عورت

عورت
ارے اُدھر تو دیکھو،توبہ توبہ کیا زمانہ آ گیا ہے
زبیر نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئےکہا تو میری نظریں بے اختیار اس کی نظروں کا پیچھا کرتی سڑک کے اس پار ایک دکان پر جا ٹھہریں۔
وہاں ایک کریانے کی چھوٹی سی دکان تھی۔ جس پر کوئی گاہک ابھی ابھی آیا تھا۔ دکان میں موجود ایک نوجوان لڑکی بڑی احتیاط اور سلیقے سے ایک ہاتھ سے اپنے دوپٹے کے پلو کو بار بار سیدھا کر رہی تھی۔ اور دوسرے ہاتھ سے گاہک کو سودا دینے میں مصروف تھی۔
دکان شاید اس لڑکی کے گھر سے منسلک تھی کیونکہ اس کا ایک دروازہ اندر کی طرف کھلتا نظر آرہا تھا۔ جب بھی کوئی گاہک آواز دیتا وہ لڑکی اس دروازے سے دکان میں داخل ہوتی۔ خاموشی سے سوداسلف دیتی اور پھر اسی دروازے سے اندر چلی جاتی تھی۔
مجھے اس منظر میں کچھ خاص نظر نہیں آیا تو میں نے مُڑ کر استفہامیہ نظروں سے زبیر کی جانب دیکھا۔ جو اب بھی دوکان پر۔ ۔ ۔ یا پھر اس لڑکی پر نظریں ٹکائے دونوں کانوں کو ہاتھ لگائے جا رہا تھا۔
میں آج صبح ہی زبیر(نام فرضی ہے) سے ملنے اس قصبہ نما چھوٹے سے شہر پہنچا تھا ۔جہاں وہ ہمارے محکمے کے ایک پراجیکٹ پر کام کر رہا تھا۔ اور مجھے اس کی کچھ تکنیکی معاونت کے لیے بھیجا گیا تھا۔ ہم کام پر جانے سے پہلے چائے پینے کے لیے ایک چھوٹے سے ڈھابہ نما ہوٹل پر رکے تھے، کہ اس دوران اس کی نظر دکان پر پڑی اور اب توبہ استغفار کی گردان جاری تھی۔
میں الجھن آمیز نظروں سے زبیر کی جانب دیکھ رہا تھا کہ آخر اسے سر جھکائے خاموشی سے کام کرتی اس لڑکی میں ایسی کیا خرابی نظر آ گئی تھی۔ جو توبہ توبہ کر رہا تھا۔
اتنے میں ہوٹل کا مالک بھی ادھر آ گیا وہ زبیر کا لنگوٹیا لگتا تھا کیونکہ آتے ہی اس کی حالت دیکھ کر بے تکلفی سے کہنے لگا۔ ۔ ۔
کیا یار۔ ۔ ۔ یہ لڑکی تو آج کل روز دوکان پر آتی رہتی ہے۔ اصل میں اس کا باپ بیمار ہے اور ماں بھی ضعیف ہے۔ اس لیے اسے آنا پڑتا ہے
پھر بھی ایک جوان لڑکی کو یوں اکیلے دکان پہ بٹھا دینا کوئی تُک بنتی ہے۔ ماں بیٹھ جایا کرے عجیب بے غیرت لوگ ہیں
زبیر نے جواباً کہا۔ ۔ ۔
یار تو چھوڑ۔ ۔ ۔ جو بھی ہے۔ دیکھ کیا غضب دِکھ رہی ہے۔ ہمارا تو دن اچھا گزر جاتا ہے۔ اسی بہانے گاہک بھی خوب آ جاتے ہیں
ہوٹل کے مالک نے کہا تو میں چونک گیا۔ میں نے دیکھا کہ اس کی بات سن کر زبیر کے ہونٹوں پر ایک طنزیہ اور شیطانی مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔
ہم کام پر چلے گئے۔ بقیہ تمام دن میں زبیر کو پراجیکٹ کے معاملات سمجھاتا رہا اور لیبر کی چیکنگ وغیرہ کی۔ ۔ ۔ اسی ادھیڑ بَن میں شام ہو گئی۔ تب میں نے واپسی کی اجازت چاہی۔
تو اس نے کہا کہ تھک گئے ہوں گے آؤ شہر کے مشہور مقام پر چلتے ہیں جہاں آپ کی ساری تھکن اتر جائےگی۔ ۔ ۔
اس نے کچھ اس انداز سے کہا کہ میں تجسس کے مارے اس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گیا۔ جسے کچھ دیر چلانے کے بعد اس نے ایک عجیب سی جگہ پر روک دیا۔
گاڑی سے اترتے ہی مجھے ناگوار سی بُو محسوس ہونے لگی۔ پھر جب میں نے کچھ نیم عریاں عورتوں کو گھروں کے باہر دروازوں پر کھڑے مردوں سے خوش گپیاں کرتے اور بھاؤ تاؤ کرتے دیکھا۔ ۔ ۔تب سمجھ آیا کہ میں “کِس”بازار میں کھڑا ہوں۔ مجھے گھِن سی محسوس ہونے لگی اور میں نے زبیر کو واپس نکلنے کو کہا تو وہ ہنستے ہوئے بولا۔ ۔ ۔
“کیا ہو گیا جناب۔ یہ دنیا ہے یہاں سب چلتا ہے۔ یہ تو ان کا کاروبار ہے۔ کیوں فکر کرتے ہیں کچھ نہیں کہتیں۔ کچھ مزا کرتے ہیں پھر چلے جانا”
لیکن میں نے سختی سے اسےفوراً وہاں سے نکلنے کو کہا۔ ۔ ۔
میرا دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا۔
زبیر نے مجھے ایک ہی دن میں صرف ایک انسان کے ہی نہیں ہمارے معاشرے کے دو روپ دکھا دیے تھے۔ ۔ ۔
واپسی پر تمام راستہ میرے ذہن میں منٹو کی تحریر سے ملتے یہ الفاظ گونجتے رہے۔ ۔ ۔
ہمارا معاشرہ ایک عورت کو کوٹھا چلانے کی اجازت تو دیتا ہے مگر دکان چلانے کی نہیں

Facebook Comments

ندیم رزاق کھوہارا
اردو زبان، سائنس، فطرت، احساس، کہانی بس یہی میری دنیا ہے۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply