• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • علیحدگی پسند تحریکوں کے برپا ہونے کی بنیادی وجہ ۔ ڈاکٹر عرفان شہزاد

علیحدگی پسند تحریکوں کے برپا ہونے کی بنیادی وجہ ۔ ڈاکٹر عرفان شہزاد

علیحدگی پسند تحریکیں انسانی سماج کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، جس نے ان گنت انسانی المیوں کو جنم دیا۔ ریاستِ پاکستاں میں بھی علیحدگی پسند تحریکیں ملک کے مختلف حصوں میں چل رہی ہیں۔ پاکستان خود بھی ایک علیحدگی پسند تحریک کے نتیجے کے طور پر وجود میں آیا تھا۔ بنگلہ دیش کا قیام بھی اسی رجحان کے ایک نتیجے کے طور پر سامنے آیا تھا۔

 علیحدگی پسند تحریک کیوں اٹھتی ہے؟ اس پر دقیق اور عمیق تحقیقی مقالہ جات لکھے گئے ہیں اور مزید بھی لکھے جا سکتے ہیں۔ لیکن بعض اوقات گہرے علمی مباحث میں حقیقت، جو اپنی اصل میں بہت سادہ ہوتی ہے، کہیں دب سی جاتی ہے، کہیں پس منظر میں چلی جاتی ہے۔ اقبال  نے درست کہا تھا:

اے اہل نظر ذوقِ  نظر خوب ہے لیکن

جو شے کی حقیقت کو دیکھے ،وہ نظر کیا

ہمارے محترم جناب ریحان احمد یوسفی صاحب فرماتے ہیں کہ بہت مشکل مسائل کا حل بہت سادہ باتوں میں ہوتا ہے۔ محقق اور مفکر کا کام ہوتا ہے کہ اس سادہ حل کو ڈھونڈ نکالے۔ علیحدگی پسندی کا یہ مظہر بھی درحقیقت اپنی بُنت میں بہت سادہ ہے اور اسی لیے اس کا حل بھی بہت سادہ ہے۔ علیحدگی پسند تحریکوں کی کے پیچھے اگر غور کریں تو بنیادی وجہ ایک سادہ حقیقت ہے اور وہ ہے باہمی حقوق کی جنگ، دوسرے لفظوں میں، کمزور فریق کا اپنے استحصال کا احساس۔ یہ کشمکش ایک سماج کے دو گروہوں کے درمیان برپا ہوتی ہے، جو کسی بھی فطری یا غیر فطری بنیاد پر آپس میں شناختی اختلاف رکھتے ہیں۔ ان میں ایک فریق طاقت ور اور دوسرا کمزور ہوتا ہے۔ حقوق کی یہ جنگ عمومًا اکثریت اور اقلیت کے دو گروہوں کے درمیان ہوتی ہے۔ پھر جب علیحدگی پسند تحریک ایک بار اٹھ کھڑی ہوتی ہے تو اپنے مقدمے کو مزید جواز بخشنے اور مضبوط کرنے کے لیے دیگر عوامل اور دلائل بھی بعد میں شامل کرتی چلی جاتی ہے۔ چنانچہ کبھی اسے قومیت یا نسلیت کے نظریے کے ذریعے تقویت پہنچائی جاتی ہے اور کبھی مذھبی اختلاف کو شامل کر کے اپنے ہم مذھبوں سے حمایت حاصل کرنے کے لیے جوشِ جنوں پیدا کر لیا جاتا ہے اور کہیں قومیت اور مذھب  دونوں کو ملا کر نظریاتی قوت فراہم کر لی جاتی ہے، جیسا کہ تقسیمِ ہند کے معاملے میں ہوا کہ دو قومی نظریے میں قومیت کی بنیاد مذھب قرار دے کر قومیت اور مذھبیت کے دو نظریوں کو ایک بنا لیا گیا اور یوں مسلم لیگ کی علیحدگی پسند تحریک کو دو نظریوں کی طاقت بہم پہنچائی گئی۔ اس مقام پر آ کر حقوق کے حصول کی جنگ، حقوق کے حصول کی جنگ سے بڑھ کر علیحدگی کی جنگ بن جاتی ہے۔ اصل وجہ  یعنی استحصال کا مسئلہ، پس منظر میں چلا جاتا ہے، علیحدگی خود مقصود بن جاتی ہے، کیونکہ جو بیانیہ اس اثناء میں ارتقاء پاتا ہے وہ نظریاتی اور اصولی طور پر قومیت اور مذھبیت کی بنیاد پر علیحدگی کو ہی مقصود اصلی قرار دے بیٹھتا ہے، اس مقام پر آ کر استحصال نہ ہونے کی یقین دہانی بھی کام نہیں کرتی۔ سارے مسئلے کا حل علیحدگی میں دکھائی دینے لگتا ہے۔

ایک حقیقت یہ ہے کہ سماج کا کوئی گروہ، جو خصوصًا اقلیت میں ہو، اپنے حقوق کے معاملے میں زیادہ حساس ہوتا ہے۔ ا س کے ساتھ زیادتی تو ہوتی ہی ہے لیکن زیادہ حساس ہونے کی وجہ سے وہ کسی عمومی زیادتی کو بھی اپنے ساتھ خصوصی زیادتی شمار کر لیتا ہے۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ اکثریت اپنی طاقت کے زعم میں اکثر اقلیت کے حقوق تلف کرتی ہے۔ سماج میں یہ کشمکش ہمیشہ چلتی رہتی ہے۔ اس معاملے میں اگر ریاست و حکومت منصف مزاج اور حساس ہوں اور عدل و انصاف کا نظام احتساب کرنے کے لیے موجود ہو تو شکایتیں اور مسائل پیدا ہوتے بھی رہتے ہیں اور ساتھ ساتھ حل بھی ہوتے رہتے ہیں، کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہیں ہونے پاتا۔ لیکن حکومت اگر خود ایک استحصالی فریق بن جائے اور شاکی فریق کو انصاف ملنے کی امید بھی نہ رہے تو اس میں علیحدگی پسند رجحانات پیدا ہونا لازمی امر ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ایک باپ کے بیٹے جو باپ کی طرف سے ملنے والے حقوق میں پائی جانے والی کسی ناانصافی پر آپس میں اور باپ سے بھی ناراض ہو جائیں۔ باپ کو اگر سب بیٹے پیارے ہوں گے تو وہ ان کی شکایت بھی سنے گا اور اسے دور کرنے کی کوشش بھی کرے گا۔ یوں جھگڑا ختم ہو جانے کا پورا امکان ہوگا۔ لیکن اگر وہ اپنے بیٹوں میں انصاف برتنے کی بجائے، کسی ایک منظورِ نظر بیٹے کو نوازنے لگے تو دوسرے بیٹوں میں شکایت پیدا ہونا اور اس بنیاد پر لڑائی جھگڑے ہونا اور اس کے نتیجے میں علیحدہ ہو جانا قابلِ فہم ہے ۔ پھر ایک بار جب نفرت پیدا ہو جائے تو یوں بھی ہوتا ہے کہ بھائیوں کو ایک دوسرے کی  دیگر عادات اور بول چال کے انداز تک سے شکایتیں پیدا ہونے لگتی ہیں۔ لیکن ان تمام ثانوی درجے کی شکایتوں کے پیچھے حقیقی وجہ ایک ہی ہوتی ہے،  وہ ہے حق تلفی کا احساس ۔ یہ احساس اگر رفع ہو جائے، مثلاً نوازا جانے والا منظورِ نظر بھائی خود سے اپنے بھائیوں کو ان کا حق دے دے تو اس سے وابستہ تمام شکایتیں دور ہو جائیں گی۔ پھر اس کا طرِز کلام برا لگے گا اور نہ کوئی اور عادت۔ سماج میں علیحدگی پسندی اور تقسیم کاری کے پیچھے ساری کہانی یہی ہے۔

پاکستان بننے کے پیچھے بھی اصل کہانی یہی تھی۔ اس کی شروعات بنگال سے ہوئی جہاں ہندو اور مسلمان دونوں بڑی تعداد میں رہتے تھے۔ 1905 میں بنگال کی تقسیم پر مسلمانوں اور ہندوؤں میں اختلافِ رائے پیدا ہوا۔  کانگریس سے ان بنگالی مسلمانوں کو غیر جانبداری کی توقع نہیں رہی تھی۔ اس لیے ان میں مسلم لیگ جیسی جماعت کا خیال آنا بدیہی بات ہے۔ لیکن پھر معاملہ سادہ نہ رہنے دیا گیا، اکثریت اور اقلیت کے درمیان حقوق کی جنگ کو قومیت اور مذھبیت کی جنگ میں بدل ڈالا گیا۔ پھر علیحدگی خود مقصود بن گئی۔ جداگانہ انتخابات اور صوبائی خود مختاری کی یقین دہانی بھی کافی نہ ہوسکی۔ انہیں محسوس ہوا کہ چونکہ ان کے ساتھ ہونے والا امتیازی سلوک ان کے مسلم ہونے کی وجہ سے ہے اس لیے انہوں نے بھی یہ باور کر لیا یا انہیں یہ باور کرا دیا گیا کہ ان کا مذھب بھی اجازت نہیں دیتا کہ ہندو ؤں کے ساتھ رہا جائے اور علیحدہ ہونا ان کا مذھبی حق ہے۔ یہی دو قومی نظریہ بن گیا۔ پھر قائد اعظم نے علیحدگی پسندی کو اسلام کا اصول بنا کر پیش کر دیا۔ مارچ 1944 کو مسلم علی گڑھ یونیورسٹی کے طلباء کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

“پاکستان کے مطالبے کا محرک کیا تھا؟ اور مسلمانوں کے لیے ایک جداگانہ مملکت کی وجہ کیا تھی؟ تقسیمِ ہند کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کی وجہ ہندوؤں کی تنگ نظری ہے نہ انگریزوں کی چال، یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ ہے۔”

اگر یہ بات درست تھی کہ ایسا کرنا اسلام کا مطالبہ تھا تو  کیا اسلام ہندوستان میں رہنے والے کروڑوں مسلمانوں کو، ہندو اکثریت کے ساتھ رہنے کی اجازت دیتا ہے؟ کیا یہ اسلام کا مزاج ہے کہ وہ مسلمانوں میں یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ وہ کسی کثیر القومی سماج میں دیگر مذاہب کے ساتھ بقائے باہمی کے اصول پر نہیں رہ سکتے اور ان کا علیحدہ ہونا ہی ضروری ہے؟ پھر کیا وجہ ہے خود پاکستان کے سماج میں مسلمانوں کا دیگر غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ رہنا گوارا کر لیا گیا ہے؟ پھر مسلمانوں کا کسی بھی غیر مسلم معاشرے میں رہنا جائز کیوں کر ہو سکتا ہے؟ یہ اور اس جیسے بہت سے دیگر سوالات دو قومی نظریے کی اس مخصوص سیاسی تعبیر سے پیدا ہونے لگے، جن کے جواب کسی کے پاس نہ تھے۔

پاکستان بنانے کے لیے سب سے پہلے جانی اور مالی قربانیاں اہل بنگال نے اپنی مرضی سے پیش کی تھیں۔ وہ یوں کہ مسلم لیگ کی قیام پاکستان کے لیے تمام سیاسی جدو جہد 1946 میں ناکام ہوتی نظر آ رہی تھی۔ کانگریس اور برطانوی حکومت تقسیم کے کسی فارمو لے پر اتفاق نہیں کر پائے تھے۔ انگریز بغیر تقسیم کیے ملک چھوڑ کر جا رہے تھے۔ یہ صورتِ حال مسلم لیگ کو قبول نہ تھی۔ چنانچہ قائد اعظم کے اعلان پر 16 اگست 1946 کو ڈائریکٹ ایکشن ڈے منایا گیا، جس میں مسلم سٹریٹ پاور کا مظاہر ہ کیا گیا ۔ اس مظاہرے میں سب سے نازک علاقہ کلکتہ کا تھا، جہاں ہندوؤں کی کثیر آبادی رہتی تھی۔ کلکتہ میں فسادات پھوٹ پڑے، چار ہزار لوگ مارے گئے، ایک لاکھ لوگ بے گھر ہوئے۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر کانگریس اور برطانوی حکومت کو تقسیم کے لیے راضی ہونا پڑا۔ اس پر مسلمانوں کو مادر وطن یعنی متحدہ ہندوستان سے غداری کے طعنے بھی دیئے گئے۔ مسلم لیگ کی ساری سیاست ایک طرف اور ڈائریکٹ ایکشن ڈے پر بنگال کے مسلمانوں کی قربانیاں ایک طرف ہیں۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ مسلم لیگ کے قیام اور تحریک پاکستان میں بنگالی مسلمانوں  کا کردار سب سے زیادہ تھا۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان اگر بنا ہے تو ان کی اسی قربانی کی وجہ سے اس کا وجود میں آنا ممکن ہوا تھا۔

لیکن اصل مسئلہ ہندو مسلم کا نہیں تھا۔ مذھبیت یا تہذیبی شناخت کا بھی نہیں تھا، جیسا کہ باور کرایا گیا تھا، اس لیے کہ متحدہ ہندوستان میں دیگر اقلیتوں کو بھی اسی طرح کی شکایتیں تھیں۔ خود ہندوؤں کے اندر کئی کمزور طبقے برہمن وغیرہ کے استحصال کا شکار تھے۔ چنانچہ اصل مسئلہ طاقت ور فریق کی استحصالی نفسیات سے پیدا ہونے والی شکایت کا تھا۔ یہ بات تحریک پاکستان کے سیاسی ہیجان میں یک گونا نظر انداز ہو گئی اور بعد میں شامل ہونے والی عوامل یعنی مذہبیت اور قومیت زیادہ توجہ حاصل کر گئے۔ لیکن بنیاد وہی تھی، اکثریت کے ہاتھوں اقلیت کے استحصال کی شکایت۔

اس کا ثبوت 1971 میں سامنے آگیا جب اہل بنگال (مشرقی پاکستان) کو پاکستان کے وفاق سے شکایتیں پیدا ہوئیں۔ انہین اپنے حقوق نہ ملے، استحصال کے شکوے بھی کام نہ آئے اور مرکز نے بھی ان کا ساتھ نہ دیا کیونکہ مرکز خود استحصالی طبقوں پر مشتمل تھا۔ پاکستان اور دو قومی نظریے کے بانی انہی بنگالیوں نے کوئی چارہ نہ پا کر ایک بار پھر علیحدگی کی تحریک چلا دی، اور ایک بار پھر  اپنا خون دے کر پاکستان سے الگ ہو گئے۔ تاریخ نے ایک بار پھر خود کو دہرایا مگر اس بار مقابل ہندو نہیں بلکہ مسلمان تھے۔ بنگالیوں نے مغربی پاکستان کے  استحصالی مسلمانوں کے خلاف بالکل اسی رویے کا مظاہرہ کیا جس کا مظاہرہ انہوں نے استحصالی ہندوؤں کے خلاف کیا تھا۔ اور غداری کا فتوی بھی ویسے ہی ملا جیسے ہندوؤں سے ملا تھا۔ تو مسئلہ طاقت ور کے استحصال کا تھا نہ کہ ہندو مسلم یا کسی  مذھب کے پیرو کار ہونے کا۔

آج پھر یہی مسئلہ بلوچستان، کراچی، کشمیر،گلگت بلتستان اور قبائلی علاقوں میں درپیش ہے۔ ملکی سیاست میں پنجاب اور سندھ ہی طاقت کا منبع ہیں۔ ان میں سے بھی پنجاب کو زیادہ مرکزیت حاصل ہے۔ باقی صوبوں کو ان سے تقسیمِ وسائل اور تقسیمِ اختیارات پر شکایتیں رہتی ہیں۔ ادھر وفاق اور حکومت پنجاب، پنجاب کے چند شہروں کو پیرس بنانے کے جنون میں مبتلا ہیں اور دوسری طرف ملک کے محروم علاقے زندگی کی بنیادی سہولتوں کو ترستے ہیں۔ کراچی میں مہاجر برادری  ملک کی سب سے زیادہ پڑھی لکھی اور سب سے زیادہ مہذب آبادی تھی۔ لیکن برسوں ان کے ساتھ امتیاز برتا گیا،  ان کا استحصال ہوتا رہا، جس نے ان میں نفرت اور غصہ بھر دیا، جس کو کیش کرنے کے لیے ایک لیڈر کی ضرورت تھی، وہ انہیں الطاف حسین کی صورت میں مل گیا، جس نے رد عمل کی نفسیات کے تحت تشدد کی سیاست کو فروغ دیا۔ الطاف حسین نہ ہوتا تو کوئی اور مل جاتا لیکن صورت حال تب بھی یہی ہوتی۔ اگر قائد اعظم جیسے مدبر لیڈر کو ایک وقت میں استحصالی ہندوؤں کے خلاف اور ان سے اپنی بات منوانے کے لیے ڈائریکٹ ایکشن ڈے جیسے خونی معرکے برپا کرنے پڑے تو دوسرے علیحدگی پسند لیڈروں سے تو ایسے اقدامات کی توقع زیادہ کرنی چاہیے۔ یہ بات بھی دیکھنے کی ہے کہ کسی  اقلیتی گروہ کو اپنے حقوق کی خاطر آواز اٹھانے والا الطاف حسین جیسا شخص بھی مل جائے تو وہ کس طرح اس کے لیے بھی پاگل ہو جاتے ہیں، صرف اس لیے کہ وہ ان کے حقوق کی بات کرتا ہے۔ پھر استحصال کا شکار اس مہاجر آبادی نے اپنے مقدور بھر کراچی میں اپنے لیے ایک طرح سے علیحدہ ریاست بھی  قائم کر لی،جس کی حدود میں کوئی دوسرا ان کی اجازت کے بغیر نہیں جا سکتا۔ مہاجر برادری کی تعداد کم تھی اور اس تعداد کے ساتھ اتنا ہی ممکن تھا۔ گویا بات استحصال کی شکایت سے اٹھی اور قومیت کی بنیاد پر منی سٹیٹ کے قیام تک پہنچ گئی۔ اور غداری کےے فتوے بھی اسی طرح جاری کیے گئے۔ یہ بالکل وہی کہانی ہے جو قیامِ پاکستان اور قیامِ بنگلہ دیش میں ہم نے سنی۔

اسی طرح بلوچستان اور ملک کے دیگر محروم علاقے کے لوگوں میں احساس محرومی اور استحصال کی شکایت پیدا ہوئی۔ برسوں یہ شکایت صدا بصحرا بن کر گھومتی رہی۔ آخر جب یہ شکایت بہرے کانوں سے ٹکرا کر ناکام ہو کر لوٹ کر آئی تو بلوچوں نے علیحدگی پسندی کی آبیاری کرنے لگی۔ استحصالی حکومت نے پھر اس پر غدار ی کا لیبل بھی لگا دیا۔ پھر وہی کھیل کھیلا جانے لگا۔

یہی کہانی کشمیر، گلگت بلتستان اور پختونوں کی ہے۔ یہ سب لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کے بلوچ، کشمیری، پختون یا گلگیتی ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے۔ یہ سب اس سلوک کو اپنی قومیت کے تناظر میں دیکھتے ہیں، حالانکہ یہ درحقیقت طاقت ور کا کمزور کے خلاف استحصالی کھیل ہے۔ پہلے یہ متحدہ ہندوستان میں کھیلا گیا اور اب جگہ جگہ مقامی طور پر کھیلا جار ہا ہے۔ فریق بدل گئے ہیں لیکن اصول ابھی بھی وہی ہے۔

حرفِ مدعا یہ ہے کہ افراد ہوں یا اقوام، ان کا اکٹھ یا توڑ مذھب یا قومیت کی بنیاد پر نہیں ہوتا، بلکہ انصاف اور استحصال کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ استحصال سے بچنے کا حل علیحدگی میں نہیں ہے۔ آج اگر خدانخواستہ استحصال سے تنگ ملک کا کوئی حصہ علیحدہ ہو بھی جاتا ہے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اس نئی قوم میں پھر سے طاقتور گروہ کمزور طبقے کا استحصال نہیں کریں گے۔

 پاکستان اور بنگلہ دیش اس کی واضح مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں ۔ شمال ایشیاء کے مسلمان ہندوؤں کے استحصال کے شکنجے سے نکلے تو اپنوں کے استحصال کا شکار ہو گئے۔ پھر دوبارہ اپنوں  کے استحصال سے بچنے کے لیے ان سے بھی علیحدگی کو مسئلے کا حل بتایا جا رہا ہے۔

علیحدہ ہونا مسئلے کا کوئی حل سرے سے ہے ہی نہیں۔ جو استحصال بڑے پیمانے پر ہو رہا ہوتا ہے وہی استحصال علیحدہ ہونے کے بعد چھوٹے پیمانے پر شروع ہو جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آزادی کس سے چاہیے، کسی دوسری قوم سے یا استحصال سے۔اس کا جواب یہی ہے کہ یقیناً استحصال سے آزادی چاہئے۔ اگر کوئی یہ باور کراتا ہے کہ آپ کو آزادی قومیت یا مذھب کی بنیاد پر چاہیے تو یہ محض فریب ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ آزاد لوگ اپنا آزاد وطن چھوڑ کر اپنے گزشتہ استحصالی آقاؤں کے دیس میں وہاں کے قانون کے تحت زندگی بسر کرنے کے لیے دوڑے چلے جاتے ہیں۔ اس لیے کہ وہاں انہیں مساوات یا کم استحصال کا سامنا ہوتا ہے۔ انہیں امید ہوتی ہے کہ  برابر کے مواقع میسر آئیں گے۔ انہیں یقین ہوتا ہے کہ کوئی ان کی محنت چرا نہیں لے جائے گا۔ وہاں کے عدل و انصاف کے نظام پر انہیں بھروسہ ہوتا ہے۔ چنانچہ قومیت، مذھبیت، تہذیبی شناخت کے تحفظ جیسے نظریات سب ہوا ہو جاتے ہیں۔ اپنے نظریات کے لیے جانیں دینے والے اور جانیں لینے والے انہی نظریات کو پامال کرتے ہوئے اپنے گزشتہ آقاؤں کی غلامی کرنے ان کے ملک پہنچ جاتے ہیں۔

تاریخ کے اوراق سے حاصل کئے گئے ان نتائج کا مدعا یہ ہے کہ اصل مقابلہ استحصال کے خلاف ہونا چاہیے۔ آزادی دراصل ہم استحصال سے حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن ہدف غلط متعین کر بیٹھتے ہیں۔ استحصال سے اٹھنے والی ناراضی کو طرح طرح  کے ازم  اور جذباتی و تخیلاتی نعروں کے غبار میں گم کر بیٹھتے ہیں۔ چنانچہ غلط ہدف کا تعین ہمیں سیدھے رسے سے بھٹا دیتا ہے۔ نتیجتاً منزل بھی وہ نہیں ملتی جس کے لئے سفر کیا جاتا ہے۔ ہمارا حال یہ ہوتا ہے کہ:

کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں، دیکھنا انہیں غور سے

جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے

ابھی پہلے سفر کی تھکن نہیں اترتی، ابھی پہلی جدوجہد کے زخم مندمل نہیں ہوئے ہوتے کہ ایک بار پھر استحصال کا پرانا کھیل نئے کھلاڑی شروع کر دیتے ہیں۔ ایک بار پھر استحصال کا شکار عوام کمر کستے ہیں، لیکن پھر سے قومیت اور دوسرے ازم انہیں گمراہ کر دیتے ہیں۔ ان کا استحصال کرنے والے طبقے مسئلے کا حل ایک بار پھر علیحدگی میں بتاتے ہیں، اور لوگ ایک قسم کے استحصالیوں سے بچ کر ایک دوسری قسم کے استحصالیوں کے نرغے میں جا پھنستے ہیں۔ برصغیر کے تناظر میں یہ کہانی گزشتہ تقریباً دو صدی سے مسلسل دہرائی جا رہی ہے۔

اس سارے مسئلے کا حل علیحدگی نہیں بلکہ طاقت ور کو سمجھانے میں ہے کہ وہ انصاف سے کام لے۔ استحصال سے دست بردار ہو جائے۔ اس کے لیے  اخلاقی اور تعلیمی جہاد کی ضرورت ہے، جو طویل بھی ہے اور صبر آزما بھی، لیکن حل ہے تو یہی ہے۔ ذرائع ابلاغ کی کثرت اور ترقی کی وجہ سے ایسا کرنا اب اتنا مشکل بھی نہیں رہا۔

 طاقت ور کی نفسیات کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر اپنی بات اسے طاقت کی زبان میں سمجھانے کی کوشش کی جائے تو وہ ضد میں آ جاتا ہے اور جو بات وہ عام حالات میں مان سکتا ہے وہ بھی ماننے کے  لیے تیار نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے مسلح قومی تحریکوں کے مسائل حل ہو رہے ہیں نہ ان کی رائیگاں قربانیوں کا سلسلہ تھم رہا ہے۔ اس کے لیے اہل فکر و دانش  کو سماج اور تاریخ کا مطالعہ کرکے درست زاویہ نظر لوگوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بے سود قربانیوں کا یہ سلسلہ اب رک جانا چاہیے۔  ایک ہی خونی کھیل بار بار کھیل کر انسانیت تھک کیوں نہیں جاتی؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply