پہلی رات کے خون کی پیاس۔۔۔وقار عظیم

کل رات ٹوئٹر پر ایک خبر پڑھی کہ ایک سولہ سالہ لڑکی کو محض اس لیے قتل کر دیا گیا کہ وہ  “کنواری: ثابت نہ  ہو سکی۔۔۔کافی لوگ اس وقت چونک گئے ہوں گے کہ ایسے بھی لوگ دنیا میں پائے جاتے ہیں تو شادی کی پہلی رات ہم بستری کے دوران خون نکلنے کو ہی کنوارہ پن مانتے ہیں۔
میں نے ایک ایسے علاقے میں آنکھ کھولی اور بچپن گزارا جو انتہائی غریب، تعلیم سے دور ، نشے باز تھا اور جہاں   ہم جنس پرستی عروج پر   تھی ۔۔جی ہاں میں سرگودھا کے فیکٹری ایریا کی بات کر رہا ہوں۔۔یہاں آج بھی اگر کسی بچے کو گھر سے دس روپے ملتے ہیں تو وہ ان کی کوئی چیز کھانے کی بجائے آئی پی ایل کے میچ پر جواء لگانا مناسب سمجھے گا۔اور یہ کوئی انوکھا علاقہ نہیں ہے ہر شہر میں ایسے چند علاقے ضرور ہوتے ہیں جہاں کے زیادہ تر نوجوان تعلیم سے دور، نشے میں مبتلاء اور غلط کاریوں میں  ملوث ہوتے ہیں۔یہ تو اللہ کا کرم ہوا کہ ہم بیرون ملک چلے گئے اور مجھے تعلیم جیسی خوبصورت چیز نصیب ہوئی ورنہ شاید میں بھی اللہ معاف کرے نشے باز ہوتا۔۔

میرا اٹھنا بیٹھنا ان لوگوں میں  رہا ہے بلکہ اب بھی مجھے اکثر میرے سابقہ محلے دار نوجوان ملتے ہیں جو اس قسم کی سوچ رکھتے ہیں کہ شادی کی پہلی رات خون نہ نکلا تو لڑکی “چالو” ہے۔۔۔یونیورسٹی کالجز میں دنیا کے سب سے زیادہ زنا وغیرہ ہوتے ہیں۔۔

اس تحریر میں آپ کو اس طبقے کی سوچ دکھاتا ہوں کہ شادی کو اور بیوی کو یہ کیا سمجھتے ہیں۔۔
ایک ایسی قسم ہے جو شادی کی پہلی رات خون نہ نکلنے پر اپنی ہی بیوی کو ” چالو” سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ وہ نوجوان ہوتے ہیں جن کی ساری عمر غلط کاریوں حتی کہ ہم جنس پرستی میں بھی گزری ہے۔۔میں ایسے کئی لڑکوں کو جانتا ہوں جو چھوٹی عمر کے بچوں پر گندی نظر رکھتے تھے۔غلط کاریوں میں ملوث تھے اب شادی ہوئی ہے تو ان کے نزدیک بیوی ” سیل پیک” ہونی چاہیے اور اس کے لیے انھوں نے جو معیار طے کیا ہے وہ ہے “خون کا نکلنا۔” ان لوگوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ بچپن یا لڑکپن میں کھیل کود کے دوران یا سیڑھیوں سے گر کر، یا رسہ کودتے ہوئے، سائیکل چلاتے ہوئے وہ باریک سی جھلی جس کے ہٹنے سے خون نکلتا ہے وہ جھلی پھٹ سکتی ہے۔۔لہذا اگر پہلی رات خون نہیں نکلا تو یہ لازمی نہیں کہ آپ کی بیوی بد کردار ہے یا اگر خدانخواستہ وہ پہلے کسی سے ایسا عمل کروا چکی ہے تو وہ جانے اللہ جانے۔۔وہ آپ کو جوابدہ آپ کے نکاح میں آنے  کے بعد کی ہے۔۔پہلے کی نہیں۔۔پہلے کے بارے آپ کو اتنے شبہات تھے تو تفتیش کر کے شادی کرتے۔۔نا کہ اب اس کا جینا حرام کرو۔سب سے بڑی بات۔۔کیا تم خود کنوارے ہو؟

دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو شادی کی پہلی رات بیوی کو زیادہ سے زیادہ تکلیف دینے کو “مردانگی” سمجھتے ہیں۔۔ان کے نزدیک اگر پہلی رات ہم بستری کے دوران بیوی کو تکلیف کی شدت سے رونے پر مجبور نہ کیا تو ان سے بڑا “مرد” کوئی نہیں۔۔اگر ایسا ہو بھی جائے تو اگلے دن دوستوں کو بڑھ چڑھ کر قصے سناتے پائے جاتے ہیں۔۔اگر آپ کسی ہسپتال کی ایمرجنسی میں کام کرتے ہیں یا آپ کا کوئی جاننے والا کام کرتا ہے تو آپ کو علم ہو گا کہ ہر ماہ ایک یا دو کیسسز ایسے لازمی آتے ہیں کہ شادی کی پہلی رات درد کی شدت لڑکی برداشت نہیں کر سکی اور اس کی حالت غیر ہو گئی ۔۔۔ان “سُورمے ” مردوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ عورت بھی انسان ہے۔۔آپ کی بیوی بھی کسی کی بہن بیٹی ہے اگر وہ اس عمل سے ابھی یوز ٹو (عادی) نہیں ہو پا رہی تو اسے کچھ وقت دو۔۔۔بے شک چند دن دے دو۔۔لازمی نہیں پہلی رات ہی یہ “ایگزام ” لینا ہی لینا ہے۔۔بندہ خدا! اسے اس عمل کے دوران بالکل ویسا ہی درد ہوتا ہو گا  جیسے مار پیٹ کا درد ہو۔۔ہر عورت ہر لڑکی کی جسمانی برداشت الگ الگ ہوتی ہے۔اگر آپ زیادہ تکلیف میں دیکھیں تو رک جائیں۔۔کل سہی۔۔پرسوں سہی۔۔اللہ زندگی رکھے وہ آپ کی اپنی ہے۔۔آپ اس کے تمام حقوق رکھتے ہو۔۔۔آپ سے کس نے کہہ دیا کہ پہلی رات یہ کام کرو گے تو ہی ولیمہ جائز ہو گا یا آپ مرد “گردانے” جاو گے۔۔۔؟

تیسری قسم ان لڑکوں کی ہے جو جنسی عمل کے دوران زیادہ دورانیے کو مردانگی گردانتے ہیں۔ان کے نزدیک اگر شادی کی پہلی رات آپ نے جنسی عمل میں ایک گھنٹے سے کم وقت لگایا تو آپ “مرد” ہی نہیں۔۔اور یہ بدقسمتی سے اس مغالطے کا شکار پڑھے لکھے حضرات بھی ہیں۔میرے ایک انتہائی قریبی دوست ساری عمر زنا اور غلط کاریوں میں ملوث رہے۔شادی قریب آئی تو انھیں احساس کمتری ہونا شروع ہو گیا کہ پہلی رات میں ایک منٹ یا اس سے کم وقت میں ہی نزول کا شکار نہ ہو جاوں لہذا اسی پریشر میں انھوں نے شادی سے ایک ماہ قبل ایک حکیم سے معجون لے کر کھانا شروع کیا۔۔ہزاروں روپے بھی لگائے اور شادی کی پہلی رات مسلسل چالیس منٹ بنت  حوا کو اس کی مرضی کے خلاف روندتے رہے ،نتیجہ یہ ہوا بیوی کو رات کو تین بجے ہسپتال لے جانا پڑا اور سارے زمانے سے جھوٹ بولنا پڑا کہ اس کے معدے میں درد اٹھا ہے۔۔ان لوگوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ لازم نہیں لڑکی کو نقطہ سکون تک پہنچانے کے لیے آپ کو جنسی عمل میں زیادہ وقت لگانا پڑے آپ جنسی عمل سے پہلے بھی بہت سے ” کام ” کر کے اس عمل میں مدد لے سکتے ہو۔

چوتھی قسم ان لوگوں کی ہے جن کے نزدیک شادی کی پہلی رات کم از کم پانچ یا چھے بار ایسا عمل کرنا عمر بھر کی بھڑاس نکال دینے کے برابر ہے یا اس سے انھیں اگلی تئیس مارچ پر تمغہ مردانگی ملے گا۔۔ایسے لوگوں کے دوست بھی پھر انہی کی سوچ کے مالک ہوتے ہیں۔۔ولیمے کی صبح صبح دولہے کو دیکھتے ہی ان کا سب سے پہلا سوال یہی ہوتا ہے ” ہاں وئی! کنی واری (کتنی بار) اور دولہا بھی کمینگی والی مسکراہٹ کے ساتھ انگلیوں سے تعداد بتائے گا اور بڑھا چڑھا کر بتائے گا۔اس کے نزدیک یہ عزت کا پیمانہ ہے وہ جتنی زیادہ تعداد بتائے گا معاشرے میں اس کی اتنی عزت گردانی جائے گی۔۔اسے سمجھانے کی ضرورت ہے کہ آپ اپنی بیوی کا لباس ہو۔آپ نے ایسے راز شیئر کر کے بھرے بازار میں اپنی بیوی کو خود بے لباس کر دیا ہے اور اپنے ہی دوستوں کے ذہن میں اپنی ہی بیوی کے بارے گندگی کا ایک بیج  بو دیا ہے۔۔

پانچویں قسم ان لوگوں کی ہے جن کی ساری عمر گندی فلمیں دیکھتے گزری ہے اور ان کے دماغ پر گندی فلموں کے سین سوار رہتے ہیں ۔۔اور انھیں شادی کی پہلی رات کا شدت سے انتظار ہوتا ہے کہ یہ سارے سین “پرفارم” کر کے اپنے آپ کو ” مرد” منوایا جائے۔۔ان لوگوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ان موویز میں کام کرنے والے سارے کے سارے پروفیشنل لوگ ہوتے ہیں جو مختلف اور مہنگی ادویات کا سہارہ لے کر لوگوں میں بے راہ روی اور خناس بھر رہے ہیں اور نوٹ چھاپ رہے ہیں۔۔ان مہنگی ادویات کے بغیر وہ بھی عام انسان ہی ہیں کوئی “باہو بلی” نہیں۔۔ان کا مقصد نوٹ چھاپنا ہوتا ہے۔۔آپ لوگوں کو ترغیب دینا نہیں کہ اپنی بیوی کو “اکھاڑہ” بنا لو۔۔

بدقسمتی سے ہم اس معاشرے میں رہتے ہیں جہاں مائیں اپنی بیٹیوں اور باپ اپنے بیٹوں سے ان معاملات پر بات کرتے شرماتے ہیں ۔۔۔انھیں یہ باتیں ماں باپ نہیں سمجھاتے۔۔مساجد کے امام نہیں سمجھاتے۔ عمر میں بڑے دوست یا پڑھے لکھے دوست نہیں سمجھاتے تو پھر غلط صحبت اپنا اثر دکھاتی ہے۔۔اور انسان چلتا پھرتا جنسی درندہ بن جاتا ہے۔جو بیوی کو بچے پیدا کرنے اور سیکس کی مشین کے سواء کچھ سمجھنے کو تیار ہی نہیں ہوتا،۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں نے  ایک اچھی نیت سے یہ تحریر لکھی ہے اور پانچوں اقسام ڈسکس کرنے کے ساتھ ساتھ حل بھی بتائے  ہیں کہ ان لوگوں کو کیسے سمجھایا جائے۔۔۔اور حتی الامکان سنسر شدہ الفاظ استعمال کیے ہیں۔۔اس امید پر یہ تحریر لکھی ہے کہ اگر ان پانچوں اقسام میں سے کوئی ایک شخص بھی یہ پوسٹ پڑھ کر اپنی سوچ بدل لے تو کسی کی بہن بیٹی “اکھاڑہ” بننے سے بچ جائے گی۔۔یہ بات ذہن میں رکھیے گا کل کو آپ نے بھی بیٹی کا باپ بننا ہے اور بیٹیاں جب کسی کی بیویاں بنتی ہیں تو وہ چاہنے اور پیار کرنے کے لیے ہوتی ہیں “اکھاڑہ” بنانے کے لیے نہیں۔۔بیویوں کو یوں پیار سے رکھیں جیسے کانچ کے برتن رکھے جاتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply