• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • قنون کا نفاذ کیا چہروں کے مطابق ہوتا ہے ؟۔۔سیّد عارف مصطفٰی

قنون کا نفاذ کیا چہروں کے مطابق ہوتا ہے ؟۔۔سیّد عارف مصطفٰی

یقیناً کہیں تو لازم تھا کہ ناجائز تعمیرات مسمار بھی کی جاتیں ۔۔۔ مگر ہر جگہ پھر بھی نہیں ، کیونکہ اگر کچھ ایسی جگہوں پہ تعمیرات ہوں کہ جو عوامی رستے میں نہیں آتیں اورجن کے توڑنے سے سینکڑوں یا ہزاروں افراد کا روزگار مارا جائے تو کوشش  یہ کی  جانی چاہیے کہ ریگولرائز کرنے کا آپشن استعمال کیا جائے ،جیسا کہ بنی گالہ میں عمران خان کی تعمیرات عدالت سے ناجائز ثابت ہوجانے کے باوجود عدالت ہی نے انہیں ریگولرائز کرانے کا موقع بھی دیدیا تھا، اور یہاں میرا عدلیہ سے استفسار یہ ہے کہ اگر حاکم وقت کو یہ موقع دیا گیا تھا تو الٰہ دین پارک پہ ہوئے کراچی آپریشن سے پہلے یہ موقع وہاں‌ کے دکانداروں کو کیوں نہیں دیا گیا ۔؟

سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ملک میں بیک وقت دو قوانین چل رہے ہیں اور کمزور کے لئے کوئی اور قانون ہے اور طاقتور کے لئے کوئی اور ؟

اس حوالے سے یہ سوال بھی ذہن میں ابھرتا ہے کہ کیا انصاف کی مد میں عدلیہ خود ہی یک سُو اور یک رائے نہیں یا اسکے نزدیک قانون کا اطلاق پوری شدت سے صرف انہی کے لئے لازم ہے کہ جو طاقتور نہیں ہیں ۔ ؟

مجھے یہ کہنے میں کوئی تردد ہرگز نہیں کہ بیان کردہ صورتحال کے تناظر میں ، میں سپریم کورٹ کے ‘سب توڑ دو’ قسم کے فیصلوں سے قطعی اتفاق نہیں کرتا کیونکہ اسکا نقصان اسکے ذمہ داروں کو نہیں بلکہ دیگر لوگوں کو ہورہا ہے ۔  الہ دین پارک معاملے میں کسی بڑے ذمہ دار افسر اور وزیر کو نہیں پکڑا گیا مگر دکانداروں کے چولہے آن کی آن  میں بجھا دیئے گئے ۔۔۔ یہ کیسا انصاف ہے ؟ ۔

سوال یہ ہے کہ صریحاً غلط تو بحریہ ٹاؤں میں بھی ہوا تھا اور ایسا کہ دنیا کی تاریخ میں اس طرح کی شرمناک قبضہ گردی اور دھاندلیوں کی نظیر نہیں ملتی ، لیکن وہاں تو ‘سب توڑدو’ کا فرمان جاری نہ ہوا کیونکہ سامنے ملک کا ایک بیحد مالدار اور طاقتور آدمی ملک ریاض تھا جس سے عدلیہ نے انصاف کے تقاضے پورے کرانے پہ ڈیل کو ترجیح دی اور دو ہزار ارب کی زمین پہ ناجائز تسلط محض 460 ارب روپے میں جائز ٹھہرادیا گیا اور یہ رقم بھی سات برسوں میں قسط وار ادا کی جانی ہے۔

واضح رہے کہ اس کیس کی ابتداء ہی میں جب سندھ حکومت سے پوچھا گیا تھا کہ یہ زمین کتنے میں ملک ریاض کو دی تو یہ پتا چلا تھا کہ اسے محض پونے پانچ ارب کی نہایت قلیل قیمت پہ بیچا گیا تھا۔۔ یعنی وہی زمین جس کے لئے 460 ارب دینے کا راضی نامہ ہوا وہ اس سے قریباً 90 گنا کم قیمت پہ ملک ریاض کو سونپ دی گئی تھی ۔  درحقیقت یہ تو زرداری ، سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کی مہیب کرپشن کے خلاف ایک کھلا اور مصدقہ ثبوت تھا اور ہے ، اور اس پہ تو نہایت تگڑا ریفرنس تیار کرنا بنتا ہے اور عدلیہ کو تو اس میگا کرپشن اسکینڈل پہ سندھ حکومت اور اسکی جماعت کے سربراہ زداری کو سیدھے سیدھے کٹہرے میں لاکے عبرت کا نشان بنادینا چاہیے تھا ۔ مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا اور عدالت میں صوبے کی زمین کوڑیوں‌کے مول بیچ ڈالنے کے کھلے ثبوت مل جانے کے بعد بھی زرداری اور اسکے ٹولے کا بال بھی بیکا نہ ہوا۔

لیکن یہاں کراچی میں قانون کا نفاذ آنکھیں بند کرکے کرڈالا گیا اور ایک عدالتی حکمنامے کے بل پہ مسماری اور انہدام کا عفریت پورے زور و شور سے ناچا اور قانون کے اندھے نفاذ نے پہلے ایمپریس مارکیٹ اور صدر اور پھر گجر نالے سے لے کر الٰہ دین پارک تک بہتیرے عام لوگوں کے مکانات اور کاروبار نگل لئے ،جو آج تک روزگار کے لئے سرگرداں ہیں مگر اس ساری بدعنوانی کے ذمہ دار کسی کرپٹ افسر اور وزیر کو تو اس توڑ پھوڑ سے کچھ بھی فرق نہیں پڑا، کیوں نہ کہ تو کسی کو جیل میں ٹھونسا گیا اور نہ ہی کسی کا مال و منال ضبط کیا گیا ۔۔بلکہ وہ آج بھی بڑے ٹھاٹ سے اپنی اپنی کرسیوں پہ براجمان ہیں ۔

ان دنوں میرے شہر کا چہرہ گرد آلود اور دل غبارِغم سے بوچھل  ہے، کیونکہ لے دے کے ایک عدلیہ ہی پُرسان حال معلوم ہوتی تھی سو وہ بھی اب انصاف چہرے اور طاقت کے مطابق کرتی دکھائی دینے لگی ہے ۔ مجھے معلوم ہے کہ اس بات سے کئی پیشانیوں پہ بڑے بڑے بل پڑگئے ہونگے ، لیکن مجھے تو پیشانیوں پہ پڑنے والے ان َبلوں سے کیا لینا میں تو ان َبلوں کو جانتا ہوں کہ جو لوگوں کے پیٹ میں ہنستے ہنستے اس وقت پڑ جاتے ہیں‌کہ جب کوئی یہ کہتا ہے کہ وطن عزیز میں قانون سب کے لیئے یکساں ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

واقعی ایسا ہوتا تو کیا آج سندھ کی ہزاروں ایکڑ اراضی پونے پانچ ارب میں بیچ ڈالنے والا زرداری اور انہیں خریدنے والا اسکا پارٹنرملک ریاض یوں آزاد گھوم پھر رہے ہوتے ؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply