ کیا ہے- انتظامی معاملات کو سنبھالنے سے کونسی چیز روک رہی ہے – کیا آپ مجبور محض  ہیں اگر ہیں تو اپنی مجبوریوں کو عوام کے سامنے لے آئیں مگر اعظم سواتی و دیگر کو بیک جنبش قلم پھر مسند وزارت پر واپس بٹھا دینے سے پہلے کچھ تو اپنے نوجوان طبقے، اپنےووٹر کی طرف نگاہ کریں کہ کیا یہ اور اس قسم کے دیگر فیصلے مجھے کرنے چاہئیے، یعنی فردوس عاشق اعوان بھی آپ اس حکومت کی ترجمانی کریں گی تو فواد چوہدری میں پھر کیا برائی تھی- عمر بھر آپکو معاشی مسائل کا پتہ نہ تھا اگر پتہ تھا تو کیا تیاری کر رکھی تھی یا اللہ توکل چلانا تھا چلو چند دن اسد عمر چند دن شیخ صاحب چلا لیں، کئی ہمدرد ابتک آپکو اصل اہداف کی طرف توجہ دلاتے ہوئے بارہا لکھ رہے ہیں مگر یہ ٹرین کلکتے پہنچتی نظر نہیں آرہی –

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply