حکام کا نوٹس ‘ فرض شناسی یا نا اہلی کی داستان

کسی بھی سرکاری ادارے کے ذمے معمول کے کاموں کیلئے بھی اس کے سربراہ یا بڑے افسرکے نوٹس کی ضرورت پڑے تو اس کا کیا مطلب ہے؟ یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیئے کہ وفاقی یا صوبائی سطح کے سرکاری یا حکومتی حکام کا نا انصافی یا قانون شکنی کے واقعات کا نوٹس لے کر ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچانے کا اعلان کیا پیغام دیتا ہے؟ بہت سے لوگوں کے نزدیک ایسے نوٹسز حکام کی فرض شناسی یا تندہی ہو سکتی ہے مگر در حقیقت ایسے اقدام حلق پھاڑ کر متعلقہ محکمے کے نظام اور مقامی افسران کی نا اہلی کا رونا رو رہے ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر خاتون پر جنسی تشدد کے واقعے کی خبر میڈیا پر چلتی ہے۔ وزیر اعلیٰ واقعے کا نوٹس لیتے ہیں۔ آئی جی کو ملزمان پکڑنے اور متاثرہ کو انصاف دلانے کے احکامات جاری کئے جاتے ہیں۔ آئی جی مقامی پولیس کے افسران کو ان کے فرائض یاد دلاتے ہیں۔ تب کہیں جا کر متاثرہ خاتون کو انصاف کی امید نظر آتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیر اعلیٰ کی طرف سے واقعے کا نوٹس لئے جانے کے بغیر متاثر خاتون کو انصاف نہیں مل سکتا؟ وزیر اعلیٰ کے نوٹس پر حرکت میں آنا پولیس کی نا اہلی پر مہر ثبت کرتا ہے۔
ہسپتالوں میں علاج معالجے کی سہولیات کے لئے کمشنرز کو ہسپتالوں کے دورے کرنے پڑتے ہیں۔ یہ دورے ای ڈی او ہیلتھ اور متعلقہ ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کی چارج شیٹ سے کم نہیں۔ ڈی سی او کا بازاروں کے دورے کر کے مقررہ قیمتوں پر اشیاء کی فروخت کا جائزہ لینا ظاہر کرتا ہے کہ مارکیٹ کمیٹیاں کچھ نہیں کر رہیں۔ ڈی سی او کے بس اڈوں پر چھاپے اور زائد کرایوں پر کارروائیاں ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔ سیکرٹری ایکسائز کے مقامی دفاتر کے اچانک دورے اور سائلین کا شکایات کے انبار لگانا مقامی ڈائریکٹر اور ان کے عملے کی کارکردگی بتاتے ہیں۔ حالات یہاں تک ہیں کہ گلیوں ‘ پارکوں میں سیوریج کا پانی نکالنے تک کیلئے ایم ڈی واسا موقع پر موجود ہوتے ہیں۔
یہی حال محکموں کے اندر کا ہے۔ ماتحت عملے کو بھی اپنی معمول کی وہ ذمہ داریاں نبھانے کیلئے بھی اسی طرح کے نوٹس کی ضرورت پڑتی ہے‘ جن کے عوض وہ تنخواہ لے رہے ہوتے ہیں۔ چند دن پہلے اخبار کی ایک خبر نے یہ تحریر لکھنے پر مجبور کیا۔ خبر تھی کہ آئی جی پنجاب نے اعلان کیا ہے کہ ٹریفک وارڈنز کو ایک ماہ کے اندر اگلے رینک میں پروموٹ کر دیا جائے گا۔ یہ اعلان ہوتے ہی پورا محکمہ بھرپور حرکت میں آ گیا۔ آئی جی پنجاب کے اس اعلان نے ٹریفک وارڈنز میں خوشی تو پھیلا دی ہے اور بظاہر لگ بھی رہا ہے کہ انہوں نے ٹریفک وارڈنز کا بھرپور احساس کیا ہے مگر دوسری طرف افسوس کا پہلو یہ ہے کہ قریب 10 برس قبل بھرتی ہو کر آج تک اسی رینک میں کام کرنے والے ٹریفک وارڈنز کو ترقی کیلئے آئی جی پنجاب کے احساس پر مبنی اسی ’’نوٹس ‘‘ کی ضرورت ہے۔ اب اگلا سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ ’’نوٹس‘‘ مزید کئی سال تک نہ لیا جاتا تو ۔۔۔۔۔؟ ان دس برسوں میں محکمہ پولیس میں ترقیوں کے متعلقہ امور نمٹانے والی برانچیں اور ان کے سربراہ افسران کیا کر رہے تھے؟ اب چونکہ آئی جی پنجاب نے اعلان کر دیا ہے تو صورت حال یہ ہے کہ ان اہلکاروں کی ترقیوں کیلئے وہ کارروائیاں جن کے لئے ایک عرصہ درکار ہوتا ہے وہ چند دنوں میں مکمل کی جا رہی ہیں۔ جو آگے چل کر ایک نئی عجیب صورت حال پیدا کریں گی۔
آپ ترقی یافتہ ملکوں کے اخبارات پڑھ لیں‘ ٹی وی چینلز دیکھ لیں‘ سوشل میڈیا یا دیگر ذرائع سے وہاں کی صورت حال کا جائزہ لیں۔ آپ کو کہیں بھی اس طرح کے نوٹس لینے کی مثالیں نہیں ملیں گی۔ امریکہ کی کسی بھی ریاست میں قانون شکنی کے بڑے سے بڑے واقعے کا بھی امریکی صدر کبھی نوٹس نہیں لیتا کیونکہ اسے پتہ ہے کہ یہ ذمہ داری وہاں کے پولیس چیف کی ہے‘ جس میں ناکامی پر وہ متعلقہ ادارے کو جواب دہ بھی ہو گا۔ کینیڈا‘ برطانیہ‘ فرانس میں بھی وہاں کے صدور و وزیر اعظم متاثرین کے گھر جا کر امدادی چیک نہیں دیتے کیونکہ وہاں ’’نوٹس‘‘ نہیں اداروں اور ان کے ذمہ داروں سے کام لیا جاتا ہے۔

Facebook Comments

محمد اعظم
شعلۂ مضطر ہوں میں لیکن ابھی پتھر میں ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply