پانچ روپے۔۔۔ ابوعبدالقدوس محمد یحییٰ

یہ نیک با ہمت نوجوان کی کہانی ہے جو اپنے خاندان کی عزت و وقار کا سبب بنا ۔اس نے بچپن ہی سے انتہائی محنت ،جانفشانی اورتندہی سے کام کرنا شروع کیا۔اس شخص کا نام حارب تھا۔ اوراسے اپنے نام ہی کی مانندپوری زندگی مشکلات ومصائب سے جنگ لڑنا پڑی ۔ہر دفعہ مشکلات اورمصائب پر وہ آخر کار غالب آیا۔بچپن میں اس کے سوچنے کا انداز یہ تھا کہ سارے دکھ میری ہی قسمت میں کیوں لکھ دیئے گئے ہیں۔میں ہی تنہا کیوں آزمائشوں میں مبتلاکیا گیاہوں۔ لیکن ایک حادثہ کے بعد اس کی سوچ یکسر بدل گئی۔ وہ اس بات پر خوشی کا اظہار کرنے لگا کہ لایکلف اللہ نفسا الا وسعہا۔اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی بساط سے بڑھ کرآزمائش میں نہیں ڈالتا۔یہ جو آزمائشیں اس پر نازل ہوئی ہیں یہ بزدلوں اورناتوانوں کے بس کی بات ہی نہ تھی۔ وہ ہے ہی اتنا طاقتور ،بہادر،جو اللہ کی رحمت اس کی جانب متوجہ ہے ۔وہ بآسانی ان امتحانات سے گزر کراورمشکلات کو جھیل کر مزید ترقی کی منازل طے کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے بلند مرتبہ اورغنی نفس عطا کرنا چاہتا ہے۔لہذا اب اس کی سوچ بالکل مثبت ہوگئی ۔ اس کے بارے میں یہ شعر نہایت موزوں ہوگا
اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دل
ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا (جگر مراد آبادی)
کہانی کا آغاز کچھ یوں ہے کہ حارب ابھی گیارہ سال کا ہی ہواتھا کہ اس کے والد کا بہت خطرناک روڈ ایکسیڈنٹ ہوگیا۔تقریباً تین ماہ زندگی موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد اس کے والد اس دنیا سے چل بسے۔ ان کی پس پیش کی گئی رقم خود ان کے علاج معالجہ پر خرچ ہوگئی۔اس وقت حارب حافظ بن رہاتھا۔ اس کا حفظ تکمیل کے مراحل میں تھا اورابھی حفظ کے دوپارے باقی تھے۔پرائمری کے بعد اس کے والد نے اسے حفظ میں ڈال دیا تھا۔ان کا ارادہ تھا کہ پہلے وہ حفظ کرے گا پھر وہ عام تعلیم کی جانب جائے گا۔اگرچہ اس کے والدکوئی امیر کبیر شخص نہ تھے لیکن ان کا خواب تھا کہ وہ حفظ کرکے اعلیٰ تعلیم حاصل کرے اور ان کے خاندان کا نام روشن کرے۔لیکن اس کے والد کے اچانک انتقال کرجانے اور ان کی باقی ماندہ جمع پونجی ان کے علاج پر خرچ ہوجانے کی وجہ سے اس کے والدین کے اس سے متعلق دیکھے گئے تمام خواب سراب بنتے ہوئے محسوس ہونے لگے۔
پردہ نشین گھر داری کرنے والی بیوہ خاتون اپنے چھوٹے بچوں کی خاطر جرات وحوصلہ کا مظاہرہ کرتی ہوئی باہر نکلیں اورایک فیکٹری میں کام تلاش کیا ۔شوہر کے انتقال کے بعداس کی والدہ محنت مزدوری کرکے گھر کا خرچ چلانے لگی۔ماں کوباہر نکل کر کام کرتادیکھ کر حارب کا دل خون کے آنسو روتا۔لیکن ابھی وہ خالی الذہن تھا اوراسے کچھ سجھائی نہ دیتا کہ وہ کرے تو آخرکیا؟
تاہم والدہ کے کام کرنے کا معاملہ بھی زیادہ عرصہ نہ چل سکا سات چھوٹے بچوں کی ماں روزوشب کی اتنی زیادہ مشقت برداشت نہ کرسکی ا ورکچھ عرصہ بعد وہ بھی بیمارہوگئیں ۔وہ اتنی شدید بیمار ہوئیں کہ پندرہ دن کام پر بھی نہ جاسکیں ۔معاشی حالات اتنے خراب ہوئے کہ اس وقت گھر میں فاقوں کی نوبت آگئی ۔جب کہ دو وقت کی روٹی تو پہلے ہی انتہائی دشوار تھی۔اس پر مستزادمشکل دور میں خاندان کہ تمام افراد ایک ایک کرکے ان سے ناطہ توڑ کر چلے گئے۔وہ لوگ جو کبھی ان کا دم بھرتے تھے، ہر وقت ان کی بلائیں لیتے تھے اب ایسے کنارہ کرگئے گویا کبھی کسی قسم کے کوئی مراسم تھے ہی نہیں۔ اگر کبھی راستے میں ان لوگوں سے ملاقات ہوبھی جاتی تو ایسا لگتا کہ شاید یہ بالکل اجنبی ہیں۔ ہاں اگر کوئی مکالمہ ہوتا تو اس میں طنز وطعن کے نشترچھپے ہوتے ۔اس لئے یہ بھی اپنے خاندان کے افراد سے ملنے میں کترانے لگے۔ خاندان کے دیگر افراد کے ناطہ توڑنے کے سبب کسی قسم کی امداد یا پھرقرض ملنا بھی ناممکن تھا۔اس وقت اس حساس بچے کے دل کی کیفیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ وہ کس کرب سے گزررہا ہوگا۔
یہی وہ ایام تھے جس میں اس کی زندگی نے پلٹا کھایا۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک دفعہ اس کا بھائی اس کے پاس آیا کہ بھائی مجھے پانچ روپے چاہئیں۔ یہ پانچ روپے بھی اس کے پا س نہیں تھے۔ بھائی بہت اصرار کرنے لگا۔ اسے اپنے چھوٹے بھائی سے بہت محبت تھی اوراب وہ اس کے پانچ روپے مانگنے پر بے بسی کی تصویر بنےاس کی جانب دیکھ رہاتھا۔کیونکہ یہ اپنے بھائی کی ادنی سی خواہش پوری کرنے سے قاصر تھا۔ یہ اس کی زندگی کا انقلابی لمحہ تھا ۔اس لمحہ اس نے دل میں ایک بہت بڑا فیصلہ کرلیا۔اس کے بعد یہ اپنی بیماروالدہ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔اورماں سے گویا ہوا: میں اب تعلیم حاصل نہیں کروں گا۔
ماں:بیٹا تم علم حاصل کرو علم انسان کو قیمتی بناتاہے۔
بیٹا:ماں آپ نے بجا فرمایا لیکن میں علم سیکھوں گا تو کئی سال بعد کچھ کرنے کے قابل ہوں گا۔ جب کہ ابھی ہمارے حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے۔ میرے چھوٹے بہن بھائی میرے سامنے ہیں۔ میں خود محنت کروں گا اوراپنے بہن بھائیوں کو علم کی شاہراہ پر چلاؤں گا۔
ماں :تمہاری سوچ اچھی ہے لیکن تم خود جاہل رہ جاؤ گے۔
حارب چونکہ حکایات وکہانیاں پڑھنے کا عادی تھا اس نے والدہ سے کہا کہ میری مثال اس مرغ کی مانند ہے جسے ایک دفعہ ایک قیمتی موتی ملا اس نے کہا اے موتی تو کسی اورکے لئے تو بہت قیمتی ہوگا میرے لئے تیری جگہ ایک گندم کا دانہ زیادہ قیمتی ہے۔ اسی طرح ماں میرے لئے ابھی تعلیم کے بجائے باقی بہن بھائیوں کی سرپرستی ضروری ہے۔ماں اگر میں تعلیم حاصل کرنے لگا تو پھر ہم سب بہن بھائی جاہل رہ جائیں گے۔لیکن ہم دونوں محنت کرکے انہیں پڑھنے لکھنے کے قابل بنا سکتے ہیں۔اس نے ماں سے طویل بات چیت کی۔ ماں آخر تک اس کی تعلیم کے لئے اصرار کرتی رہی ۔ لیکن وہ اپنے موقف پر قائم رہا کہ آپ کی خواہش اپنی جگہ اس وقت باقی بہن بھائیوں کا خیال رکھنا اورتن پروری ضروری ہے۔بہرحال بادل نخواستہ اس کی والدہ اس کے اصرار کے سامنے خاموش ہوگئی۔وہ اگرچہ چھوٹا تھا لیکن نامساعد حالات نے اسے بہت کچھ سکھادیاتھا۔وہ صحیح معانی میں اس شعر کا مصداق ثابت ہوا
تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے (سید صادق حسین)
گیارہ سال کے بچے کو کون جاب دیتا ہے۔ وہ کربھی کیا سکتاہے۔کئی جگہ ملازمت کی کوشش کی ۔ہر ایک خوبصورتی سے ٹال دیتا۔بہرحال ایک دکان پر چھوٹی سی ملازمت شروع کی۔ جہاں دو وقت کی روٹی اور معمولی سی تنخواہ پر اس نے کام شروع کیا ۔ جس عمر میں بچےکھیل کود میں مصروف ہوتے ہیں، والدین ان کے لاڈاٹھاتے ہیں،ان کی تعلیم و سیروسیاحت کا خیال رکھتے ہیں اس عمر میں وہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی زندگی کی شمع بن کر گھر میں اجالا کررہا تھا۔وہ شاید اس پر مطمئن رہتا۔لیکن وہ اس کام کے لئے نہ بنا تھا ۔یہاں ترقی کا توکوئی موقع نہ تھا۔ اورقدرت نے اسے بڑی ذمہ داریاں سونپنے کا فیصلہ کیا ہواتھا۔ اسے مزید ترقی کے زینے چڑھانے کے لئے ابھی اس کی بہت آزمائشیں اورامتحانات آنے تھے۔ ایک دن وہ دوکان سے گھر جارہاتھا کہ راستے میں ایک رکشہ ڈرائیور نے اسے ٹکر ماردی ۔ اس ایکسیڈنٹ سے اس کا بازو تین مقام سے بری طرح ٹوٹ گیا۔اس کے سرپر بھی گہری چوٹیں آئی۔
پھر علاج کا خرچ نہ ہونے کے باعث سرکاری اسپتالوں کے چکرلگانے پڑے۔ وہاں بجائے علاج کے اس کے زخم خراب ہوگئے۔ یہاں تک کہ ڈاکٹروں نے بازو کاٹنے کا مشورہ دیا۔لیکن یہ اس بات پر ڈٹ گیا بازو نہیں کٹواؤں گا۔ایک لمحے کو خیال آیا کہ اس زندگی سے نجات حاصل کرلوں ۔پھر چھوٹے بہن بھائیوں کی صورتیں ذہن میں گھومنے لگیں مستقبل میں وہ دربدر کی ٹھوکریں کھارہےہیں۔وہ بالکل تباہ وبرباد ہوجائیں گے۔بہن بھائیوں کاتصور آتے ہی اس کے اندر جینے کی آرزو پیدا ہوئی اور اس نے زندہ رہنے کا عزم کیا۔
لوگ جس حال میں مرنے کی دعا کرتے ہیں
میں نے اس حال میں جینے کی قسم کھائی ہے (امیر قزلباش)
بہرحال علاج اور دعائیں آخر رنگ لائیں اورڈھائی تین سال کے بعداس کا بازو صحت مند ہوگیا۔لیکن بازو کی ہڈی میں تین جوڑ کے سبب اب وہ بھاری کام نہ کرسکتاتھا۔ اس نے درزی بننے کا فیصلہ کرلیا۔لیکن اس آزمائش سے گزرنے کے بعد سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار کا پتہ چل گیا۔سرکاری ہسپتالوں کا چکرلگاتے رہو۔کبھی ڈاکٹر نہیں۔ دواؤں کا تو نام و نشان تک نہ تھا۔ وہاں عام آدمی کی اتنی تذلیل ہوتی ہے کہ الامان والحفیظ۔لوگ تڑپتے مریضوں کو ہسپتالوں کے سامنے لے کر بیٹھے رہتے ہیں اور ڈاکٹر ان پر کوئی توجہ نہیں کرتے ۔ ایمرجنسی وارڈ کی حالت بھی دگرگوں ہے ۔ مختلف حادثات کے شکار زخمی افراد ڈاکٹروں کی غفلت ،سستی اور لاپرواہی سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔جن کے پاس دینے کو رشوت یا پھرسفارش نہ ہو تو دربدر بھٹکتے رہتے ہیں ۔(اس نے دل میں ٹھانی کہ اگر اللہ رب العزت نےاسے موقع دیا تو وہ بیماروں کے لئے ایک رفاہی ہسپتال قائم کرے گا )
جب اس کا حادثہ پیش آیا اس کے بعد اس کے اندر کی دنیا بالکل بدل گئی۔ اس حادثہ سے پہلے وہ ایک تنہائی پسند،خوف کا شکار،بچہ تھا لیکن اس حادثہ نے جسمانی تکلیف تو پہنچائی لیکن روحانی اورجذباتی طور پر اس اس کے اندر ایک خاص قسم کی طاقت بھر گئی۔اس کے بعد اس میں ماحول سے مطابقت کی بہترین صلاحیت پیدا ہوگئی۔ وہ ہرطرح کے حالات کے لئے ذہنی طورپر تیار رہتا، مثل پانی جس برتن (ماحول) میں رہتا اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیتا یعنی اس ماحول سے اسے کوئی شکایت نہ ہوتی ۔ہاں اپنے طور پر وہ بہتر و مثبت رویہ رکھتا اورمعاشرہ کی حتی الامکان اصلاح کی کوشش کرتا۔وہ حالات یا دشواریوں کا رونا نہیں روتا۔ بلکہ صرف یہ دیکھتا کہ اس سلسلے میں وہ کیا کرسکتا ہے کیا مثبت کام ہے جو وہ کرکے حالات کو بہتر بناسکتاہے۔ وہ کرکے بالکل پرسکون ومطمئن ہوجاتا۔دکھ درد کسی سے بیان کرنا تو دور کی بات اب وہ دل میں بھی میل نہ لاتا، بلکہ اسے ہرآزمائش میں رب کی طرف سے بھلائی نظرآتی لہذا وہ بالکل پرسکون رہتا۔دوسروں کو دکھ سنا کر وقتی طور پر دوسروں کی تسلیاں اوردلاسے کا لالی پاپ رکھنے کے بعد انسان میں بالکل اسی طرح کام کرنے کا جذبہ مفقود ہوجاتاہے جیسا کہ لالی پاپ کے بعد بھوک پیاس کی طلب مٹ جاتی ہے۔ اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات کو ناتمام رکھ کر کسی بڑی خواہش کی تکمیل میں استعمال کیا جاسکتاہے۔ وہ ایسا ہی کرتا۔مستقل اس نہج پر زندگی گزارنے سے اس کی شخصیت مسحور کن بن گئی۔آنکھوں میں ایک خاص قسم کی چمک درآئی ،اس کے خدوخال بظاہر غیر معمولی نہ تھے لیکن اس کی خوش خلقی،اعتماد،وقار،نے اس کے اندر وجاہت اورجاذبیت پیداکردی ۔ جو بھی اس سے ملتا وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا۔ اس کے اندر سے خوشی اورمسرت کی لہریں پھوٹتی محسوس ہوتیں۔ کوئی کتنا ہی غمزدہ اورغموں کا مارا ہوا ہی کیوں نہ ہو اس کے پاس بیٹھ کر خوشی محسوس کرتا۔وقتی طور پر اپنے غموں کو بھول جاتا۔زندگی میں کچھ کرنے کی لگن اس میں بیدار ہوجاتی۔اورحارب کی اپنی ظاہری اورباطنی کیفیت بالکل ہی مختلف ہوگئی تھی۔ اتنے خوف وخطر سے گزرنے کے بعد اب اسے کسی بھی چیز سے خوف نہیں آتا حتی کہ موت کے نام سے بھی خوف نہیں آتا۔ جیسا کہ اگرکوئی شخص مستقل رنج کی کیفیت میں رہے اورمشکلات سے گزرتا رہے اس کے لئے رنج و الم بھی خوشی اورآسانی میں بدل جاتے ہیں ۔ بقول غالب
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
یکے بعددیگرے اس کی زندگی میں طوفان آتے اورگزرتے جارہے تھے لیکن اس نے کبھی ان کے سامنے ہتھیار نہ ڈالے،حالات سےشکست قبول نہ کی ۔ شکست و ہار جیسے الفاظ اس نے اپنی لغت سے ہی نکال دیئے تھے ۔ وہ جواں مردی ،حوصلہ ،مضبوط قوت ارادی سے ان طوفانوں کا سامنا کرتا اورہرگزرنے والے طوفان سے پہلے سے بھی زیادہ باحوصلہ اورطاقتور بن کر نکلتا۔
جو طوفانوں میں پلتے جا رہے ہیں وہی دنیا بدلتے جا رہے ہیں (جگر مراد آبادی)
آخر یہ اس کے بعد وہ اسی درزی کی دکان پر گیا جہاں اس کے والد مرحوم کام کرتے تھے۔اس نے بھی بہت لیت ولعل کے بعد ہمدردی واحسان جتلا کراس کو بطور ہیلپر رکھ لیا۔ اس نے بطور ہیلپر کام کرنے کے ساتھ کام سیکھنا بھی شروع کیا ۔اس کی تمام تر توجہ ہنرسیکھنے پر تھی۔ اس نے بہت مختصر مدت میں وہ کام سیکھ لیا۔ جس کام کو سیکھنے کے لئے لوگ کئی سال لگاتے ہیں یہ مہینوں میں سیکھ گیا۔مستقل محنت کرتے ہوئے اس کے ہاتھ میں وہ نفاست پیدا ہوگئی جو کئی سال کے بعد بھی دوسروں میں نہیں آتی۔ وہ انتہائی خود کار ،بااعتماد ماہر ڈیزائنر کے ساتھ،مارکیٹنگ کے فن کا ماہر،کمیونیکیشن اسکلز میں قدرتی مہارت رکھنے والاتھا۔اس کی تخلیقی صلاحیت، اور تخیلاتی قوت کے باعث وہ جو ڈیزائن ایک باردیکھتا پھر ہمیشہ کے لئے ذہن میں محفوظ بلکہ تھوڑی بہت تبدیلی کرکے اس کو کئی دوسرے رنگوں میں ڈھال دیتا۔یہ کام کرتے ہوئے اس کی قوت مشاہد ہ اورفن کاری میں مزید نکھار آیا۔اس کا سیکھنے کا عمل بہتر اور تیز ہوتا گیا یہاں تک کہ ایک دفعہ کوئی تصویر دیکھ لی وہ ہمیشہ ذہن میں محفوظ کرلی۔اس پر ذرا سی مشق کی اوروہ کام بآسانی سیکھ لیا۔ اسے اپنی ناکافی تعلیم کا بھی احساس تھا اس لئے وہ اورزیادہ محنت کرتا ۔جب وہ ڈیزائننگ میں مشاق ہوگیا تواس نے اپنے خاکے وڈیزائن بناکر اپنے دوست کی مدد سے مختلف ویب سائٹس پر اپلوڈ کئے اورپھر تہلکہ مچادیا۔ اس کی ڈیزائنگ غیرممالک میں بہت پسند کی گئی۔
اب اسے کاروبار میں ایک نئی جہت و سمت نظرآنے لگی۔اس نے سوچا کہ کلفٹن پردکان قائم کرنے سے اس کے خوابوں کی تعبیر مل سکتی ہے ۔ جس کے لئے خطیر سرمایہ کی ضرورت تھی۔اور وہ اس کے پاس سوائے آبائی مکان کے اور کچھ نہ تھا۔اس نے اپنی والدہ سے گھر بیچنے کی خواہش کا اظہار کیا اورکہا کہ وہ کلفٹن پر اپنی دکان کرنا چاہتاہے۔ جس کے لئے خطیر سرمایہ کی ضرورت ہے۔ اس کا ایک ہی حل ہے کہ ہم یہ گھر بیچ کر کرائے کے مکان میں شفٹ ہوجائیں اور طارق روڈ پر کرائے کی دکان لے کر اپنی دکان سیٹ کرلوں۔پہلے تو اس کی والدہ نے یہ کہہ انکار کیا کہ تمہارے مرحوم والد کی نشانی ہے۔ جب بیٹا مسلسل اصرار کرتا رہا اور تابناک مستقبل کی جھلک دکھاتا رہا تو اس کی والدہ نے کہا دیکھو بیٹا بہت پُرخطر(Risky) معاملہ ہے۔
حارب: نورزق ودآؤٹ رسک۔No Gain without Pain
ماں:ایسا نہ ہو کہ کاروبار بھی نہ چلے اور ہم مکان یعنی رہنے کی جگہ سے بھی ہاتھ دھوبیٹھیں۔ ابھی جو یہ دھیرے دھیرے بتدریج ہمارے حالات بہتری کی جانب جارہے ہیں ایسا ہی چلنے دو۔ کاروباروترقی کے چکر میں ٹھوکر کھاکر گرنہ جانا۔
حارب: گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں
وہ طفل کیا گرے جو گھٹنوں کے بل چلے
میری عمر سترہ برس ہے ۔ یہ وہی عمر ہے جس میں محمد بن قاسم نے ہندوستان فتح کرلیا تھا کیا آپ کو میری صلاحیتوں پر اتنا بھی یقین نہیں کہ میں ایک دکان چلالوں۔بہر حال اس کی والدہ نے اس کے سامنے ہتھیار پھینک دیئے اوراسے گھر بیچنے کی اجازت دی ۔ جس سے حاصل شدہ رقم سے اس نے ایک دکان کرائے پر لے کر اپنی دکان کا باقاعدہ آغاز کردیا۔یہ باقاعدگی سے پندرہ سولہ گھنٹے کاروبا ر میں لگاتا۔اورواقعی مختصر سی مدت میں اس نے کے دکان کامیابی سے چلاکر دکھادی ۔اب تو ان کے حالات دو دوگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگے۔ چند ہی سالوں میں اس نے اپنی دکان کوبوتیک کی شکل دے دی۔
اس نے بعد میں سوچا کہ اس کے لئے بہترین فیلڈ شاید یہی تھی۔ وہ فطری ڈیزائنر تھا ۔ وہ اگر عام تعلیم حاصل کرنے جاتا تو شاید کبھی بھی اس قدر کامیابی حاصل نہ کرپاتا۔ نیز کوئی کام یا ہنر کمی یا گھٹیا نہیں ہوتا۔ جس فن میں انسان محنت کرے وہ انسان کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچادیتا ہے۔ جس کی مثالیں تاریخ میں بے شمار ہیں۔ یہاں پچھلی صدی سے دو مثالیں پیش خدمت ہیں:
جیسا کہ ٹامس باٹا جو کہ ابتداءً عام موچی بن کر اپنے کاورباور کا آغاز کرتا ہے اور آج دنیا کے 100 سے زائد ممالک میں اس کے کاروبار ی مراکز قائم ہیں۔اوررشین فوجی کلاشنکوف نامی شخص جنگ میں زخمی ہونے کے بعد جب تمام معاملات سے الگ تھلگ ہوکرہسپتال کے بستر پر لیٹا تھا تو وہاں اس کے ذہن میں اپنی فوج کو کوئی ایسا ہتھیار دینے کا منصوبہ بنایا جو بعد میں کلاشنکوف کے نام سے پوری دنیا میں جاناجاتاہے۔
آج اس پربھی یہ بات صادق آتی ہے کہ ایک وقت تھا کہ وہ اپنے پیارے بھائی کو صرف پانچ روپے نہ دے سکتاتھا اور ایک آج ہے وہ بآسانی پانچ لاکھ روپے دے سکتا ہے۔ایک وقت پھروہ آیا کہ وہ لوگ جو ناطہ توڑ گئے تھے وہ بھی اس کو اپنا بھائی ، بیٹا بنانے میں فخر محسوس کرنے لگے ۔الغرض ماں اورچھوٹے بہن بھائیوں کی دعائیں اور اس کی انتھک محنت اورمثبت طرز عمل نے اس کو ایک کامیاب انسان بنادیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply