خودکش حملہ آور کیا بڑبڑارہا تھا ؟؟۔۔۔۔صاحبزادہ عتیق الرحمن

سنہ 2026 اسلامی جمہوریہ پاکستان

اسلام آباد کے پنج ستارہ ہوٹل میں وزیر مملکت برائے داخلہ کے بھتیجے کی شادی کی تقریب تھی یہ وزیر بڑھکیں مارنے اور مذہبی ہونے کا تاثر دینے میں مشہور تھے۔ وزیر اعظم اپنے انگلینڈ سے آئے ہوئے چھوٹے بیٹے سمیت شریک تھے۔ حکمران پارٹی کے اہم وزراء اور عہدیداران موجود تھے خوش گپیاں چل رہی تھیں کہ اسٹیج کے قریب میوزک بینڈ میں سے ایک سولہ سترہ نوجوان اٹھا کچھ بڑبڑایا اور پھر ایک کان پھاڑ دھماکہ ہوا ،دھواں ، آگ اور چیخ و پکار تھمی تو پتا چلا کہ وزیر اعظم کا بیٹا ، وزیر مملکت کا بھتیجا بیسیوں اہم شخصیات اس دھماکے کی نظر ہوگئیں ۔ ایک سو سے زائد لوگ زخمی ہوگئے ، وزیر اعظم کی دائیں ٹانگ کٹ گئی ، ہینڈ سم وزیراعظم فوری انصاف کے بلند بانگ دعووں سے اقتدار کی مسند پر قابض ہوئے تھے۔ نئے پاکستان کا نعرہ لگانے والے وزیر اعظم نے بھی پرانے پاکستان کے حکمرانوں کی طرح فوری انصاف کی بجائے مظلومین میں چیک بانٹنے کی روایت جاری رکھی تھی ، قریبی حلقوں کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کو ہمیشہ ملکی معیشت سے زیادہ اپنی فٹنس کی فکر رہتی تھی۔

خودکش حملہ آور کے بڑ بڑانے کا ویڈیو کلپ تفتیشی اداروں کو حیران کر گیا۔

پنڈی کینٹ کی جامع مسجد میں خودکش دھماکہ ۔ سولہ افراد شہید بیسیوں زخمی ، حساس ادارے کے حاضر سروس جنرل اپنے بیٹے اور بھتیجے سمیت شہید ، ملک بھر میں سوگ کی وفا ، شہید جنرل نے دوران سروس سینکڑوں دہشت گردوں کی نشاندھی کی اور سینکڑوں دہشت گردوں کو ہلاک کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ شہید جنرل دوران سروس دہشت گردی کے شبہ میں پوری فیملی کو اگلے جہان پہنچانے کے آرڈر بھی دے دیا کرتے تھے۔ اور ان کا حکم حرف آخر ہوا کرتا تھا۔ ان کے سینئر بھی ان کے ماورائے قانون احکامات پر آنکھیں بند کرلیا کرتے تھے۔

عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ خودکش حملہ آور کی عمر سولہ سترہ سال تھی اور دھماکے سے قبل خودکش حملہ آور کچھ بڑبڑارہا تھا۔ دھماکےسے قبل خودکش حملہ آور کے الفاظ نے تفتیشی اداروں کو حیران کردیا۔

لاہور پولیس لائین میں سالانہ فیملی فنکشن تھا۔ اعلیٰ  ترین پولیس افسران اپنی فیمیلیز کے ساتھ اس تقریب میں موجود تھے۔ اچانک ایک کان پھاڑ دھماکہ ہوا، یہ خودکش حملہ تھا جس کے نتیجے میں شہید ہونے والوں میں آئی جی آپریشنز اور ان کا اکلوتا ڈاکٹر بیٹا ، ڈی آئی جی سی ٹی ڈی لاہور ، ان کا بیٹا اور نواسہ بھی شہداء میں شامل۔ شہادت کے مقام پر فائز ہونے والے آئی جی آپریشنز اور ڈی آئی جی سی ٹی ڈی ارب پتی پولیس افسران کی فہرست میں شامل تھے اور اکثر غلط انفارمیشن اور پیسوں کے لئے دہشت گردی کا الزام لگاکر بے گناہ لوگوں کو قتل کردیا کرتے تھے۔کچھ زخمیوں کا کہنا تھا کہ خودکش حملہ آور کی عمر سولہ سترہ سال تھی۔ پھٹنے سے قبل خودکش حملہ آور کچھ بڑبڑارہا تھا۔

صوبائی دارالحکومت کے پارٹی سیکریٹریٹ میں برسراقتدار پارٹی ضمنی الیکشن میں فتح کا جشن منارہی تھی رنگ و نور اور موسیقی کی محفل جاری تھی کہ ایک زوردار دھماکہ ہوا ، جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے وزیراعلی کا اکلوتا نوجوان بھتیجا ، صوبائی وزیر قانون ، وفاقی اور صوبائی وزیر اطلاعات اور حکومتی ترجمان سمیت اٹھارہ لوگ شہید اور ساٹھ زخمی ہوگئے۔ اس حکومت کے عہدیدار بھی پرانے حکمرانوں کی طرح عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے ماہر تھے اور جعلی پولیس مقابلوں میں بے گناہوں کو ہلاک کرنے والے پولیس افسران کو تحفظ دیتے تھے اور متاثرین سے افسوس اور تعزیت کی بجائے پھولوں کے گلدستے پیش کردیتے تھے۔ وزیر قانون اور وزرائے اطلاعات کی لاشوں کی پہچان ان کی لٹکتی زبانوں سے ہوئی۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ خودکش حملہ آور کی عمر سولہ سال تھی۔ دھماکے سے قبل خودکش حملہ آور کی آنکھیں بند اور ہونٹ ہل رہے تھے۔

جاتی امراء رائے ونڈ میں بہت بڑا سیاسی اکٹھ تھا ، دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کے سربراہ اور ان کے جانشینوں سمیت پورے ملک سے سیاستدان ، بزنس مین ، بیوروکریٹ ، لینڈ مافیا کے ڈان تقریب میں موجود تھے۔ سابق وزیر اعظم اپنی جانشین بیٹی اور سابق صدر بھی اپنے سیاسی جانشین بیٹے سمیت موجود تھے۔سابق وزیراعظم کے نواسے کو سیاسی اکھاڑے میں اتارنے کے لئے یہ اکٹھ کیا گیا تھا۔ ان سیاستدانوں کے دور میں سکیورٹی کے مختلف اداروں میں ان کے بھرتی کئے گئے کارندوں نے ان کی دولت میں اضافے کے علاوہ ان کے مخالفوں اور سینکڑوں بے گناہوں کو پولیس مقابلوں میں پار کیا تھا۔ بیرے مہمانوں میں مشروبات سرو کررہے تھے۔ ایک نوجوان بیرا کچھ بڑبڑاتا ہوا مشروبات کی ٹرالی دھکیلتا ہوا تیزی سے وی وی آئی پیز کے حلقے میں گھسا اور زوردار دھماکے سے درو دیوار ہل گئے ، تھوڑی دیر بعد ٹی وی چینلز پر جاہل اینکرز چنگھاڑ رہے تھے کہ دو سو سے زائد لوگ زخمی ہیں اور ساٹھ لوگ شہید ہوگئے ہیں جن میں سابق وزیراعظم کا نواسہ ، سابق صدر کا بیٹا ، سابق خادم اعلیٰ کا بیٹا بھی شامل ہیں۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ خودکش حملہ آور کی عمر سولہ سترہ سال تھی۔ دھماکے سے قبل خودکش حملہ آور کچھ بڑ بڑا رہا تھا۔

فیض آباد چوک میں سیاسی مذہبی جماعت کا دھرنا تھا یہ جماعت کبھی کسی قاتل کی حمایت میں دھرنا دیتی تھی اور کبھی کسی مجرمہ کو پھانسی دینے کے لئے دھرنا دیتی تھی۔ لیکن ملک کے مظلوم عوام پر قیامت بھی گزر جائے تو ان دین فروشوں کو دھرنا یاد نہیں آتا تھا۔ آج بعد نماز ظہر اسٹیج کے قریب زوردار دھماکے میں امیر جماعت اور ان کے درجنوں ساتھی شہادت کے رتبے پر فائز ہوگئے۔

جائے حادثہ سے ملنے والی ویڈیو سے پتا چلاکہ خودکش حملہ آور کی عمر سولہ سترہ سال تھی اور دھماکے سے قبل خودکش حملہ آور کے ہونٹ ہل رہے تھے اور وہ زیر لب کچھ بڑبڑا رہا تھا۔

پارلیمنٹ لاجز کے سامنے سیاسی مذہبی جماعت کا دھرنا تھا ، اس جماعت نے دھرنا دیا یا احتجاجی مظاہرہ کیا ہمیشہ اقتدار کی بندر بانٹ میں حصہ نہ ملنے پر ہی احتجاج کیا۔ عوام کچلی جائے یا امریکہ کو بیچ دی جائے اس جماعت نے کبھی کوئی ردعمل نہ دیا۔ جماعت کا امیر الیکشن میں دھاندلی کے خلاف پرجوش تقریر کررہا تھا کہ اچانک ایک دھماکہ ہؤا۔ پچیس لوگوں سمیت جماعت کے امیر اپنے بھائی سابق وزیر سمیت شہید ساٹھ افراد زخمی ۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ خودکش حملہ آور کی عمر سولہ سال تھی۔ دھماکے سے قبل خودکش حملہ آور کی آنکھیں بند اور ہونٹ ہل رہے تھے۔

راولپنڈی شہر کے ایک لگژری اسکول میں سالانہ فنکشن تھا ، مہمان خصوصی خاتون اوّل تھیں ، جو اپنے پردے اور انتظامیہ میں اکھاڑ پچھاڑکے معاملات کے حوالے سے جانی جاتی تھیں۔ پولیس کے ایک اے آئی جی ، دو عدد ڈی آئی جی اور درجن بھر ایس پیز خاتون اوّل کی سیکیورٹی اور ٹریفک کے انتظامات کی نگرانی کررہے تھے۔ کیونکہ اس ملک میں چار چھ قتلوں پر سپاہی بھی معطل نہیں ہوتا تھا ، لیکن خاتون اوّل کے اشارہ ابرو پر آئی جی پولیس بھی کھڈے لائین لگادئیے جاتے تھے ۔ جیسے ہی خاتون اول گاڑی سے اتر کر اسٹیج کی طرف بڑھیں خوبصورت یونیفارم میں ملبوس چودہ سالہ ایک بچی ایک کونے سے نمودار ہوئی اور پھولوں کا بڑا سا گلدستہ لیکر خاتون اوّل کی طرف بڑھی۔ سکیورٹی والوں نے آگے بڑھ کر اس کو روکنے کی کوشش کی لیکن ایک زوردار دھماکہ ہوا، اور درد دل رکھنے والی خاتون اوّل جو کتے کی آنکھ میں بھی آنسو نہیں دیکھ سکتی تھیں اپنی دو عزیز ترین سہیلیوں سمیت ( جن کے خاوند ملک کے سب سے بڑے صوبے کو پس پردہ چلاتے تھے ) شہادت کے مقام پر فائز ہوگئیں۔ تفتیشی اداروں کو سکول کے ایک کلاس روم کے بلیک بورڈ پر خودکش حملہ آور طالبہ کی طرف سے کچھ لکھا ہوا پایا گیا۔

خود کش دھماکوں میں نوجوان خودکش حملہ آور کی بڑبڑاہٹ اور خود کش طالبہ کے لکھے ہوئے فقروں نے تفتیشی اداروں کو ہلا کر رکھ دیا۔ اور انہیں آٹھ سال پرانے ایک سانحے کی یاد آگئی۔

نوجوان کی بڑبڑاہٹ اور طالبہ کے لکھے ہوئے وہ فقرے یہ تھے !!

آنٹی انہیں صاف نہ کریں یہ میری آپی کے خون کے چھینٹے ہیں

انکل میری امی واپس کب آئیں گی

Advertisements
julia rana solicitors

پاپا نے پولیس والے انکل کو کہا مجھ سے سارے پیسے لے لو ہمیں گولی مت مارنا !

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”خودکش حملہ آور کیا بڑبڑارہا تھا ؟؟۔۔۔۔صاحبزادہ عتیق الرحمن

  1. جہاں مظلوموں کو انصاف نہیں ملتا وہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔ ضروری نہیں کہ یہ ہر جگہ ایک ہی وقت میں ہو ۔ ہو مگر مظلوم کی نفرت کا رخ جس طرف بھی مڑ جائے یا کسی خاص پلان کے تحت موڑ دیا جائے وہ نشانہ بن سکتا ہے ۔ جب تک معاشرتی انصاف اور ظالموں کی پکڑ نہیں ہوتی معاشرے میں امن نہیں ہو سکتا ۔ مگر یاد رہے معاشرے کی اس ضرورت پر پروپیگنڈے کے زور پر نیم حکیم کی طرح نیم مسیحا اندھیر نگری بھی مچا سکتے ہیں ۔ غیر متوازن لیڈروں کے منہ سے نکلے ہوئے آگ بڑھکانے والے نفرت انگیز الفاظ معاشرے میں بارود بھر دیتے ہیں جو کسی بھی وقت پھٹنے کا بہانہ ڈھونڈتا ہے ۔دہشت گردی کا علاج نہ جوابی دہشت گردی ہے نہ نیم تربیت یافتہ اخلاقی پستی کے شکار لیڈروں اور سرکاری اہلکاروں کے بے لگام اختیارات ، بلکہ معاشرے کی اخلاقیا ت کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نا انصافیوں کی وجہ سے نئی نسل میں بڑھنے والی بے چینی اور غضب ناکی کو کم کیا جا سکے ۔ورنہ ایک ظالم کو تبدیل کرکے دوسرا ظالم ہی اوپر آئے گا ۔ ہمیں بتدریج اور پائیدار تبدیلی کے لئے غیر جانبدار ،غیر متعصب اور اللّه سے ڈرنے والے سوشل سائنٹسٹس کی ضرورت ہے ۔ جو پائیدار تبدیلی کے لئے دوررس نتائج کے حامل فیصلوں سے اخلاقی انقلاب کی پلاننگ کر سکیں ورنہ جعلی پیروں کی طرح جعلی لیڈر مسیحا کے بھیس میں قوم کو آپس میں لڑا لڑا کر برباد کر دینگے ۔

Leave a Reply