لیکن ہار مقدر تھی۔۔۔رابعہ احسن

وقتی اور لمحاتی کیفیتوں کا خمار چند لمحوں کیلئے خود سے پرے کرتا ہے تو محسوس ہوتا ہےاس سے زیادہ سکون اور کہاں ہوگا مگر یہ کیساسکون ہے جس کا وجود مجھ میں سرائیت کرکےتکمیل ہی نہیں کر پاتا ۔ تشنگی کتنی بھیانک ہوتی ہے اس کا ادراک اسی وقت ہوتا ہے جب آشتی کےدریا میں غوطے کھاتے ہوئے وجود اچانک ریت پرپھینک دیا جائے۔ باقی سب جو بھی ہے اس کی واقعتاً کوئی حقیقت نہیں۔ کوئی بھی نہیں

“باہر برفانی طوفان ہے اور تمھاری حالت ایسی نہیں کہ تمھیں اس وقت ڈرائیو کرنا چاہئے۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہےپلیز تم باہر نہیں نکلنا مجھے لگ رہا ہے کوئی ساحر سے دشمنی نکال رہا ہے تمھیں بھڑکا کے”

دوسری طرف خاموشی تھی۔ بھیانک خاموشی۔ میرا دل لرز رہا تھا جو اس نے مجھے بتایا تھا تھوڑی دیر تک تو مجھے لگا واقعی میں شل ہوگئی ہوں ۔ “ تم نے سننے میں غلطی کی ہوگی کوئی سپیم کال ہوگی۔ ہے نا کوئی رانگ نمبر تھا نا “ اس طرف میں چلائے جارہی تھی اور دوسری طرف کوئی تھا ہی نہیں شاید ۔

اس نے بمشکل خود کو سنبھالا اور بچوں کو گھر میں لاک کرکے جلدی سے باہر بھاگی جیسے ایک لمحہ بھی ضائع کیا تو ساری زندگی لٹ جائے گی کچھ بھی نہیں بچے گا خون کی اتنی کمی تھی کہ اس سے صبح سے اٹھا بھی نہیں جارہا تھا بچے بھوکے بیٹھے تھے ہلکے پھلکے بسکٹ ان کے آگے رکھ کر وہ خود کو بستر میں پھینک چکی تھی” ویسے تین بچوں کے بعد بھی اتنی جلدی کیا تھی تھوڑا بعد میں بھی ہوسکتا تھا” خون کی شدید کمی کے باوجود چوتھی بار پھر وہ امید سے تھی پہلے ہی کوئی اس کو ، گھر یا بچوں کو دیکھنے والا نہیں تھا اور پھراس نے گھر بھی اتنا دور لے لیا تھا کہ کوئی وہاں پہنچ بھی نہیں سکتا تھا” ساحر کہتا ہے ہماری بڑی ساری فیملی ہونی چاہئے گھر میں خوب رونق ہونی چاہئے” وہ پھر بھی خوش تھی “ تو یہ رونق انجوائے کرنے کیلئے وہ خود تو کبھی گھر پہ نظر نہیں آتا جب دیکھو غائب ۔ ہوتا کدھر ہے” اس کے گھر کا پروگرام اتنی مشکل سے بنتا تھا پھر اسے شہر سے کچھ نہ کچھ چاہیے ہوتا تھا اداسی اور تنہائی سے بھری بڑی بڑی آنکھیں جانے کیا شکایت کرتی تھیں مگر وہ بات کا رخ بدل کے صابرو شاکر ہونے کی ناکام کوشش کرتی رہی”یار بزنس سیٹ ہوگا تو میرا اور میرے بچوں کا ہی مستقبل محفوظ ہوگا ویسے بھی شہر سے اتنا دور اسی لئے تو آئے ہیں نا سب چھوڑ چھاڑ کے ساری رونقیں تیاگ کے” بات کہتے کہتے وہ بری  طرح روہانسی ہوجاتی۔

پتہ نہیں مجھے کیوں لگ رہا تھا وہ کچھ کہناچاہتی ہے پرکہہ نہیں پارہی ۔ “تمھارا وہم ہے سب ٹھیک ہے” ہم جب سے یہاں تھے اکٹھے تھے بلکہ پاکستان سے بھی اک دوسرے کو جانتے تھے۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں کسی ایرانی شہزادی کی کہانی جیسی حسین تھیں۔۔

اس کی طبیعت بگڑتی جاری تھی اور ساحر کی مصروفیت بڑھتی جارہی تھی ۔ مصروفیت تھی کیا یہ سمجھ نہیں آرہی تھی۔

“اس نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا” یہ چند الفاظ جو میں سن پائی اس کے بعد جو جو اس نے بولا مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ سب واقعی حقیقت ہے ، کوئی شک، بھیانک مذاق یا ڈراؤنا خواب ۔کان سے فوب لگائے میں کس کرب  سے گزررہی تھی اور اس سے بڑھ کر  یہ خیال  کہ وہ کس کرب سے گزررہی تھی۔ “ تمھیں کیسے پتہ کہ یہ وہی ہے”

میرے کینیڈا پہنچنے کی دیر تھی کہ اس نے فرمائشیں کر کر کے شاید دوسرے ہی دن اپنے گھر بلالیا۔ دیار غیر میں یوں بنی بنائی اک دوست مل جانا ویسے ہی غنیمت تھا ایک بیڈروم کا چھوٹا سا اپارٹمنٹ روم سے لے سٹنگ تک اس کی برائیڈل پکچرز سے بھرا پڑا تھا اور وہ اتنی خوش خوش مجھے اپنے تین ہفتوں کی گزارشات سنارہی تھی کیونکہ میں اس کی آمد کے عین تین ہفتے بعد پہنچ گئی تھی۔ اور ابھی میرا ہر قسم کا جیٹ لیگ چل رہاتھا کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی ۔ پڑھائی ، جاب، پڑھائی ، شادی کے درمیان کچھ سمجھ ہی نہ آیا کہ تھوڑی بہت گھر داری بھی سیکھ لی جاتی مگر بھلا ہو میری امی کا خود تو خوب صلوتیں سناتی تھیں مگر جب جل بھن کے کوئی کزن بول دیتا پھپھو اس سے بھی گھر کا کوئی کام کروالیا کریں تو امی ہمیشہ یہی بولتیں “ساری عمر کام ہی کرنا ہے ماں باپ کے گھر تو عیش کرے” حالانکہ اس عیش کے بعد مجھے ڈھیر روٹیوں کا بنانا پڑتا تھا کہ ماشاءاللہ ہر وقت کوئی نہ کوئی آیا گیا رہتا تھا اور اب خیال آتا ہے کہ مائیں سب جانتی ہیں نا کہ بیٹیوں کی تقدیر کیسی ہوگی۔۔۔ خیر۔۔ بات پھر وہی کہ وقت کا کام گزرنا ہے سو گزرتا جاتا ہے ۔۔ لیکن اکثر ٹھہر بھی جاتا ہے اندر کی بے کلی ختم ہی نہیں ہوتی نہ بوڑھی ہوتی ہے ۔ شاید یہ تشنگی ہی وہ پہلو جس کی عمر نہیں  گزرتی ۔ یہ ہمارے اندر پڑا کسی ضدی بچے کی طرح مچلتا رہتا ہے اور ہم اسے کھلونوں سے بہلانے کی کوششوں میں عمر گزار دیتے ہیں ۔ شاید اسی لئے ایک بزرگ آدمی نے مجھے کہا کہ اسے اک جوان لڑکی بہت اچھی لگتی ہے جتنا غصہ اس وقت مجھے آیا اور جتنی گھن آئی اس شخص سے وہ ناقابل بیان ہے لیکن پھر اک خیال نے سارے غصے کو ٹھنڈا کردیا۔

گرم سرد موسم ، لاہور کی محبتوں اور وسعتوں سے بھرپور ہم دونوں نے شاید یکدم بڑھاپے میں قدم رکھ دیا۔۔ پتہ نہیں کیوں۔۔اس میں بھی لاہور کے پانی کا ہی کوئی مسئلہ ہوگا یاپھر لاہور کی وسعتوں کا جو کہیں اور نہیں ۔ رقبے کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے سب سے بڑے ملک میں بھی نہیں

اور

یہ جو لاہور سے محبت ہے

بحث شاید یہ تھی کہ مرد کچھ بھی کرسکتا ہے اور میں اسے سمجھارہی تھی کہ نہیں ایسا بھی نہیں ہے آخر گھر میں اگر اتنی خوبصورت ، سلیقہ شعار بیوی ہو تو کوئی باہر کیوں دیکھے گا اور وہ پھر اسی بات پہ مصر تھی کہ “میری جان! تو بہت معصوم ہے تجھے پتہ نہیں یہ مرد کیا کیا کرتے ہیں اور کیا کرسکتے ہیں سو کسی مرد کا کوئی اعتبار نہیں خصوصاً شوہر کا تو بالکل نہیں “

اور میں شوہروں کی معصومیت پر ایک لمبا چوڑا لیکچردیتے دیتے چپ ہی ہوگئی کیونکہ وہ میری اس بحث سے شاید تنگ آگئی تھی یا اس کے اندر پکتا ہوا لاوا باہر نکلنے کو بیتاب تھا ۔ کتنا پک چکا تھا سب۔ اس کی شکایتوں سے بھری آنکھیں اور ایک حسین ترین چہرہ خزاں کے روندے ہوئے پتوں کی طرح انتہائی پژمردہ ہوگیا۔ خودکار خیالات پہ مبنی میرا تفصیلی لیکچر کسی نالی میں گر کر مجھے منہ چڑا رہا تھا کہ پٹی صرف تمھاری آنکھوں پہ نہیں لگی ہوئی بلکہ ایک گرہ ہے جو تمھارے دماغ میں بھی لگی ہوئی ہے۔خوش گمانی ایک بہت بڑی نعمت ہے مذہب بھی اس کی ترویج کرتا ہے مگر جس تعفن زدہ معاشرے میں ہم رہتے ہیں جہاں لوگ ایک چہرے کے نیچے کوئی ڈیڑھ سو گدھ دبائے بیٹھے ہوتے ہیں ۔مطلب پرستی کے وجود میں لپٹی مردہ انسانیت کسی کا بھلا سوچ ہی نہیں سکتی ۔ اتنی عمر ہوگئی لوگوں کے اصلی روپ سامنے آتے رہے لیکن نوع انسانی کی مجبوری کہ آنکھیں بند کرنی پڑتی ہیں بہت سے رشتوں کی بقا کیلئے ۔۔

بعض لمحے صرف آگہی کے ہوتے ہیں میں اس ملک میں اپنی سب سے پہلی دوست کے ساتھ رونما ہونے والے سانحے کے زیر اثر تھی میرے ہاتھ شل ، زبان گنگ اور کانوں سے واقعتاًُ دھواں نکل رہا تھا میں اسے سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی کہ ساحر ایسا کیسے ہوسکتا ہے اور حقیقتاً میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں دوبارہ کبھی اس شخص کا چہرہ بھی نہ دیکھوں اس وقت میری تمام تر ہمدردیاں، محبتیں اور آنسو اپنی دوست کے ساتھ تھےمیرا دل زور زور سے دھک دھک کر رہا تھا اتنی زور سے کہ پورے کمرے میں صرف اس کی آواز تھی اور مجھے کچھ اور سنائی ہی نہیں پڑرہا تھا

“پر تم وہاں پہنچیں کیسے؟ تمھیں بتایا کس نے آخر ؟؟

دس منٹس میں پورے گھر کی گراسری کرکے ، بلنگ کراکے، ٹرالی میں ڈال کے پھر گاڑی میں رکھا، گاڑی سٹارٹ کرکے ٹائم دیکھا تو پورے تین منٹس ایکسٹرا لگ گئے۔ افسوس کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ پچھلے دنوں اک دوست نے بتایا کہ وہ بچوں کے سکول کے باہر 1:30 پہ گاڑی پارک کردیتی ہے وہ بھی -35 کے دنوں میں جبکہ چھٹی 3:30 پہ ہوتی ہے ۔ مجھے لگتا ہے مجھے ہی کوئی سائیکلاجیکل ایشو ہوگیا ہے ہر منٹ قیمتی لگتا ۔۔ اف۔۔دنیا زندگی انجوائے کررہی ہے اور میں گھڑی کی سوئیوں پہ فوکس ہوں بس۔ اک منٹ بھی ضائع نہ ہونے پائے اور اس بھاگم دوڑ میں جو اتنے سال پیچھے ہوتے جارہے ہیں مجھے ہوش ہی نہیں آرہا شاید یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ میں یہی چاہتی ہوں کہ وقت پر لگا کے اڑے اور کبھی میرے پاس منہ اٹھا کے کھڑا ہوا یہ نہ پوچھے اب میرا کیا کروگی

“مجھے اس نے خود کال کی تھی” اس کی آنکھوں کے ساتھ آواز  بھی ڈبڈبا گئی “کس نے” پتہ نہیں کیا انکشاف کرے گی یہ لڑکی “ وہ ایک فلیپینو لڑکی تھی اس کے ایکسنٹ سے صاف پتہ چل رہا تھا ۔ بچے بہت تنگ کررہے تھے اوپر سے میری طبیعت بھی شدید خراب تھی اسی چیخ و پکار میں اس کی آواز” آواز رندھ چکی تھی

ساحر شادی سے دس سال پہلے کینیڈا آیا تھا وہ عمر جو کمانے کے ساتھ ساتھ دل لگانے کی بھی تھی اور پھر دل لگ گیا۔ محبت تو کہیں بھی کسی سے بھی ہوسکتی ہے یہ صورتیں اور نیشنلٹی کب دیکھتی ہے اور پھر اکثر تو مذہب بھی نہیں دیکھتی۔ اور اس افئیر کے دس سال تک وہ اپنے گھر والوں کو اس لڑکی سے شادی کیلئے منا نہیں پایا بلکہ الٹا گھر والوں کی پسند سے زبردستی شادی کر لی “ پتہ نہیں ، اس کے دل میں کیا ہے اسے میں اچھی ہی نہیں لگتی “ اور میں اپنی اتنی خوبصورت دوست کی تکلیف دیکھ کے تڑپ جاتی “تم اتنی پیاری ہو ۔ پہلی نظر میں تو ماڈل ہی لگتی ہو “ پر یہ جو دلوں میں کوئی اور بس جاتے ہیں اور میں اکثر سوچتی تھی کہ پھر ایسے لوگ شادی کسی اور سے کیوں کرتے ہیں ۔۔ کتنے برس تو مجھے یہ ہی سمجھ نہ آئی کہ لوگ شادی ہی کیوں کرتے ہیں ۔ میں ایم اے انگریزی پاس ۔ بولڈنیس سے ہمارا سلیبس شروع ہوتا تھا اور انسانی سوچ، روئے ، سائیکالوجی ، سماجیات اور جسمانیات کونسا پہلو تھا جسے ہم نے پڑھا نہیں تھا۔ سینٹرل سپیرئر سروسز کے خواب آنکھوں میں سجائے ۔۔ یہ تک نہیں پتہ کہ لوگ شادی کرتے کیوں ہیں۔۔

“ماں نے زبردستی شادی کرادی تھی اس کی اگر یہاں کی لڑکی سے کرتا تو پھر اتنے بڑے کنبے کے اخراجات کون اٹھاتا” اور میں اپنی لایعنی سوچوں سے ایکدم باہر آگئی “اور شادی کے بعد۔ محبت کا کیا بنا “؟ “قائم رہی” میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں

موسم ٹھیک ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا اکثر لوگ ایسے موسم میں ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں“مجھے بہت ڈپریشن ہوتاہے” “تم تو پانچ ٹائم نمازبھی پڑھتی ہو” “میرے دل کو سکون نہیں آتا۔ ہماپنے ماں باپ، بہن بھائی اپنا دیس چھوڑ کے کس لئے آتے ہیں میرا دل تڑپتا ہے میں نے کیا پایا ایک ایساشخص جو میرے ساتھ رہتا ہے ایک چھت کے نیچےاجنبیوں کی طرح “وہ روپڑتی اور میں اس کی باتوں پہ اکثر یقین نہیں کررہی تھی سوچتی تھی کہ یہ بہت ڈیمانڈنگ ہے شاید ۔ ساحر بہت اچھا انسان ہے ہر آسائش بھی  مہیا کی ہوئی ہے ۔ بات چیت کرنے میں بھی اچھا ہے فن لونگ ہے ۔۔ پر ۔۔ اس کے ساتھ۔۔ “آج تک اس شخص نے کبھی میری تعریف نہیں کی حالانکہ میں دن رات اس کیلئے ایک کر کے رکھتی ہوں مگر نہ یہ دن میں میری جانب دیکھ پاتا ہے نہ رات میں “ “یار وہ تو اچھا خاصا خوش مزاج لگتا ہے” “ ہاں جی بس دوسروں کے ساتھ”

اور وہ قیامت پتہ نہیں کیسے سہی ہوگی دو عورتوں نے ۔ ہاں دو عورتیں ۔ ایک بیوی اور دوسری محبوبہ۔ ایک کے ساتھ قانونی رشتہ اور دوسری کے ساتھ دل کا رشتہ ۔ نہ ایک خوش نہ دوسری ہی خوش رکھی گئی ۔ “اس نے خود فون کرکے کہا تھا کہ تمھارا شوہر میرے پاس ہے میں نے اس سے انتقام لینے کیلئے تمھیں بتایا ہے تاکہ مجھے چھوڑ کے یہ کسی اور کی زندگی برباد کرنے نہ بیٹھ جائے ۔ یہ شخص پچھلے پندرہ سال سے میری محبت کا دم بھر رہا ہے ۔ میرے دل اور جسم دونوں سے مستفید ہورہا ہے مگر مجھ سے شادی نہیں کرسکتا۔ یہ کہتا ہے کہ اسے میرے جسم کی اتنی عادت ہے کہ اسے اپنی خوبصورت بیوی تک میں کوئی دلچسپی نہیں۔ مگر یہ مجھے جسم سے آگے بڑھنے نہیں دے رہا ۔ میں بھی تمھاری طرح ایک مکمل عورت بننا چاہتی ہوں” وہ بولتی جارہی تھی اور وہ ایک ہاتھ اپنی کمر پہ رکھ کے بمشکل خود کو کھڑا رکھے ہوئے تھی اپنے مکمل ہونے کا مان آج کس طرح سے کرچی کرچی ٹوٹا تھا لگتا تھا وقت سے پہلے ہی ڈلیوری کیلئے اسے ہسپتال جانا پڑجائے گا۔۔

پندرہ سال کی والہانہ محبت ہار کے  اس نے ایک بیوی کے ہاتھوں میں تھمادی اور بیوی ۔۔۔ “وہ کہتا ہے اسے میرے جسم میں کوئی دلچسپی نہیں ہے” پانچ بچے بھی ہوگئے۔۔۔

میرا سر چکرا رہا تھا میں نے سوچا تھا میں دوبارہ ساحر کو کبھی نہیں دیکھوں گی بھلے ہی ہم دونوں خاندانوں کی آپس میں دوستی تھی ۔ میں بہت تکلیف میں آگئی تھی ۔ مجھے اس بات کا بھی ہوش نہیں تھا کہ میری دوست اس قیامت سے کیسے گزری۔ وہ بھی اس حالت میں ۔۔

میں نے دوست کی ہمت کی داد دی کہ اتنے بڑے سانحے سے گزر کر بھی اس شخص کے ساتھ رہ رہی ہے کوئی اور ہوتی تو کب کا چھوڑ کے چلی جاتی مگر میری پیاری دوست نے اپنے ہر قسم کے جذبات کی قربانی دے دی

“مجھے نہیں معلوم تمھیں اتنی بیماریاں کہاں سے لگ رہی ہیں اپنا خیال رکھو۔ مت محسوس کیا کرو دنیا کوبلکہ گولی مارو دنیا کو۔ “اسے بہت سے فزیکل ایشوز ہونا شروع ہوگئے تھے ۔۔۔۔ اندر کی آگ سلگ رہی تھی جلنا تو تھا نا سب۔۔۔۔

اور ایک دن یونہی جھڑے پتے رولتے خیال آیا کہ جیسا آدھا ادھورا بھی تھا یہ شخص اپنی بیوی کے پاس تھا میری دوست کے پاس۔ اس کے بچے ، اس کا گھر۔۔ سب اس کا۔ اللہ رکھے

پر وہ پندرہ سالہ والہانہ محبت ۔۔۔ اب سوچتی ہوں کہ لوگ محبت کرتے کیوں ہیں ۔ دوسروں کی زندگیاں برباد کرنے کیلئے۔ یا پھر ان کے جسموں کو گھن لگانے کیلئے ۔ ایک عورت کو تم نے پندرہ سال جسم سے آگے بڑھنے نہیں دیا ۔ تمھارا سب تمھارے بیوی بچوں کا۔ اس کا کیا۔ میری دوست کے پاس ایک شوہر کا نام ہے ۔ اس کے پاس تو نام بھی نہیں جس نے اپنے سالہا سال محبت کے نام پہ وار دیے ۔

وائے محبت! کیا ملا۔ چار دن بیوی ناراض ہوئی پھر سیٹ ہوگئی ۔ تمھارا ہنستا بستا گھر بستا رہا ۔ اور وہ ۔۔۔جس کے دل میں تم بس رہے تھے ۔ جس نے تمھاری راتوں کو قرار دیا اور دن کو تمھارے سپنے اپنی جاگتی آنکھوں پر سجائے ۔ تم نے اسے کیا دیا بس یہ مان ۔۔کہ تم اس کے بنا نہیں رہ سکتے اور پھر ۔۔۔یہ مان بھی پورا نہ کر پائے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میرا سر درد نہیں ختم ہورہا تھا ۔ مجھے پتہ تھا یہ سٹریس ہے مگر میں اس سٹریس کا کیا کروں جو دوسروں کی تکلیف دیکھ کے بھی مجھے کچوکے لگاتا ہے ۔۔۔۔ اور میری اپنی تکلیفیں۔۔۔۔۔ مجھے کتنا توڑتی ہوں گی جب میں انھیں زباں تک لا بھی نہیں سکتی ۔ میں نے رب سے ہمیشہ بڑے مان سے مانگا ۔۔۔ اور اس نے مجھے دیابھی اتنے ہی مان سے ۔۔۔۔ اور پھر میں نے اسے دوسروں کے ہاتھوں میں تھمادیا ۔۔۔۔ میری ہتھیلیاں خالی۔۔۔۔۔۔ پر میں نے کبھی ان پر خواب نہیں سجائے ۔۔۔۔۔۔۔ یہ خوابوں کا خراج بہت مہنگا پڑتا ہے ۔۔۔ نہ آنکھیں رہتی ہیں نہ خواب۔۔۔۔ بس آنکھوں کے رستے خدا کا خوف بہتا ہے ۔۔۔۔۔ کہ مجھ سے کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہوجائے۔

Facebook Comments

رابعہ احسن
لکھے بنارہا نہیں جاتا سو لکھتی ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply