• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • وزیراعلی، وزیراعظم، چیف جسٹس اور آرمی چیف سے سوال۔۔۔۔عمار کاظمی

وزیراعلی، وزیراعظم، چیف جسٹس اور آرمی چیف سے سوال۔۔۔۔عمار کاظمی

کل شام پانچ سوا پانچ بیگم کو اکیڈمی سے فون آیا کہ آپکے بیٹے سے بچی کو غلطی سے بوتل لگ گئی ہے اور بچی غصے میں گھر گئی ہے آپ جلدی سے اکیڈمی آ کر ایک معافی نامہ لکھ دیں تاکہ بچی کے والدین کوتسلی دی جا سکے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ میرا بیٹا اور اس کے دوست اکیڈمی کے فارغ وقت میں آپس میں نیسلے کی چھوٹی بوتل ایک دوسرے کی طرف اچھال رہے تھے۔ جب میرے بیٹے نے بوتل اچھالی تو اکیڈمی راہداری جو مین گیٹ سے راہداری کیطرف ٹرن ہوتی ہے وہاں سے بچی آ رہی تھی اسے میرا بیٹا نہیں دیکھ پایا اور وہ نیسلے کی چھوٹی بوتل اسکے لگی۔ بوتل حادثاتی طور پر بچی کے لگی جسکا اقراربچی نے اپنے والد کے پوچھنے پر بھی کیا کہ کیا تمھیں بوتل اس نے جان بوجھ کر ماری ؟ تو بچی کا جواب تھا کہ نہیں اس نے جان بوجھ کر نہیں ماری تھی۔

خیر انکا (اکیڈمی والوں کا) کہنا تھا کہ بچی منہاج القرآن طاہر القادری صاحب کے اسسٹنٹ جواد صاحب کی بیٹی ہے اوروہ جاتے ہوئے کہہ گئی ہے کہ’’ میں ان کو دیکھ لوں گی‘‘ انکے ساتھ سکیورٹی گارڈز بھی آتے ہیں تو ممکن ہے کہ وہ بچے سے مارپیٹ کریں۔اسوقت میرا بڑا بیٹا اور میں گھر پر تھے۔ ہم یہ صورتحال دیکھ سن کر پریشان ہوئے اور فوری طور پر تینوں  اکیڈمی کیطرف روانہ ہو گئے۔

راستے میں میں نے اپنی بیگم کو سمجھایا کہ چاہے بوتل حادثاتی طور پر ہی لگی ہو مگر بچی کا معاملہ ہے اور بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں تم انکی والدہ اور والد سے معافی مانگ لینا اور میں خود اندر نہیں آؤنگا ۔ تم ماں ہو یہ لوگ عورت کا لحاظ کریں گے ،میں باہر گاڑی میں ہی بیٹھتا ہوں۔ گاڑی اکیڈمی کے سامنے رکی اور میں باہر ہی بیٹھا رہا ،مگر ابھی بیگم اور بڑے بیٹے کو گئے چند لمحے ہی ہوئے تھے کہ دو بڑے ڈالے اکیڈمی کے سامنے رکے اور تین لوگوں بچی ، بچی کے باپ ، بیٹے اور ماں کے علاوہ کم و بیش بارہ چودہ اسلحہ بردار تیزی (چھ کے قریب پنجاب پولیس کے اہلکار اور ساتھ آٹھ منہاج القرآن کے کالی وردیوں والے سکیورٹی اہلکار) سے اندر داخل ہوئے۔ انھیں اس جارحانہ انداز میں اندر جاتے دیکھ کر مجھے پریشانی ہوئی اور بے چینی میں   گاڑی لاک کر کے اندر چلا گیا۔

جب میں اندر پہنچا تو بیگم اور میرا بیٹا بچی، بچی کی والدہ اور والد سے معذرت کر رہے تھے۔ اتنے میں اس کا بھائی میرے بڑے بیٹے کو جو کہ اس سارے معاملے میں تھا ہی نہیں اسے کہنے لگا کہ تم کھڑے کیسے ہو۔ اس نے یہی کہا کہ میں نے کیا کہا ہے اور کھڑے ہونے پر کیا اعتراض ہے ہم معافی مانگ رہے ہیں۔ جسکے جواب میں اس نے کہا کہ ہم لڑنے آئے ہیں اور اس نے اپنے گارڈز اور پنجاب پولیس کے اہلکاروں کے ہمراہ مارنا شروع کر دیا۔

بچوں پر باؤلے کتوں کی طرح حملہ آور ہوئے ان لوگوں کو دیکھ کر میں نے ان کے بیچ آ کر دو تین کو پیچھے دھکیلا تو بچوں کی ماں (میری بیگم) جوایک استاد ہیں اور خود اسی اکیڈمی میں پارٹ ٹائم کلاسز لیتی ہیں بڑی مشکل سے چیختے چلاتے کہ میرے بچوں کو مت مارو کسی طرح دونوں بیٹوں کو دوسرے کمرے میں لیکربند ہوگئی (جسکا دروازہ لڑائی والی جگہ سے محض دو تین قدم پر تھا)۔اُس کے دروازہ اندر سے لاک کرنے کے باوجودمنہاج القرآن کا ایک سکیورٹی اہلکار دروازے کو ٹھڈے مارتا رہا کہ دروازہ ٹوٹ جائے۔ اور باقی تمام مجھ پر ٹوٹ پڑے۔ میں تھوڑی دیر اپنے دفاع کی کوشش کرتا رہا مگر وہ تعداد میں بہت زیادہ تھے ، ایک کی طرف توجہ دیتا تو کوئی دوسری طرف سے مار جاتا سو بچاؤ کی کوشش چھوڑ کر مارکھاتا رہا اور اخیر وہ اپنی تسلی کر کے چلے گئے۔ یہ بھی خدا کا شکر ہے کہ اپنے بیٹوں کے مشکل وقت میں انکے ساتھ تھا، بیچ میں آ کر خود مار نہ کھاتا تو پتہ نہیں وہ کیا کر جاتے۔

تھانہ وفاقی کالونی کی پولیس اس سارے واقعہ میں واضع طور جانبدار رہی۔ جب ہم تھانے پہنچے تو ہمیں بتایا گیا کہ تھوڑی  دیر انتظار کریں اور اسکے بعد پولیس والوں نے ہمیں اکیڈمی دکھانے کا کہا کہ ہمارے ساتھ چل کر اکیڈمی دکھائیں۔ میں نے انھیں بتایا کہ جب ہم تھانے آ رہے تھے تو اکیڈمی والے اکیڈمی بند کر چکے تھے وہاں جانے کا کوئی فائدہ نہیں مگر وہ بضد رہے کہ نہیں موقع  ویری فائی کرنا ہے۔ اس دوسران انکی چہ مگوئیوں سے مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ دوسری جانب رابطے میں ہیں۔ (انکی جانبداری کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک پولیس اہلکار میرے بڑے بیٹے کو سائڈ پر لیجا کر پوچھتا رہا کہ سچ بتاؤ یہ بازو پر کٹ تم نے خود لگایا ہے نا).

تھوڑی دیر بعد چند پولیس اہلکار تھانے میں داخل ہوئے تو بچوں نے پہچان لیا کہ یہ وہی ہیں جو اسوقت انکے (مارپیٹ کرنے والوں) کے ساتھ تھے۔ شاید اکیڈمی تک لیجانے کا مقصد بھی یہی تھا کہ تھوڑا مزید وقت ضائع کیا جا سکے۔ اتنے میں ایک پولیس اہلکار نے یہ بھی کہا کہ ڈی ایس پی صاحب خود آ رہے ہیں یہ انہی کے لیول کا کیس ہے اور انھوں نے کہا ہے کہ وہ خود آ کر معاملے کو دیکھیں گے۔ ڈی ایس پی صاحب آئے اور آ کر انھوں نے واقعہ کی تفصیلات پوچھیں ۔اسی اثنا میں مخالف پارٹی بچی کا والد ایک ساتھی کیساتھ تھانے پہنچ چکا تھا۔ ڈی ایس پی صاحب نے ہمیں سمجھایا کہ اگر آپ پرچہ کرواؤ گے تو وہ بھی پرچہ کٹوائیں گے اور بعد میں آپکو آپکے بچوں کا نام آن لائن ریکارڈ سے نکلوانا مشکل ہو جائے گا اورپھر آپکے بچوں کے لیے ملک سے باہر پڑھنے جانے کے لیے مشکلات پیدا ہونگی۔ بہتر ہے آپ صلح کر لیں۔ سو ہمارے پاس مار کھانے کے بعد صلح کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں چھوڑا گیا۔ ہمارا سات آٹھ گھنٹے پولیس سٹیشن میں بیٹھنا بیکار گیا۔

کیا ریاست ہے یہ جہاں جرم کا تحفظ آئین و دستور اور قانون کے محافظوں کی چھتری تلے ہوتا ہے؟ ہم تھانے میں انصاف لینے گئے تھے مگر ہمیں ہی ایک طرح سے وہاں بلیک میل ہونا پڑا۔ یہ کیا آئین ہے یہ کیا دستور ہے یہ کیسا انصاف ہے؟ اگر پولیس آپکے ساتھ ہے تو آپ جسے چاہیں مار پیٹ لیں اور بعد میں اپنی طرف سے ایک جھوٹی رپورٹ لکھوا کر پرچہ برابر کر لیں۔
تحریک انصاف کے وزیراعلی عثمان بزدار سے سوال
منہاج القرآن طاہر القادری کے اسسٹنٹ جواد کو کس کپیسٹی میں پنجاب پولیس کے چھ اہلکار دئیے گئے ہیں؟
سکیورٹی کے لیے دئیے گئے اہلکاروں نے میرے او لیول کے نہتے معصوم بچوں پر اکیڈمی کے اندر رائفلز کے بُلٹ کیسے، کس حیثیت میں اور کس قانون کے تحت مارے؟ کیا وہ اشہتاری یا دہشت گرد تھے؟
کیا ذاتی سکیورٹی کے لیے مہیا کیے گئے پنجاب پولیس کے اہلکاروں کی ذمہ داریوں میں ان لوگوں کے لیے بدمعاشی بھی شامل ہے؟
کیا ریاست نے انھیں سکیورٹی اہلکار انکی ذاتی لڑائیوں اور بدمعاشیوں کے لیے دیے رکھے ہیں؟
اکیڈمی کی رسیپشن پر بچوں کی چیختی چلاتی منتیں کرتی والدہ کے سامنے چھ عدد پنجاب پولیس کے اہلکاروں اورمنہاج القرآن کے سات آٹھ سکیورٹی اہلکاروں کی بچوں اور بچوں کے والد سے مارپیٹ کو کیا نام دیا جائے؟

یہاں ہمیشہ جنگل کے قانون کی مثال دی جاتی ہے مگر جنگل کا بھی کوئی قانون ہوتا ہے، وہاں بھی مظلوم کو علم ہوتا ہے کہ وہ خود ہی اپنی جان مال عزت کا تحفظ کر سکتا ہے ہم یہ کیسے مان لیں کہ پاکستان ایک ریاست ہے؟ میں چیف جسٹس آف پاکستان سے پوچھنا چاہتا ہوں کیا یہ ریاست ہے؟
وزیر اعظم عمران خان صاحب کیا تحریک انصاف منہاج القرآن والوں کی غنڈہ گردی کو اس لیے درگزر کر رہی ہے کہ عوامی تحریک نے دھرنوں میں انکا ساتھ دیا تھا؟
میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آرمی نیوی کی ایس ایس جی یونٹس کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں ایک فوجی کا بیٹا ، ایک ڈیکوریٹڈ ایس ایس جی نیول کمانڈر کا بھائی ہوں اور میری بیوی پاکستان آرمی کے ہیرو اور پاکستان ایس ایس جی یونٹ کے باپ برگیڈئیر ٹی ایم شہید کی حقیقی بھانجی ہے ۔اور پنجاب پولیس کی سرپرستی میں منہاج القرآن کے غنڈوں نے دن دیہاڑے پبلک مقام پر ہمارے ساتھ مار پیٹ کی تشدد کیا ۔ اور پنجاب پولیس اورمنہاج القرآن کے غنڈے ہمارے کسی حوالے کو خاطر میں نہیں لائے۔ مقدمہ درج کروانے گئے تو پولیس ہمیں ہی یکطرفہ  طور پر قائل کرنے اور پریشرائز کرنے کی کوشش کرتی رہی کہ آپکے بچے مشکل میں پڑ جائیں گے۔ کیا یہ انسانیت ہے، کہ یہ آئیں اور ہمارے ساتھ مارپیٹ کر کے تھانے میں ہمیں ہی پریشر ڈال کر صلح کروا لیں؟ اگر ان غنڈوں کی مدد کے لیے کرپٹ پولیس آتی ہے تو تم اپنے جانباز افسران کی مدد کو کیوں نہیں آتے؟ کیوں اس مولوی مافیا کی پاکستان میں بدمعاشی کو بیک کرتے ہو؟

Advertisements
julia rana solicitors

آخر میں ایک بات جو بہت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ میں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد یکطرف طور پر میاں شہباز شریف کی مخالفت اور طاہر القادری کی حمایت کی ۔ میں مقتولین کیساتھ آج بھی ہوں مگر منہاج القرآن کی حمایت پر شرمندہ اورمیں صاحبان سے معذرت خواہ ہوں۔ ادارہ منہاج القرآن کے غنڈوں اور پنجاب پولیس کی اپنے ساتھ کی گئی بدمعاشی دیکھنے کے بعد میں سمجھ سکتا ہوں کہ سانحہ کے دوران بھی کچھ نہ کچھ انکی طرف سے ضرور ہوا ہوگا۔ گولیاں انکی طرف سے بھی چلی ہونگی جو چودہ معصوم مارے گئے۔

Facebook Comments

عمار کاظمی
عمار کاظمی معروف صحافی اور بلاگر ہیں۔ آپ سماجی مسائل پر شعور و آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply