بھان متی کے کنبے کی کہانی۔۔۔روف کلاسرا

ویسے اسلام آباد ہے مزے کا شہر۔ یہاں کیا کیا سیاسی سازشیں تخلیق ہوتی ہیں۔ کیسے کیسے پلان بنتے ہیں اور پھر انہیں پورا کرنے کے لیے کیسے کیسے دائو پیچ لڑائے جاتے ہیں

Advertisements
julia rana solicitors

مارچ سے نومبر تک کا وقت بہت اہم ہوتا ہے کیونکہ اس دوران نئے آرمی چیف کے لیے لابنگ شروع ہو جاتی ہے۔ مجھے دو واقعات یاد ہیں۔ ایک دفعہ چوہدری نثار علی خان نے بتایا کہ جب جنرل جہانگیر کرامت کے استعفیٰ کے بعد نواز شریف نیا آرمی چیف ڈھونڈ رہے تھے تو ایک سیکریٹ ایجنسی سے متوقع جرنیلوں کی فائلیں وزیر اعظم ہائوس بھجوائی گئیں۔ پہلی دفعہ نواز شریف اور چوہدری نثار کو پتہ چلا کہ ایجنسیاں اپنے فوجی جرنیلوں کی بھی فائلیں رکھتی ہیں۔
چھ سال پہلے کی بات ہے ‘ جب نیا آرمی چیف لگ رہا تھا تو مجھے اور ارشد شریف کو دو مختلف لابیوں کی طرف سے آرمی چیف بننے کے دو امیدواروں کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف فائلیں بھجوائی گئی تھیں۔ ہم دونوں نے معذرت کر لی تھی کہ جناب ہم بہت چھوٹے لوگ ہیں۔ اس اہم کھیل میں شریک نہیں ہو سکتے۔ مزے کی بات ہے وہ دونوں آرمی چیف نہ بن سکے تھے۔ ان کا جونیئر وہ پوسٹ لے گیا تھا۔ وہ ایک دوسرے کے خلاف لابنگ کرانے میں مصروف رہے۔
لابیاں صرف اس ایک حوالے سے ہی ایکٹو نہیں ہوتیں بلکہ حکومت میں کسی کو وزیر بنوانا ہو تو بھی بہت سارے کام کیے جاتے ہیں۔ ابھی ایک اہم وزیر کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ وہ ایک خاتون کو غربت کی نئی وزارت کے حوالے سے عمران خان کا مشیر لگوانا چاہتے ہیں‘ لہٰذا احساس پروگرام کی کہانی بنائی گئی ہے۔
اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں تحریک انصاف کے پرانے ورکرز‘ جن میں خواتین بھی شامل تھیں، وزیراعظم کے احساس پروگرام کی تقریب کے بعد اکٹھے بیٹھے تھے۔ خواتین حیران ہو رہی تھیں کہ کیسے ایک اہم وفاقی وزیر نے ثانیہ نشتر کو وزارت دلوانے کے لیے یہ سب پروگرام شروع کرایا تھا۔ ان خواتین کو لگتا ہے کہ جب وہ سڑکوں پر مار کھا رہی تھیں تو یہ سب بیگمات مزے سے گھر بیٹھی وقت کا انتظار کر رہی تھیں۔ اب وہ اچانک وزارت کی دعویدار بن گئی ہیں۔
ذرائع بتاتے ہیں‘ حکومت کے اندر بہت سارے وزرا ایک دوسرے سے دست و گربیان ہیں۔ ایک طرف وہ وزیر ہیں جو ایم این اے بن کر آئے ہیں۔ دوسری طرف وہ ہیں جو بغیر الیکشن لڑے کابینہ میں دھڑلے سے بیٹھے ہیں کیونکہ وہ عمران خان کے یار ہیں۔ ان وزیروں کے گروپس نے پھر آگے سے بیوروکریٹس کو بھی ساتھ ملایا ہوا ہے۔ یوں کابینہ بھان متی کا کنبہ بنی ہوئی ہے۔ سرائیکی علاقوں سے آئی ایک خاتون وزیر کی لڑائی اپنی وزارت کے مشیر سے چل رہی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ مشیر نے پارلیمنٹ میں دفتر سے اس خاتون کے نیم پلیٹ اتار کر پھینک دی تھی۔ وزارت ہائوسنگ میں بھی یہی حال ہے جہاں بڑے اور چھوٹے کے درمیان لڑائی جاری ہے۔ پی ٹی وی کے ایم ڈی کے معاملے پر ہم نے دیکھ لیا کہ کیسے دال جوتوں میں بٹ رہی ہے۔ ایک طرف فواد چوہدری ہیں تو دوسری طرف نعیم الحق نے اکیلے محاذ سنبھالا ہوا ہے۔
عمران خان بے پروا‘ مزے سے یہ لڑائیاں انجوائے کر رہے ہیں۔ عمران خان کے دفتر میں بیوروکریٹس کی آپس میں لڑائیاں جاری ہیں۔ سب اختیارات چاہتے ہیں۔ وزیر ناراض ہیں کہ انہیں لمبا ہاتھ مارنے کا موقع نہیں مل رہا۔ ان وزیروں کو وہی لوگ یاد آ رہے ہیں‘ جو کھاتے تھے تو لگاتے بھی تھے۔ وزارتوں میں چائے پانی تک کا خرچہ نہیں مل رہا‘ لہٰذا وہ بھی اکتائے اکتائے رہنے لگے ہیں۔ اہم وزارتیں ان لوگوں کو دی گئیں جو کھلے عام ٹی وی پر کہتے ہیں کہ وہ ابھی سیکھ رہے ہیں۔ شیخ رشید پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ انہیں محلے کے مولوی سے بات کرکے جہاد پر جانے کی اجازت دی جائے۔ شاید ریلوے سے ان کا دل بھر چکا۔
اس سارے بحران میں خبر یہ ہے کہ عمران خان اس وقت چوہدریوں کے برخوردار مونس الٰہی کو وزیر بنانے پر راضی نہیں ہو رہے۔ عمران خان پہلے بھی تنقید کا سامنا کرتے ہیں ان کی کابینہ کے کچھ وزیروں کے سکینڈلز ہیں‘ جن کے خلاف وہ نعرے لگاتے تھے انہیں دوبارہ اقتدار میں لے آئے ہیں۔ جنہیں پنجاب کا ڈاکو کہا جاتا تھا ان کے حوالے ہی پنجاب کر دیا گیا ہے۔ اب اگر وہ اس تنقید کے درمیان نیب زدہ مونس الٰہی کو وزیر بناتے تو یقینا ردعمل آتا۔ ویسے کسی دن اگر کسی نے وہ خفیہ رپورٹ نکال دی جو کچھ دن پہلے سپریم کورٹ میں پیش کی گئی ہے کہ کیسے مونس الٰہی کو ایک بڑے سکینڈل سے بچایا گیا تھا تو شاید چوہدریوں کو وزارت بھول جائے!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply