شب برأت اور حاجی صاحب کی ڈائری ۔۔۔ معاذ بن محمود

فجر کی اذان سے کچھ پہلے ہماری آنکھ کھل گئی۔ بیت الخلاء میں رفع حاجت کے دوران یاد آیا کہ رات شب برات ہوگی۔ اگلے برس نہ ہونے کے خیال سے آنکھیں بھر آئیں۔ وضو کا ارادہ مؤخر کیا اور اہلیہ کی جانب ہو لیے۔ پہلا عزم معافی کا تھا کہ کل بھلا کس نے دیکھی۔ سوتی نیک بخت کی ٹانگیں دبانا شروع کر دیں۔ حاجن صاحبہ جو خواب خرگوش کے مزے لوٹنے میں مصروف تھیں، کو غالباً محسوس ہوا کہ کوئی بھوت پریت خواب کی حدت سے عاشق ہو بیٹھا ہے۔ نیک بخت بجلی کی پھرتی سے بیدار ہوئیں اور اٹھتے ہی دیسی مارشل آرٹس کا استعمال کرتے ہوئے مبینہ بھوت کے جبڑے پر لات دے ماری۔ ہم جو فرط جذبات کا اظہار مغلظات کے ذریعے کیے جانے میں مشہور تھے، اپنی ساس کی شان میں مختصر دو لفظی ہجو کہتے چارپائی سے ڈھلک پڑے۔ حاجن کی جانب سے حقیقی منظر کی ذہنی تشریح تک ہمارا داہنا جبڑا سوج چکا تھا۔

حاجن نیک بخت کو ہم پر پہلے ترس اور پھر پیار آیا۔ پرانا باسی جوڑا ہونے کے ناطے معافی تلافی کے بعد ہم نے باجماعت نماز قضاء کرنے کا فیصلہ کیا اور محبت کی وہ لازوال داستان ایک بار پھر سے رقم کرنے کی ناکام کوشش کی جسے یاد کرتے ہوئے ہم دونوں ہی قدرے شرمندہ سے ہوگئے۔ ہم آخر کو شہر کے گنجان آباد علاقے میں کپڑوں کا کام کرتے ہوئے روزانہ کی بنیاد پر صنف مخالف کی نوخیز کلیوں کو جھیلا کرتے ہیں۔ دوسری جانب حاجن نیک بخت ہر ہندوستانی فلم کی دیوانی ہیں۔ یوں درازیِ عمر کے باوجود ہم دونوں کے جذبے جوان تھے۔ نتیجتاً قضائے فجر کے فیصلے کی اہتمام کے ساتھ توثیق تو ہوئی تاہم ہزار میں ہر ہر خواہش پر ایک ایک کر کے دم ہی نکلتا رہا۔

اب کے ہماری آنکھ سویرے تڑکے کھلی۔ تیار ہوئے اور ناشتے میں تین عدد دیسی گھی میں لتھڑے پراٹھے تناول فرمائے۔ حاجن سے آنکھ بچا کر کام والی سے حسب معمول نین مٹکا کرنے کے بعد اکیلے میں اسے دبوچ بیٹھے۔ پیشہ ورانہ گھریلو امور بخوبی نبھانے پر ہم اسے سو کے نوٹ سے پہلے ہی نواز چکے تھے۔ اس نے سو روپیہ سکہ رائج الوقت پر حاجن کے سامنے منہ بسورا اور تنہائی میں ہمیں غیر نصابی سرگرمیوں کی یاد دہانی کروائی۔ اب منہ بسورنے کی باری ہماری تھی۔ بادل نخواستہ کڑکڑاتا ہزار کا نوٹ عفیفہ کے ہاتھ میں تھمایا اور اگلی خلوت تک کے لیے باقاعدہ معافی مانگی۔ کام والی کی حیرانگی پر اسے ناصرف شب برات یاد دلائی بلکہ اکابرین کے حوالوں کے ساتھ رات پڑھنے کو مسنون دعائیں بھی واٹس ایپ کر ڈالیں۔ امر بالمعروف کا دین میں تاکید کے ساتھ حکم ہے۔ آخر کو وہ عفیفہ بھی اللہ کے فضل و کرم سے مسلمان ہے۔ ہم چاہتے ہیں جنت میں حوروں کے ساتھ اس کا بھی مقامِ خاص موجود رہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اس کی جانب سے ہمیں معافی مل گئی ہوگی۔

اب ہم گھر سے نکلے جہاں سے آگے ہمارا اگلا پڑاؤ بینک میں تھا۔ پچھلے دنوں بینک سے فون آیا تھا کہ شرح سود میں کمی ہونے کو ہے۔ ہمیں یہ خبر ہرگز پسند نہیں آئی تھی۔ ارادہ تھا کہ مذکورہ بینک کو کروڑوں کی نقدی سے محروم کر دیں گے اور تمام رقم کسی اور نسبتاً بہتر بینک میں جمع کروا دیں گے۔ بینک منیجر سے جو ملاقات ہوئی تو وہ اپنے ہی بھائی مفتی صاحب نکل آئے۔ ہم نے مفتی صاحب کو تمام معاملے سے آگاہ کیا۔ مفتی صاحب ہمارے ہی قبیل سے تھے جن کے ساتھ ایک سال زیمبیا کے جنگلات میں جانوروں کو احسن طریقے سے تبلیغ کرتے گزاری تھی۔ ہم دونوں صاحبانِ علم و عمل سود کی تباہ کاریوں پر خوب بحث کرتے رہے۔ آخرکار مفتی صاحب نے کئی ثقہ راویوں سے منسوب حوالہ جات کے بعد ہمیں قائل کر ہی لیا کہ ناصرف ان کے بینک میں پیسے رکھنا افضل ہے بلکہ اپنے فائدے کا گماں ہو تو سود اٹھانے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ ہمیں قائل کرنے کے بعد مفتی صاحب نے ہم سے معافی مانگی کہ ہمیں قائل کیا۔ کیا ہی نیک بھلے مانس ہیں۔

اگلی منزل ہماری دوکان تھی۔ راستے پر گامزن تھے کہ گھر سے اماں کا فون آیا۔ پہلے پہل اٹھانے کا دل نہ کیا۔ یقیناً کوئی دوڑ لگوانی ہوگی۔ پھر دل پر پتھر رکھ کر فون اٹھا لیا۔ اماں کی عینک ٹوٹ گئی تھی۔ انہیں نئی  عینک درکار تھی کہ قرآن پڑھ سکیں۔ میں نے شب برات کے بابرکت موقع کو غنیمت جانتے ہوئے معذرت کر ڈالی۔ کہا کچھ دن سکون رکھیں اور مجھے معاف رکھیں۔ مجھے یقین ہے انہوں نے بھی مجھے معاف کر دیا ہوگا۔

دھندے پر پہنچے تو بازار گرم تھا۔ رمضان قریب تھا سو رمضان کے لیے نت نئے ملبوسات خوب بک رہے تھے۔ خواتین کا زور ایسے پرنٹس پر تھا جن میں نماز پڑھتے خوب دکھائی دیں۔ ناچیز نے اس بار صرف وہی پرنٹ منگوائے جو سامسنگ، اوپو اور ہواوے کے موبائل فون کیمروں پر شوخ اور چنچل دکھائی دیتے ہوں۔ یہ کاروباری راز ہے جسے ڈائری کی نظر کر رہا ہوں۔ اسی حربے کے استعمال سے عورتوں کا سب سے زیادہ رش اللہ کے فضل و کرم سے ہماری دوکان پر ہوتا ہے۔ آج کی رات خاص تھی لہذا اسی کی مناسبت سے تمام ناریوں کو کپڑے دکھائے۔ وہ پرنٹ جو رات کو مزید کھلکھلا جاتے ہوں اور جن میں سیلفی حسین اٹھتی  ہو۔ بندہ بشر ہوں۔ بھول چوک ہوجاتی ہے۔ بائیس سال تک کی تمام خواتین میں خود ڈیل کرتا ہوں۔ ہاتھ وغیرہ چھو جاتا ہے جس کے لیے خدا مجھے معاف کرے، خواتین تو کر ہی دیں گی یقیناً۔ پھر بھی آج سارا دن میں ہر خاتون کو چھونے کے بعد اس سے معافی کا طلب گار ضرور ہوا۔ اسلام پردے پر بہت زور دیتا ہے۔ میں بھی پردے پر بہت زور دیتا ہوں۔ بسا اوقات اس قدر کے پردے کے پیچھے کا چہرہ سامنے آجاتا ہے۔ خدا مجھے معاف کرے۔

آج کام میں شدید رش کے باعث نمازیں قضاء ہوگئیں۔ جب  بھی وقت صلوۃ آتا کوئی حسن کا امتحان ہمارے سامنے کھڑا ہوتا۔ مجھے یقین ہے شیطان ہمیں معاف نہیں کر سکتا۔ پس اسی لیے اللہ سے معافی کا طلب گار رہا اور شیطان کے بہکاوے میں آگیا۔ خدا مجھے معاف فرمائے۔

دھندے سے واپسی پر کچھ وقت تبلیغی دوستوں کے ساتھ بتایا۔ تبلیغ سے  منسلک لوگ بہت پیارے ہوا کرتے ہیں۔ بیچ میں ایک آدھ گندی مچھلی بھی ہر تالاب کی طرح یہاں کی باسی بھی ہوتی  ہے۔ گل محمد کا معاملہ کچھ ایسا ہی تھا۔ ناہنجار چرس کا شوقین تھا۔ پہلے پہل  ہم بھی ایک آدھ سوٹا لگا لیا کرتے تھے۔ اب تو گویا عادت سی ہے مجھ کو ایسے جینے میں۔ گھر لوٹنے سے پہلے سات آٹھ کش مار ہی لیتے ہیں۔ خدا مجھے معاف فرمائے۔

چرس نے بھوک کی شدت بڑھا دی تھی۔ گھر پہنچے تو کھانے پر یوں حملہ کیا جیسے کئی دنوں بعد ملا ہو۔ کھانے کے دوران ہی حاجن نے خونخوار نظریں بھانپ لی تھیں۔ پوچھنے لگی آج کی رات تو عبادت کریں گے ناں؟ اور کرنے بھی دیں گے؟ اسے سمجھایا کہ شوہر کی حقوق کی دین میں کیا اہمیت ہوا کرتی ہے۔ پہلے پہل اسے سمجھ نہیں آئی۔ پھر جب اسے زوجہ کے ساتھ زبردستی کے احکام سنائے تو شاید سمجھ گئی۔ کافی دیر تک نیک بخت تلاوت و اذکار کی ضد لیے بیٹھی رہی مگر اسے سمجھایا کہ آج معافی کی رات ہے، معافی مانگنے کا بہترین موقع ہے۔ ویسے تو اعمال نیک صالح ہیں لیکن آج کی رات کی مناسبت سے کچھ تو ہونا چاہئے جس کے لیے بخشش مانگی جائے۔ شاید بات سمجھ آگئی۔ جبڑا ابھی تک سوجا تھا شاید اس لیے  نیک بخت محبت کا بھرپور اظہار نہ کر پائی۔ تمام فرائض سے فراغت حاصل کرنے کے بعد حاجن سے ایک بار پھر معافی مانگی۔

آج کل گیس کے نرخ گراں ہیں لہذا  رات میں گیزر پر خود ساختہ  پابندی ہے۔ یوں طہارت کا حصول ناممکن ہونے کے باعث عشاء اور بعد ازاں فجر کی نماز بھی رہ گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

خدا مجھے معاف فرمائے۔

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply