بنام رنگِ آرزو ۔۔۔ سنی ڈاہر

سرمئی ہوتی ہوئی شام کے دھیمے دھیمے سلگتے اور راکھ ہوتے رنگوں کو جزیروں کے اس دیس میں دبے پاؤں اترتے دیکھنا بھی ایک الگ ہی تجربہ ہے۔ سرخ، نارنجی، گہرا جامنی اور بالاخر سیاہ ہوتا یہ آسمان میرے دھیان کو روز مرہ کے معمول سے کھینچ کر ہزاروں میل دور اس سرزمین پہ لے جاتے ہیں جس کی سنہری مٹی اور رنگ رنگیلے موسموں کو یہ رزق کی مجبوریاں مجھ سے جدا کر چکی ہیں۔
اس ملک کی سیلی فضاؤں میں سمندر کی نمکین مہک تو ہے مگر تمہارے گندم رنگ وجود کی دھرتی کی مانند فیاض خوشبو ماں کے دوپٹے کی مہک کے ساتھ ہی کہیں دور پیچھے رہ گئی ہے۔
تمہاری آنکھوں میں اترتی شفق کا منظر مجھے کسی سمندر پر بھی دیکھنے کو نہیں ملتا۔ شہد میں ملتا گلال اور میرے انتظار کی گرد کو وجود پہ اوڑھے تمہاری پرچھائیں بند آنکھوں میں کسی خواب جیسی لہرانے لگتی ہے اور بے بسی۔۔۔تمہیں نہ دیکھ سکنے کی بے بسی اور نہ چھو سکنے کا کرب خاموشی سے میری پلکوں کی سیاہی کو بڑھا دیتا ہے۔
جانتی ہو؟  میں جہاں رہتا ہوں، اس عمارت کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا پارک پے جہاں شام کو اکثر ایک مقامی ملے لڑکی اپنے چھوٹے سے کتے کے ساتھ ٹہلنے آتی ہے۔ بھورے بالوں والا یہ کتا پارک میں آنے والے پرندوں کے تعاقب میں بھاگتا رہتا ہے مگر وہ لڑکی ہمیشہ ایک مخصوص بینچ پر بیٹھ کر ساکت چہرے کے ساتھ ڈوبتا سورج دیکھتی رہتی ہے اور اس پل اس اجنبی لڑکی پہ مجھے تمہارا گمان ہوتا ہے ۔ خدوخال سے ماورا، انتظار ہر ایک چہرے پر اپنی مخصوص چھاپ چھوڑ جاتا ہے جو تاثرات کو منجمند کرنے کی صیلاحیت رکھتا ہے اور یہ خیال مجھے میری روح کی گہرائی تک لرزا کے رکھ دیتا ہے کہ میری محبت اور انتظار کا بار تمہارے وجود کو کچل نہ دے۔۔تمہارے لبوں کی سرخیوں پر تھکن کی زردیاں نہ حاوی ہو جائیں اور آنکھوں کے کنول مرجھا کر راکھ رنگ نہ ہو جائیں۔
کبھی کبھی تو مجھے خود پر غصہ آتا ہے کہ اپنی معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھاتے ہوئے میں تمہارے ہاتھوں کی لکیروں میں انتظار لکھ آیا ہوں۔لیکن پھر خود غرض ہو کر یہ کہہ کے خود کو تسلی دے لیتا ہوں کہ آخر یہ انتظار تمام ہو گا اور میری زندگی تمہارے رنگوں سے ہفت ہزاری تصویر کا روپ دھار لے گی ۔من چاہے اور سدا بہار رنگ!!
تمہیں شاید خبر ہو کہ پردیس کاٹتے انسان پر رنج و الم دوگنا بھاری ہو کر گزرتے ہیں ۔اور وہ رات جو مجھ پر قیامت بن کر گزری تھی تو کسی تسلی، دلاسے اور ہمدردی کے باوجود میری ہر سانس آزار تھی ۔تو تب!  ایک لمحہ ایسا بھی آیا کہ میرے ریزہ ریزہ ہوتے وجود کو صرف تمہاری آغوش میں بکھر جانے کی ضرورت تھی مگر تم نہ تھیں!  کچھ تھا تو تمہاری آواز تھی جو میرے زخموں پر پھاہے رکھتی تھی اور میرا دل اپنی بے بسی پر گھنٹوں لہو روتا تھا۔
تم سوچ رہی ہو گی کہ کیسا عجیب شخص ہے، اپنا ہی رونا روئے جاتا ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ میرے شب و روز، رنج و الم اور لمحات مسرت صرف تم سے عبارت ہیں ۔ یہ تم ہی تو ہو جس کی آواز سے میرے ٹوٹتے حوصلوں کی فصیل توانا ہو اٹھتی ہے اور میں معاش کی جنگ میں تازہ دم سپاہی کی طرح کود پڑتا ہوں۔
کام پہ جاتے ہوئے  ، سڑکوں پارکوں اور ٹرین میں سفر کرتے ہوئے جب میں نوجوان جوڑوں کو ہنستے کھلکھلاتے اور محبت کے رنگوں سے چمکتے چہروں کے ساتھ آسودہ خاطر دیکھتا ہوں تو نگاہ ایک بار اپنے خالی پہلو پر ضرور اٹھتی ہے ۔ تم وہاں نہیں ہوتیں!  لیکن ایک کائنات ،تمہارے دھیان کی لامحدود کائنات مجھے تم سے ہمیشہ جوڑے رکھتی ہے۔ میری تھکن کو تم اپنی مہربان صورت سے مٹا دیتی ہو اور تمہاری وہ انگلی جس میں میرے نام کا ایک سنہری حلقہ ہے میری تھکی آنکھوں پر ایک پرندے کے سبک پر جیسی محسوس ہوتی ہے۔
اے رنگ تمنا!  تب میں خدا سے بس ایک دعا مانگتا ہوں کہ وہ ہر کائنات میں مجھے تمہارا رکھے۔ میری آنکھوں نے من چاہے منظروں میں تمہارے ساتھ جو خواب دیکھے ہیں ان پر کبھی خزاں نہ آئے اور یہ رنگ!  یہ کائناتی رنگ جو تمہاری آنکھوں کا ہے اس پہ کبھی گرد ملال نہ اترے کہ میرے گوشوارہ زیست میں تمہارے بنا فقط خسارہ ہے۔
سنو ! یہ چند لفظ میری محبت کی گہرائی کو بیان کرنے کے لئے ناکافی ہیں مگر کیا کروں کہ الفاظ اس اظہار کی وسعت سے بہت چھوٹے ہیں لہذا میری کم الفاظی کو میری لاپرواہی نہ سمجھنا اور انتظار کی شب دیجور میں یہ ننھے چراغ جلائے رکھنا!  تب تک کہ جب تک میں تمہارے ساتھ منتوں کے چراغ جلانے نہ لوٹ آؤں۔
اپنا خیال رکھنا!  ہمارے لئے ۔
فقط تمہارا مسافر۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”بنام رنگِ آرزو ۔۔۔ سنی ڈاہر

  1. اب سنی کتنا احساسات کا لکھاری ہو گیا ہے۔ وطن اور دوستوں سے دوری کو مثبت طریقے سے برت رہا ہے۔ شاندار!!

Leave a Reply