فیدل کاسترو، “ان سب” کے حقائق کی روشنی میں

کچھ وقت سے میں دیکھ رہا تھا کہ ایک میگزین ہے جو اشتراکیت دشمنی میں صفِ اول پہ ہے اور ان کا مضامین کو شائع کرنے کا پیمانہ ہی یہ ہے کہ جس قدر زیادہ مضمون سوشلزم مخالفت پہ مبنی ہوگا اتنا ہی زیادہ اس کے چھپنے کے امکانات زیادہ ہوں گے۔ کچھ دنوں پہلے ایک لغویات اور بے سروپا باتوں پہ مبنی تحریر نگاہ سے گزری، میں نے تحریر کو پڑھا تو ہنسی چھوٹ گئی۔ مصنف کا مرکزی خیال یہ تھا کہ کاسترو دودھ کا دھلا نہیں تھا بلکہ وہ بھی سامراج کا درپردہ حمایتی اور سرمایہ داری کا حامی تھا اور بقول ان کے کاسترو منافق بھی تھا، جو خود کو لادین بھی کہتا ہے اور پوپ کو دعوت بھی اپنے ملک میں آنے کی دیتا ہے۔ وہ شاید اس کی مسجد کی تعمیر کے بارے میں لاعلم تھے جو طیب اردگان نے کیوبا میں بنوائی ہے. اس کے بعد راول کاسترو کی صدارت کا قضیہ چھیڑا گیا کہ وہ خاندانیت پہ مبنی حکومت ہے. پھر ایک اور “کمال” قسم کی بات کی کہ کاسترو اپنی زندگی میں پینتیس ہزار خواتین کے ساتھ معاشقے یا جسمانی روابط قائم کرچکا ہے؛ فوربس کی ایک پرانی تحریر کا بھی حوالہ دیا گیا. پھر کامریڈ سٹآلن کا بھی ذکر آیا کہ ان کی بیٹی ملک چھوڑ کر چلی گئی اور ویسے ہی کاسترو کی صاحبزادی جو اپنے والد کے نظریے سے اتفاق نہیں رکھتی تھی ملک چھوڑ کر امریکہ چلی گئی.
تو میں پہلے حوالہ جات کے ساتھ جواب دینا زیادہ بہتر سمجھوں گا اور جہاں تک ہو سکا منطقی بنیادوں پہ ان الزامات کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کروں گا.

زیادہ تر یہ کہا جاتا ہے کہ کمیونسٹ یا سوشلسٹ ریاست مذہب دشمن یا ردِ مذہبیت ہوتی ہے تو یہ ایک کھلی غلط فہمی ہے. مارکسسٹ لیننسٹ انقلاب جو روس میں برپا ہوا، اس میں صرف روسی قدامت پسند چرچ پہ قدغن لگایا گیا. اس کی وجہ یہ تھی کہ کلیسا زارِ روس کا حاشیہ بردار تھا اور اسے خدائی اوتار کی مانند سمجھتا تھا جب مزدوروں اور کسانوں کا انقلاب برپا ہوا تو اس کلیسا نے ردِ انقلاب پروپیگنڈہ شروع کردیا اور کمیونسٹوں کو بدنام کرنے کے لیے ان پہ ملحد ہونے کا لیبل لگا کر ان کی مقبولیت کو کم کرنے کی کوشش کی اور زارِ روس کی کھلم کھلا حمایت شروع کردی. جس سے انقلاب کا وجود خطرے میں پڑگیا. آخر لینن نے چرچ کو بند کردیا. ایک مہذب سے مہذب بورژوا سرکار بھی اپنے دفاع میں اقدامات اٹھا سکتی ہے تو کیا انقلابی حکومت ہوا میں قائم تھی یا وہ خیالوں کی دنیا میں وجود رکھتی تھی جہاں سب اچھا ہے کا اصول کارفرما ہوتا ہے. اس کے بعد1942 جب حالات سازگار ہوئے تو کلیسا کو دوبارہ کھول دیاگیا. لینن نے اکتوبر انقلاب کے بعد دسمبر 1917 میں ایک عوامی پیغام جو روسی مسلمانوں کے لیے تھا وہ نشر کیا.
” آپکی وہ تمام مساجد اور عبادت گھر جو تباہ کردئیے گئے اور آپکے عقائد اور رسوم جو زار اور روسی استحصالیوں کے دور میں دھتکارے گئے، اب وہ تمام مساجد, رسوم و رواج اور عقائد آزاد اور ناقابلِ پامال ہیں” (فچریزال ہالم, جکارتہ پوسٹ اکتوبر 8, 2009)
1909 میں جب پارٹی میں موجود مڈل کلاس ذہن زارِ روس کی پیداوار دانشور سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، لینن نے اور بالشیکووں نے اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ معاشی اور معاشرتی حقائق تمام اقوام کو برابری کی بنیاد پہ متاثر کرتے ہیں ایک سوشلسٹ پالیسی تشکیل دی. لینن نے اس بات کی شدید مخالفت کی کہ کسی بھی محنت کش طبقے کے لوگوں کو مذہب چھوڑنے پر مجبور نہ کیا جائے، اس فضول تحریک (جس میں لوگوں کو الحاد کی ترغیب دی جارہی تھی) کے روح رواں اشخاص کو لینن نے “بچگانہ ذہن کے مادہ پرست” ہونے کا لقب دیا. یہ ہی سوشلسٹ پالیسی انقلاب کے بعد بھی جاری و ساری رکھی گئی.(بحوالہ بالشیویک اور اسلام, ڈیو کروچ)
کامریڈ سٹالن کی مذہب پہ بہت سی تحریریں اور واقعات ہیں جو انکے بعد “ایسپرسو سٹالنسٹ” نام کی ایک ویب سائٹ نے شائع کیے، چند کا حوالہ دیتا جاوں.
داغستان کے لوگوں کی کانگریس, دسمبر 13, 1920 “سوویت روس کی حکومت تمام اقوام کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ اپنے رسم و رواج کے مطابق اپنا نظام سرکار چلائیں. سوویت روس کی حکومت سمجھتی ہے کہ شریعہ کو کامن قانون تسلیم کرلیا جائے کیونکہ داغستان کے عوام اسے خود کے لیے بہتر اور فائدہ مند سمجھتے ہیں۔”
ترک علاقے کے لوگوں کی کانگریس, دسمبر سترہ 1920:
“تمام اقوام خواہ وہ چیچن ہیں، انگوش یا کبارڈین، اوستیشین، کاراچائی یا قازق، جو پہاڑی علاقہ جات میں رہتے ہیں اور سوویت یونین کے شہری بھی بننا چاہتے ہیں وہ اپنے طرزِ حیات کے مطابق زندگی بسر کرسکتے ہیں اور یہ بات بتانے میں کوئی مذائقہ نہیں کہ یہ لوگ سوویت یونین کے وفادار بیٹوں کی طرح ہیں اور یہ سوویت روس کے مفادات کا دفاع کرتے رہیں گے. یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ شریعہ ضروری ہے تو اسے رہنے دیا جائے اور ہماری شریعہ پہ کسی بھی قسم کا جنگ مسلط کرنے کا ارادہ نہیں”۔
تو بھلا اگر لوگ مذہب سے عقیدت رکھتے ہیں تو اس میں قباحت کی کیا بات ہے. لینن یا سٹالن اگر ملحد تھے بھی تو انھوں نے اپنا الحاد لوگوں پہ زبردستی تھونپا نہیں بلکہ یہ لوگوں کا اپنا ذاتی فعل کہہ کر ان پہ چھوڑ دیا.
کاسترو نے اگر پوپ کو دعوت دی تو کوئی بری بات تو نہیں ہے. پوپ فرانسس نے لا ریپبلیکا میگزین کو دیے گئے انٹرویو میں اعتراف کیا کہ یہ کمیونسٹ ہی ہیں جو یسوع مسیح کی طرح سوچتے اور عملی اقدام اٹھاتے ہیں. یسوع مسیح بھی نادار اور دھتکارے ہوئے لوگوں کے حقوق کی جنگ لڑ رہے تھے ویسے ہی کمیونسٹ بھی. دوسری بات یہ ان لبرلز کے لیے کھلا ثبوت ہے کہ کمیونسٹ ملکوں میں سرمایہ دار ملکوں سے زیادہ آزادی ہے. جہاں ایک پادری انقلاب چوک میں کھڑا ہوکر اپنے دین کی تبلیغ کرسکتا ہے.
رجب طیب اردگان نے بھی کیوبا میں ایک مسجد کا افتتاح کیا. کیا یہ کھلی مذہبی آزادی نہیں؟
کاسترو نے چودہ سال کی عمر میں روزویلٹ کو خط لکھا کہ اسے دس ڈالر کا نوٹ دیا جائے، اسی لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ کاسترو بچپن سے سرمایہ داری کا شدید حامی تھا؟ بھائی صاحب کاسترو شکمِ مادر سے ہی کمیونزم کا فلسفہ پڑھ اور سمجھ کے نہیں آیا تھا. چودہ سال کے بچے کو کیا پتہ کہ کمیونزم کیا ہے سرمایہ داری کیا ہے؟ امریکہ سامراجی ہے وہ اس کے وطن کو لوٹ کے کھا رہا ہے. دوسری بات کہ سرمایہ دار ریاست میں جب کوئی کمیونسٹ رہتا ہے تو اسے اپنا اور بیوی بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے کام کرنا پڑتا ہے. ایک کمیونسٹ انسان ہوتا ہے حضور، اسے بھی خوراک اور روٹی رہائش کی ضرورت ہوتی ہے جیسے آپ سرمایہ داری کے کھلے حامی لبرلز کو.
پھر بات ہوئی راول کاسترو کو صدر بنانے کی کہ راول کو ہی صدر کیوں بنایا گیا. فیدل کاسترو کے پانچ بیٹے ہیں وہ سب عام پیشوں سے وابستہ ہیں ایک ڈاکٹر ہے کیوبا کی بیس بال ٹیم کا اور باقی بھی ملک میں رہ کر عام سے پیشہ جات سے منسلک ہیں. راول کاسترو کا بننے کی وجہ یہ تھی کہ تحریک اور انقلاب کا مغز تیرہ کامریڈز تھے، جن میں سے بارہ کی وفات اور شہادت ہوگئی. جیسے چے گویرا کی شہادت ہوگئی اور پھر کامیلو کی بھی شہادت ہوئی، 2009 جوان المیدا کی وفات ہوئی اور کامریڈ فیدل کاسترو کی۔ آخر شخص راول کاسترو تھے اور اسی بنا پہ پارلیمان اور سنٹرل کمیٹی نے ان کو صدر بنایا، راول کو اپنی کرسی پہ بٹھانے والا کاسترو نہیں تھا بلکہ اسے پارٹی نے منتخب کیا. انقلاب کی بقاء اور انقلابی حکومت کے اقدامات کو مزید فروغ دینے کے لیے راول کاسترو جیسے پر مغز انقلابی کو کرسی صدارت دی گئی کیونکہ وہ انقلاب کا حصہ بھی رہے اور انقلابی نظریات کے اطلاق سے بھی خوب واقف ہیں۔ دوسری بات کینیڈی کا پورا خاندان سینٹر بن سکتا ہے، گاندھی اور نہرو خاندان سرکار کو اپنی جاگیر بنا سکتا ہے، مارگریٹ تھیچر کا بیٹا مارک تھیچر الیومامہ اسلحے کی ڈیل میں ماں کا اختیار استعمال کرتے ہوئے کرپشن کرسکتا ہے، استوائی گنی میں نیگوما سرکار کا تختہ الٹنے کی سازش کرسکتا ہے تاکہ اس “نیو کویت ” کے تیل کے ذخائر پہ ہاتھ صاف کرسکے۔ ساٹھ ملین یورو جس کی ملکیت ہوں، بھٹو خاندان کی وراثتی حکومت پہ ایک لفظ نہیں بولتے یہ۔ دراصل ان لوگوں کو مسئلہ کسی سے نہیں، ان کو مسئلہ صرف غریب لوگوں سے ہے کیونکہ اگر غریب بااختیار ہوگیا تو ان کی شان و شوکت کہاں جائے گی؟ وہ شان و شوکت جو ان کو سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام نے عطا کی ہے. یہ اپنی حثیت کے ختم ہونے کا سوچ کر ہی کانپ جاتے ہیں، اسی لیے یہ لوگ بے سروپا الزامات عائد کرتے ہیں کمیونسٹوں پہ کہ ان کو معاشرے میں مضبوط نہ ہونے دیا جائے اور ہماری معتبر شناخت مردہ معاشرے میں ممتاز رہے.

پھر بات کی ایک اور لغو ترین من گھڑت معلومات کی کہ کاسترو نے اپنی زندگی میں پینتیس ہزار خواتین سے جسمانی تعلقات استوار کیے۔ ہر روز دو عدد خواتین سے وہ جنسی تسکین حاصل کرتا تھا.۔کیا یہ بات آپ کے دل کو لگتی ہے کہ ایک شخص ایک دن میں دو بار روزانہ کی روٹین میں یہ کام کرے؟ بھائی الزام لگاو تو ایسا لگاو جس کی سمجھ بھی آئے، ہوا میں تیر چھوڑ دیا کہ شاید نشانے پہ لگ جائے، مگر بعض اوقات یہ تیر خود پہ بھی آ لگتا ہے۔ کاسترو نے زندگی میں دو شادیاں کیں جن سے اس کے پانچ بیٹے ہیں. پھر ایک اور بڑھک ماری کہ کاسترو نے کہا کہ اس کی اولاد ایک قبیلے جتنی ہے، تو بھائی کاسترو نے تو یہ بھی کہا تھا کہ پورا کیوبا اور مظلوم اقوام میری اولاد کی طرح ہیں، تو کیا اب پوری ترقی پزیر دنیا کاسترو کی اولاد ہوگئ؟ “چوہے کو ملی ہلدی کی گیٹھا، پنساری بن بیٹھا”، کسی امریکی نے یہ ویسے ہی بات کی ہوگی. ہمارے لبرلز کو یہ چونکہ سوشلزم مخالف لگی تو بس پھر فوراً بنا سوچے سمجھے الزام کی شکل میں لوگوں کے سامنے پیش کردی۔ اسی تحریر کے نیچے میں نے لوگوں کے تاثرات پڑھے تو مجھے بہت ہنسی آئی. جس قدر شدید انداز میں لوگوں نے صاحب تحریر کی لغویات کو مسترد کیا وہ سچائی کی صداقت کی علامت ہے کہ لوگ لبرلز کے جھوٹوں سے اب واقف ہوگئے ہیں.

“فوربس” نے 1997 اور 2005 میں کاسترو پہ بلین پتی ہونے کا الزام لگایا اور اسکی دولت کا تخمینہ 900 ملین ڈالر لگایا گیا. اس کے جواب میں کاسترو نے ٹیلیویژن پہ دھواں دھار تقریر کی اور فوربس کو للکارا کہ اگر ان کے پاس 900 ملین کیا 1 ملین یا 50000 ڈالر یا 10000 ڈالر یا ایک ڈالر کے بھی اکاونٹ کا ثبوت ہے تو وہ پیش کریں، اگر ثابت ہوا تو وہ استعفیٰ دے دیں گے۔ پھر کاسترو نے دھمکی دی کہ وہ فوربس کے خلاف عدالت میں جائیں گے. یہ سننا تھا کہ فوربس نے فہرست سے نام نکال دیا اور خود تسلیم کیا کہ یہ دولت فیدل کاسترو کی نہیں ہے بلکہ یہ ریاستی کنٹرول میں موجود کمپنیوں اور بنکوں کی ہیں، جو عوام کی ملکیت ہیں اور کمیونسٹ پارٹی اس کا انتظام سنبھالتی ہے، کاسترو کی اپنی تنخواہ صرف 36 امریکی ڈالر یا 900 کیوبن پیسو ہے.

اب بات ہوجائے کہ کامریڈ سٹالن اور کامریڈ فیدل کاسترو کی بیٹی ملک چھوڑ کر کیوں چلی گئیں؟ تو بات پھر وہی کہ یہ ضروری نہیں کہ والدین اور اولاد کا نکتہ نظر ایک ہو. اختلاف ہونا اس بات کا ثبوت نہیں کہ باپ کا نظریہ غلط ہے یا اولاد کا۔ فرعون کے گھر موسیؑ کی تربیت ہوسکتی ہے، نوحؑ کا بیٹا بھی کافر ہوسکتا ہے، یوسفؑ کے بھائی ان کو کنوئیں میں ڈال سکتے ہی؛ اور تو اور نبی کریمﷺ کے چچا کا ان سے مذہبی نظریاتی اختلاف ہوسکتا ہے.؛ تو غریب کاسترو کو کیوں رگیدتے ہیں۔ دوسری بات مارشل سٹالن کی بیٹی ملک چھوڑ کے گئی مگر اسی مارشل کا بیٹا بھی تھا جس کو نازیوں نے اگلے محاذ سے گرفتار کرلیا. اسی دوران نازیوں کا ایک بڑا کمانڈر گرفتارہوا، جرمنی نے تبادلے کا فارمولہ رکھا، سٹالن نے کہا کہ وہ کیپٹن ہے اور ملک کے دفاع اور سوشلزم کی بقا کے لیے ایک کیپٹن کا دشمن کے قبضے میں جانا اتنا نقصان دہ اورگھمیبر نہیں ہے جتنا اس کمانڈر کا ہمارے ہاتھ لگنا فائدہ مند ہے؛ کامریڈ کا بیٹا نازی صعبوتیں برداشت کرتا شہید ہوگیا مگر مارشل نے اقربا پروری کو دل میں جگہ نہیں دی۔ کامریڈ سٹالن کی کوئی اولاد بھی کسی کلیدی عہدے پہ تعینات نہیں تھی، بیٹا نازیوں کے خلاف لڑنے اگلے محازوں پہ بھیجا، شہزادہ ہیری کے اپارٹمنٹ سے دو کلومیٹر دور افغانستان میں فائرنگ ہوئی تھی ملکہ نے اسے فوراً بلا لیا.
اسی مارشل سٹالن کی ہی ایک بیٹی نے کہا کہ میرے باپ نے ساری زندگی ایک کوٹ میں گزار دی جو سردی روکنے کے لیے ناکافی تھا. اے دانش کے دیوتا، اگر بیٹی چھوڑ کے گئی تو اس کا مطلب کیا ہوا؟ کہ برابری کی سطح تھی لوگوں میں اور کچھ خصوصی مراعات حاصل نا تھیں..کاسترو خود کو اسی مقام پہ سمجھتا ہوگا جہاں لینن سمجھتا تھا، وہ مزدوروں کا باپ راہنما چائے میں شکر نہیں ڈالتا تھا، وجہ پوچھی تو کہا کہ میرے مزدوروں کو چینی دستیاب نہیں، میں پیوں گا تو ایسا ضمیر تسلیم نہیں کرتا۔ بیٹی شاید زیادہ کی خواہشمند ہو جو ایماندار اور غریب پرور باپ دینے سے قاصر ہو۔ مڈل کلاس ذہن کے لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم سرکاری سکول میں پڑھیں گے تو ہم میں اور غریبوں میں کیا فرق رہ جائے گا؟ زیادہ کی خواہشمند تھی جو مزدوروں کا راہنما اپنے آدرشوں سے غداری کرکے دینے کو تیار نہیں تھا، پس اس نے راہِ فرار اختیار کی۔ اگر خاندانیت پہ مبنی ہی حکومت ہوتی تو بیٹی کسی اعٰلی عہدے پہ براجمان ہوتی اور ملک کو چھوڑ کر نہ جاتی.

کیوبا کے خسارے پہ لکھا گیا، شرح ترقی پہ بھی لکھا گیا کہ کم ہے. 5.4% خسارا ہے کیوبا کا اور شرح ترقی یا گروتھ ریٹ 4.30 ہے جو امریکہ، پاکستان اور چین سے بھی زیادہ ہے؛ لیکن ہم نے مانا کہ یہ کم ہ۔. تو بھائی اس 114 بلین ڈالر کے نقصان کا خمیازہ کون بھگتائے گا جو امریکہ اور یورپی سامراج نے اس کمیونسٹ جزیرے پہ پابندیاں عائد کرکے اس کی معشیت کو تباہ کرنے کی کوشش کی؟ ایک چھوٹا سا ملک اور لبرلز کا پیشوا ملک امریکہ اس سے اتنا خوف زدہ؟ حیرت ہے۔ کاسترو ایک عام سادہ سا داڑھی والا بابا، جو مجھے بالکل اپنے دادا جی کی مانند لگتا ہے، اس کو قتل کرنے کی 638 کوشیشیں؟ لاطینی امریکہ سے لے کر افریقہ کی مظلوم اقوام کی آزادی کی جدوجہد میں ان مظلوم لوگوں کی مدد بھی “ان سب” کو پسند نہیں آئی، کیونکر پسند آتی، عالیجاہ امریکہ بہادر کے مالی مفادات کا حصول نوآبادیات سے زیادہ آسان تھا۔ بس اسی مقصد کے تحت انگولا میں ایم پی ایل اے پہ بمباری کی امریکہ بہادر اور پرتگال نے، پھر یہی خون کی ہولی پرتگیز گنی میں کھیلی گئی اور یہ خون آشام گھن چکر کانگو میں رچایا گیا. اس وقت میں کیوبا کا بہادر مزدور راہنما ہی ان مظلوم لوگوں کے لیے ہر وقت حاضر رہا. مالی، فوجی اور اخلاقی ہر قسم کی حمایت کی.

Advertisements
julia rana solicitors london

کاسترو مظلوم اقوام کے لیے بڑے بھائی کی مانند تھا. ہوانا سے لوانڈا، بساو سے الجیریا اور ماپوتو سے کنشاسا تک۔ لوگوں کی انکھیں عظیم انقلابی کی وفات پہ اشکبار تھی، ایسے لگتا تھا کہ یہ لوگ ایک شفیق باپ سے محروم ہوگئے ہی۔. مگر ہمارے لبرلز کو کیا ٹینشن ہے، ان کو دولت کی فراوانی ہے اور سامراج کھل کر مالی امداد کررہا ہے.
کاسترو ہمارا بھائی، استاد اور ساتھی کامریڈ ہے، اس سے غلطیاں سرزد ہوئی ہوں گی، مگر بے بنیاد الزام لگانا ایک غلط اور گندا ترین فعل ہے۔ بے بنیاد اور جھوٹے الزامات کے خلاف ہم کامریڈ فیدل کاسترو کا ہمیشہ دفاع کریں گے.

Facebook Comments

ہمایوں احتشام
مارکسزم کی آفاقیت پہ یقین رکھنے والا، مارکسزم لینن ازم کا طالب علم، اور گلی محلوں کی درسگاہوں سے حصولِ علم کا متلاشی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply