بیمار کا حال اچھا ہے(سفریاتِ جوگی)۔۔۔۔اویس قرنی/قسط3

کچھ دنوں سے محسوس ہو رہا تھا کہ جوتی پاؤں سے چھوٹی ہوتی جارہی ہے۔ چونکہ ہم مساوات کے قائل ہیں ، اس لیے فرض کر لیا کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا ، سب برابر ہیں۔ ہمارے فرض کرنے سے کیا فرق پڑنا تھا ، البتہ ایک دن اماں کی نظر میرے پاؤں پہ پڑ گئی۔ چونک کر فرمایا :۔ یہ تمہارے پاؤں اتنے سوجے ہوئے کیوں ہیں؟
ہمارا چونکنا بنتا تھا پس ہم بھی چونکے اورسوئے پیر نگاہِ تیز کی تو واقعی پیروں کو اچھا خاصا سوجا ہوا پایا۔ ہاتھ سے دبا کر دیکھا تو درد نام کو نہ تھا ، لیکن سوجن وافر پائی۔ جیسے پہاڑی شہد کی مکھیوں نے باجماعت ڈنگ افزائی کی ہو۔ عجب اسفنجی پلپلاہٹ تھی ، کہ ایک طرف سے دبائیں تو ساری سوجن شرافت سے پسپا ہو کر دوسری طرف جمع ہو جائے۔

اس سے پہلے کہ یہ سوجن بھی ہماری لاپرواہی کا شکار ہوتی ، اماں نے ہماری دکھتی رگ دبا دی ، فرمایا :۔ چیک اپ کروا لو ، کہیں شوگر کی مہربانی ہی نہ ہو۔ شیخ سعدی نے فرمایا تھا میں اس دنیا میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اس شخص سے ڈرتا ہوں جو اللہ سے نہ ڈرتا ہو۔ منکہ مسمی شیخ جوگی بھی اللہ سے ڈرتا ہے ، لیکن اس کے بعد شوگر سے ڈرتا ہے۔

لشتم پشتم ہم ایک ماہرِ امراض کے حضور حاضر ہوئے ، آنجناب نے چیک اپ نما ادکاری ، اور دو تین لمبی سی پُر سوچ “ہوں ں ں ں” کے بعد ہمارے گردوں کو قصور وار ٹھہرایا اور فرمایا آپ فلاں فلاں ٹیسٹ کروا کر رپورٹ سمیت دوبارہ حاضر ہوں۔ ہم فرمانبرداری سے لیب میں ٹیسٹ کرانے تو پہنچے ، لیکن ٹیسٹ شوگر کا کرایا۔ اور رپورٹ نارمل آنے پرشکر ادا کیا۔ چونکہ مومن ایک ہی سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جاسکتا ، لہذا ہم نے اس بار ایک اور سوراخ یعنی سیانا سا ماہرِ امراض منتخب کیا ، لیکن چیک اپ کا پہاڑ کھود کر انہوں نے بھی فلاں فلاں ٹیسٹ ہی کا چوہا نکالا۔

مومن نے ٹیسٹ سے بچنے کیلئے اس بار بھی سوراخ بدل لیا۔ اِس سوراخ کے نام کے ساتھ الٹی سیدھی اے بی سی پہلے والوں سے خاصی زیادہ درج تھی ، ڈاکٹر صاحب نے اداکاری کی بجائے واقعی چیک اپ کیا ، اور ٹامک ٹوئیاں مارنے کی بجائےبس ہماری دھڑکن شماری کی ، مقام ِدرد کا معائنہ کیااور پھر کسی پختہ کار اے ایس آئی کی طرح ہمارے اندر سے کھانسی برآمد کرنے پہ تُل گئے۔ ہم نے بہت صفائیاں دیں کہ کھانسی تو کیا الحمد للہ ہمیں کھنگ بھی نہیں ہے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کتابوں سے ماخوذ رٹے کی بنا پر پُر یقین تھے کہ ان علامات کے ساتھ کھانسی کا ہونا بدیہی امر ہے۔ عرض کی۔۔۔ ڈاکٹر صاحب اب صرف قسم کھانا باقی رہ گیا ہے ، اجازت   ہو تو وہ بھی کھا لوں شاید اسی طور آپ کی تسلی ہوسکے، کہ فعل حال میں تو کیا ماضی قریب میں بھی کھانسی سے ہمارے جائزکجا ناجائز تعلقات نہیں رہے۔صد شکر کہ وہ صرف ڈاکٹر ہی نہیں بھلے مانس بھی تھے ، اس لیے کھانسی کے متعلق مزید تفتیش سے باز آگئے۔

غالب نے فرمایا تھا ۔۔ جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا
ڈاکٹر صاحب بھی اسی طریق پہ عامل نکلے، ہمیں ایک پرچی پر LFT کا مشورہ دیتے ہوئے نام پوچھا اور نام سنتے ہی گویا ان کا چینل بدل گیا ، ڈاکٹری بھول کر مولوی بن بیٹھے اور مبلغ پونا گھنٹہ ہم سے اس مدعے پر بحث کرتے رہے کہ حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی تھے یا تابعی بزرگ تھے؟ ہمارا مناظرہ ابھی مزید طول پکڑتا ، لیکن باہر منتظر مریض اور ان کے عجلت پسند لواحقین اس علمی سرگرمی کے آڑے آئے۔ اور ہم ڈاکٹر صاحب کو “دوسری ملاقات میں سلسلہ مناظرہ یہیں سے جوڑیں گے” کا لارادتہ ، ہسپتال سے نکلے اورلیبارٹری جانے کی بجائے ایک کلو لیموں لے کر گھر لوٹ آئے۔

غالب کو جب ذوق کے ساتھ تولا گیا ، تو انہیں جتانا پڑا کہ

سو پشت سے ہے پیشہ آبا سپہ گری ،

کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے

ہمیں بھی جب یوں ہسپتالوں میں رولا گیا تو ہمیں یاد آیا کہ ہمارا بھی کم ازکم نو پشت سے ہے پیشہ آبا دوا گری ، کچھ ساحری ذریعہ عزت نہیں مجھے۔ جب اس نوجوانِ مسلم نے تدبر کیا تو اسے یاد آگیا کہ وہ کیا گردوں تھا جس کا میں اک ٹوٹا ہوا تارہ ہوں۔ کچھ بڑے بوڑھے جنہوں نے قبلہ پردادا حضور کا زمانہ دیکھا ہوا ہے اور ابھی زندہ ہیں۔ ان سے بارہا سنی گئی روایت کے مطابق ۔۔ ایک مریض لایا گیا ، پانی پی پی کر اس کا پیٹ پھٹنے کو آگیا لیکن اس کی پیاس تھی کہ بجھنے کا نام نہ لیتی تھی ، مصیبت صرف یہی نہ تھی ، بلکہ گاہے گاہے پیٹ میں شدید قسم کا درد اٹھتا تھا۔ قبلہ بڑے حکیم صاحب نے مریض کی آنکھیں دیکھیں ، نبض تھامی اور فرمایا وہ سامنے پیلو کے درخت سے اسے الٹالٹکا دیں۔ لواحقین چیں بہ جبیں تو ہوئے لیکن حکیم صاحب کی حذاقت پہ یقین تھا ، پس حکم کی تعمیل کی گئی ، الٹا لٹکنے سے مریض کے پیٹ میں بھرا ہوا پانی حلق کے رستے باہر کو نکل آیا اور اس کے درد میں تسلسل و اضافہ نوٹ کیا گیا۔ مریض پانی پانی چلاتا رہا ، لیکن حکیم صاحب نے فرمایا اسے پانی پلانے کی بجائے ، ایک کنالی (چھوٹا ٹب) پانی سے لبالب بھر کے عین مریض کے نیچے رکھ دیا جائے۔ پھر سب حاضرین نے دیکھا کہ کچھ ہی دیر میں مریض کے حلق سے کچھوے کے دو چھوٹے چھوٹے بچے نکلے اور نیچے پڑے پانی میں آگرے۔

اب انہی کے پڑپوتے کوسمجھ آگیا کہ برخوردار جگرنامرادآبادی نکھٹو ہوگیا ہے اور اپنے کام یعنی افزائشِ لہو سے انکاری ہے۔ تازہ خون کی پروڈکشن بند ہونے سے جسم میں خون کی کمی واقع ہوئی ہے اور اسی لیے سارا جسم مائل بہ سوجن ہے، (ناحق ہم اسے موٹاپا سمجھ کرنظرانداز کرتے رہے)

ایک تھرموس گرم پانی سے بھر کے پاس رکھ لیا، اور دن بھر ایک کپ گرم پانی میں ایک لیموں نچوڑ کر پی لیتے اور چھلکے چبا کر کھالیتے۔ اور ایک مشہور پودا مکو (جسے ہم سرائیکی میں کڑویلو کہتے ہیں) اس کو جڑ سمیت اکھاڑ کر ابالا اور اس میں چینی ڈال کر شربت سا بنا لیا۔ اب لیموں پانی کے ساتھ دن میں ایک بار یہ شربت بھی غٹک لیتے۔ پیروں اور جسم پر غالب آتی سوجن رک گئی اور پھر آہستہ آہستہ اس میں کمی آنے لگی ، اور ہم جو جسامت کے لحاظ سے نصرت فتح علی خان بنتے جا رہے تھے ، اس سے بچت ہو گئی۔ اور درد کی شدت میں بھی کمی اور وقفہ آنے لگا۔

لیکن اس پھٹیک میں وہ دسمبر جس کا وعدہ تھا ، گزرگیا ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

جوگی
اسد ہم وہ جنوں جولاں ، گدائے بے سروپا ہیں .....کہ ہے سر پنجہ مژگانِ آہو پشت خار اپنا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply