فاٹا میں جہالت یا تعلیم کا فقدان؟۔۔۔۔عبداللہ خان چنگیزی

ملک خداداد کے وسیع و عریض شہروں میں دیہاتوں میں اور چھوٹے چھوٹے گاوں میں جہاں ہر جگہ مسائل کے انبار موجود ہیں آزادی کے دن سے لیکر آج تک وہ ہم سمجھ سکتے ہیں کہ وسائل کی کمی اور کچھ سربراہانِ مملکت کی کوتاہیوں اور غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہوسکتا ہے روزگار عنقا، سرمایہ ناپید ،بجلی کے ساتھ ساتھ دوسری توانائیوں  کی پیداوار میں کمی، معاشی صورتحال ابتر اور مہنگائی کا طوفان الگ غرض ہر انسانی وسائل میں بہت پیچھے ہم پاکستانی قوم اب تک زندہ ہیں، تبدیلی کے دعوے داروں کی اہمیت بھی روز بروز گُھٹتی چلی جارہی ہے اور عوام میں شدید بے چینی دیکھنے میں آرہی ہے۔ موجودہ صورتحال ایسی ہے کہ کوئی غیر ملکی سرمایہ دار اپنا پیسہ یہاں لانے کو تیار نہیں سوائے چند قریبی دوستوں کے ،وجوہات کیا ہیں اور کون ذمہ دار ہیں یہ ایک الگ موضوع ہے اِس مسئلے نے پورے ملک کو اپنی  لپیٹ  میں لے لیا ہے ہماری دعا ہے رب کریم سے کہ ہمیں اس آزمائش سے نکال کر ایک بہتر زندگی سے روشناس کرائے، اِن مسائل نے جہاں ملک کے باقی شہریوں کی معاشی اور اقتصادی کمر توڑ کر رکھ دی ہے وہاں فاٹا کے لوگ  بھی اس  چکی میں برسوں سے پِس رہے ہیں ۔۔برسوں سے کیوں اور کیسے ؟وضاحت عرض ہے۔ فاٹا جس کو موجودہ حکومت نے پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خوا  میں ضم کر دیا ہے موجودہ شکل میں اِس کی حالت ملک کے دوسرے حصوں سے زیادہ غور طلب ہے کیونکہ یہ ملک کا ایک ایسا ٹکڑا ہے جس کی قربانی کی مثالیں لازوال ہیں اور سب سے زیادہ خون کی قربانی اسی ٹکڑے نے دی ہے اپنے وطن کی بقا کے لئے آج بھی فاٹا کے بہت سے دیہاتوں اور پہاڑی علاقوں میں شدت پسندوں کے ساتھ کاروائیوں میں جو مظلوم عوام کا نقصان ہوا ہے وہ کسی اور کا نہیں ہوا، آج بھی قبائلی کا بیٹا سکول کے نام سے نابلد اور تعلیم کی اہمیت سے ناآشنا ہے بارود کی بو اور بم دھماکوں کی گھن گرج آج بھی اُن بچوں کے معصوم دلوں کو لرزا رہی ہے، علم کی روشنی سے مانوس ہونا تو دور وہاں کے لوگ یہ سوچنا ہی چھوڑ چکے ہیں کہ ایک تعلیم یافتہ اور جاہل میں کیا فرق ہوتا ہے وہاں اِس سے پہلے نہ تو کوئی باقاعدہ تعمیراتی کام ہوئے، نہ ہی کوئی عوام دوست منصوبے بنائے گئے، حالیہ دہشتگردی میں ملک کا جو خطہ سب سے زیادہ متاثر ہوا وہ یہی فاٹا ہے جہاں پر ملک دشمنی سے لیکر مذہبی اور لسانی ملک دشمنان عناصر نے خوب کُھل کر کھیل کھیلے اور وہاں کے عوام کی زندگی کو شدید ترین مسائل سے دوچار کردیا، اُن مسائل میں جہاں معاشی ترقی کی روک اور صحت کے شعبے میں رکاوٹیں سامنے آئی ہیں وہ تو ہیں ہی پر جو شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے وہ ہے تعلیم، فاٹا کے اُن تمام قبائلیوں کے بچے گزشتہ کئی سالوں سے تعلیم جیسی  بیش بہا نعمت سے محروم ہیں اور اگر مکمل محروم نہیں تو تقریباً آدھے تو اِس عذاب میں گرفتار ہیں ہی، بہت سے سکول آج بھی بند پڑے ہیں جو برائے نام تو سکول ہیں مگر اُس میں پڑھنے کے لئے نہ ہی بچے آتے ہیں اور نہ ہی وہ اساتذہ جو تنخواہ تو سرکار سے اِسی سکول کے نام پر لے رہے ہیں مگر اپنی ڈیوٹی کہیں اور کر رہے ہیں، سکولوں کا ڈھانچہ برائے نام ہے تعلیم کا شعور اُجاگر کرنے کے لئے کسی نے اقدامات نہیں  کئے، کوئی حکومتی اہلکاروں نے تعیلمی زندگی کے لئے نہ ہی کوئی کنونشن منعقد کیا اور نہ ہی قبائلیوں کو یہ شعور دوسرے ذرائع سے دیا گیا، غربت اِس معیار تک پہنچ چکی ہے کہ اگر والد دن رات محنت کرے تو صرف اتنا کما لیتا ہے کہ وہ دو وقت کی عزت کی روٹی کھا سکے ایسے میں پرائیویٹ اسکولوں کی غنڈہ  گردی الگ، ایک مزدور پیشہ کیسے اپنے بچے کو اُس سکول میں پڑھنے کے لئے بھیجے گا جس کی ماہانہ فیس ہی اُس کے بس سے باہر ہو۔ ماحول اگر علم دوست نہ ہو تو بچے کے ذہن پر کسی بھی دوسرے منفی ترغیبی رجحان کا اثر انداز ہونا عین فطری بات ہے، بڑے بڑے اخباروں میں فاٹا کی جہالت کی سرخیاں تو ہر روز مختلف اشکال میں دیکھنے کو ملتی ہیں مگر کبھی کسی نے وہاں اُس تعلیمی فقدان کو ختم کرنے کے لئے آواز بلند نہیں کی جس کی وجہ سے یہ سب ہو رہا ہے، جہالت کا تعلق براہ راست تعلیم سے ہے جب معاشرے میں آپ اپنے بچے کو ایک مثبت تعلیمی ماحول فراہم نہیں کریں گے تو وہ بچہ کیسے اُس معاشرے کے لئے ایک اچھا شہری ثابت ہوگا؟ فاٹا کے بہت سے لوگ یا تو مزدور پیشہ اور سخت مشقت کرنے والے ہیں یا پھر ملک سے باہر پردیس میں رہ رہے ہیں اور وہاں بھی مزدور اور سخت مشقت ہی کی زندگی گزار رہے ہیں اِس سب کا تعلق ایسا ہے کہ جو بچہ اپنی زندگی کی ابتدا ہی تعلیم کی دوری سے کرے گا وہ آنے والے مستقبل میں تعلیم کی روشنی سے کیسے فیضیاب ہوسکے گا؟ ٹوٹے ہوئے کھنڈرات میں اور بغیر اساتذہ کے خالی بھوت بلڈنگوں میں بچوں کی ذہنی نشوونما نہیں ہوتی اور نہ ہی بچے ایسے ماحول میں رہ کر ایک باوقار زندگی کے لئے جدوجہد کرسکتا ہے۔ حکومتِ وقت سے یہ پُرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ فاٹا کے لوگ اب اور اِس جہالت میں رہنے کے متحمل نہیں ہوسکتے اُن کا بھی اتنا ہی حق تو بنتا ہے ایک آزاد ریاست میں کہ اُس کے لئے تعلیم کا حصول آسان سے آسان ترین بنایا جائے اور اُن علاقوں کی ہنگامی بنیادوں پر جانچ پڑتال کی جائے جہاں پر تعلیمی ادارے یا تو سِرے سے موجود ہی نہیں اور یا اگر موجود ہیں بھی تو وہاں کا سٹاف اپنی ڈیوٹی ایمانداری سے نہیں کر رہا، وہاں بھی کالج اور یونیورسٹیاں بنائی جائیں تاکہ کل تک کا مظلوم سرحدی علاقے کے قبائل کا بیٹا مستقبل میں ایک اعلی تعلیم یافتہ اور ملک و قوم کا نام روشن کرنے والا سپوت بن  کر سامنے آئے۔

Facebook Comments

عبداللہ خان چنگیزی
منتظر ہیں ہم صور کے، کہ جہاں کے پجاری عیاں ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply