پی ٹی ایم کے علی وزیر کے چھ نکات۔۔۔خالد داؤد خان

رکن قومی اسمبلی نے مندرجہ ذیل زہریلی باتیں پشاور جلسے میں بیان فرمائیں۔ یوں تو وہ جب بھی مائیک پکڑتے ہیں، زہر ہی اگلتے ہیں لیکن پشاور میں کچھ زیادہ ہی آپے سے باہر ہو گئے۔۔۔ ملاحظہ کریں۔
1۔ ہم ارمان لونی کی ایف آئی ار نہیں چاہتے کیونکہ پشتونوں کے معاملات قانون سے آزاد ہوتے ہیں۔ قتل کا بدلہ قتل سے ہی پورا ہوگا، پشتون قوم صدیوں سے جنگ و جدل اور اموات کی عادی قوم ہے، واللہ اب تم نہیں بچنے والے۔ (لہٰذا ثابت ہوا کہ اردو بیانیہ تو تعلیم و ترقی پر مشتمل ہے لیکن پشتو تقاریر میں بارودی زیورات ابھی تک زیبِ تن ہیں)
2۔ چین اور دیگر ممالک سے پر زور اپیل ہے کہ پشتون علاقے میں کی جانے والی سرمایہ کاری کا کوئی بھی معاہدہ ریاستِ پاکستان سے نہ کیا جائے۔ یہ معاہدات ہم خود کرینگے جب ہم معاہدہ کرنے کی پوزیشن میں آجائیں (یعنی ایک خود مختار آزاد ریاست)۔ وہ وقت اب قریب ہے جب ہمارے دل ٹھنڈے ہو جائیں گے۔ ( یہاں وہ ٹھنڈے پانی سے اپنا “ٹٹر” یخ کرنے کی بات ہرگز نہیں کر رہے)
3۔ ان (یعنی پاکستان) کے ساتھ کسی قسم کے کوئی مذاکرات ممکن نہیں، مذاکرات ہوئے بھی تو بے نتیجہ ہی نکلیں گے، ہمیں اور ان (ریاستِ پاکستان) دونوں کو بخوبی علم ہے کہ فیصلے کیلئے ہمیں بالآخر کونسی حد تک جانا ہے۔ (ٹروتھ کمیشن کا ناقابلِ عمل مطالبہ اسی ارادے کی طرف اشارہ کر رہا ہے، یعنی سنجیدگی بالکل ندارد)
4۔ ہماری زمین غلام ہے، ہم سب غلامی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ (نوٹ: غلامی کا متضاد “آزادی” کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا اسلئے آڑھی ترچھی تاویلوں کے ذریعے تسلیاں دینے سے گریز کیا جائے) صاف صاف کہہ دیتا ہوں کہ اس وقت کچھ مجبوریاں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں، جس دن یہ مجبوریاں ختم ہوئیں، غلامی ترک کر دینگے۔( اس بپھرے ہوئے بیل کو اگر اجازت مل جائے تو کسی دن سٹیج پر پشتونستان کا جھنڈا بھی لہرا دیگا، اس بندے سے کسی قسم کی کوئی بعید نہیں)
5۔ جو پشتون ان (پاکستان ) کے ایجنٹ ہیں، باز آ جائیں ورنہ انہیں پنجابیوں کے ساتھ باندھ کر سمندر برد کیا جائے گا۔ (یعنی باقی ماندہ پاکستانیوں کو تو سمندر برد کرنا ہی کرنا ہے، ان کے خلاف تو اعلانِ جنگ ہو ہی چکا ہے، جو رہ گئے ہیں انہیں بھی ساتھ ملا لیا گیا)
6۔ اگر ہم پشتونوں کے ساتھ ہمدردی کرنے افغانستان جاتے ہیں تو تمھیں اگر تکلیف ہے تو سو دفعہ ہو، میں تو پشتونوں کیلئے بمبئی بھی جاؤنگا (بڑی بہادری اور پٹھانوں والی بات کر دی ایم این اے صاحب نے لیکن ان 8 پشتون مزدوروں کو تو بھول ہی گئے جن پر ظلم کسی اور نے نہیں بلکہ کابل جانان نے کیا ہے)۔ اسکے بعد اشرف غنی کی انگریزی ٹویٹ کا سلیس پشتو ترجمہ کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکہ، پاکستان اور طالبان کے مابین مذاکرات کو ہم نہیں مانتے کیونکہ اس میں افغانی موجود نہیں (موصوف کے مطابق طالبان شاید “فجی آئی لینڈ” سے تشریف لائے ہیں، بعد میں مجھے یہ بھی خیال آتا رہا کہ پشاور میں ہونے والے خالص پاکستانیوں کے جلسے میں افغانستان کے اندرونی معاملات کی بات کرنے کی آخر کیا ضرورت۔ یہ جلسہ پشاور میں تھا یا کابل میں؟)
قارئین خود فیصلہ کریں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply