نورڈن کی ناکام ایجاد۔۔۔۔۔وہارا امباکر

ہوائی جہاز سے بم کیسے گرایا جائے کہ وہ نشانے پر ٹھیک گرے؟ یہ فزکس کا مشکل مسئلہ ہے۔ جہاز کی رفتار، اس کی بلندی، اس کا زاویہ، ہوا کی رفتار وغیرہ کی مدد سے یہ کیلکولیشن کرنا پڑتی ہے۔ اس مسئلے کو سوئٹزلینڈ کے انجینئیر کارل نورڈن نے حل کیا۔ کارل نورڈن پہلی جنگِ عظیم سے پہلے امریکہ میں رہائش اختیار کر چکے تھے۔ اس وقت نہ ہی جی پی ایس تھا، نہ ریڈار اور نہ ہی کیلکولیٹر۔ اس مسئلے کو کئی لوگ حل کرنے کی کوشش کر چکے تھے لیکن کامیابی نہیں ہو سکی تھی۔ نورڈن نے اس کو حل کرنے کے لئے انتہائی پیچیدہ آلہ بنایا جو نارڈن مارک 15 بم سائٹ کہلائی۔ 23 کلوگرام اس میں کئی طرح کے لیور اور بال بئیرنگ، جائیروسکوپ، گیج اور آلات لگے ہوئے تھے۔

بم گرانے والے پائلٹ کو جہاز کے شیشے سے باہر اپنا ٹارگٹ دیکھنا تھا، جہاز کی اونچائی، رفتار اور ہوا کی رفتار اور ٹارگٹ کی جگہ بتانا تھی اور بم سائنٹ یہ بتا دیتی کہ بم کب گرانا ہے۔ بم نشانے پر نہیں گرا کرتے تھے۔ ایک میل سے بھی زیادہ دور گرنا عام بات تھی۔ نورڈن کا کہنا تھا کہ ان کی ایجاد سے بیس ہزار فٹ کی بلندی سے اچار کے مرتبان میں بم پھینکنا ممکن ہے۔

اس ایجاد میں فوج کی بہت زیادہ دلچسپی تھی۔ پہلی جنگِ عظیم میں کئی ملین فوجی مورچوں میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے لڑے تھے اور بغیر نتیجے کے لمبی لڑائیاں ہوتی رہی تھیں۔ اب یہ ایجاد مل گئی تھی۔ ایسا آلہ جس سے دشمن کی سرزمین پر اونچائی سے اپنی مرضی کے ٹارگٹ کو نشانہ بنایا جا سکے گا۔ اس ایجاد کو ڈویلپ کرنے پر امریکی ملٹری نے ڈیڑھ ارب ڈالر خرچ کئے اور یہ 1940 کی کرنسی کے ڈالر تھے۔ یہ کسی بھی چیز پر کیا گیا سب سے بڑا خرچہ تھا۔ (اس کا ریکارڈ ایٹم بم بنانے کے لئے کئے جانے والے مین ہٹن پراجیکٹ نے توڑا جس پر تین ارب ڈالر خرچ کئے گئے)۔

امریکہ میں ملٹری ماہرین کا خیال تھا کہ یہ وہ آلہ ہے جو نازیوں اور جاپانیوں کے خلاف جنگ میں ہار جیت کا فیصلہ کرے گا۔ نورڈن کے لئے یہ ایجاد کرنا ان کا اخلاقی فرض تھا۔ نورڈن ایک مذہبنی کرسچن تھے جن کے لئے دنیا سے تکلیف ختم کرنا ان کا مشن تھا۔ (اس قدر مذہبی کہ جب اس کو ان کی ایجاد کہا جاتا تو برا مان جاتے۔ ان کی نظر میں ہر ایجاد خدا کا کام ہے، وہ بس اس کو لوگوں تک پہنچانے کا وسیلہ تھے)۔ جنگ میں بہت سی اموات ان لوگوں کی ہوا کرتیں جن کا جنگ سے لینا دینا ہی نہیں تھا۔ عام شہری جو ان بھٹکے ہوئی بموں کا نشانہ بن جایا کرتے تھے اور بڑی تعداد میں بنتے تھے۔ ان کے خیال میں یہ ایجاد عام لوگوں کو جنگ کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ صرف ان جگہوں پر بم پھینکا جائے گا جو ضروری ہیں۔

امریکی فوج نے نوے ہزار بم سائیٹس بنوائیں۔ ہر ایک کی قیمت چودہ ہزار ڈالر تھی۔ (ایک بار پھر، یہ 1940 کی کرنسی کی بات ہے)۔ پچاس ہزار پائلٹوں کی تربیت کی گئی کہ اس کو استعمال کیسے کرنا ہے۔ مہینوں پر مشتمل ٹریننگ سیشن ہوئے۔ یہ ایک انالوگ کمپیوٹر تھا اور استعمال آسان نہیں تھا، اس لئے اس تربیت کی ضرورت تھی۔ ہر پائلٹ سے حلف لیا گیا کہ اگر وہ جنگ میں پکڑے گئے تو اس آلے کے بارے میں ایک بھی لفظ دشمن کے آگے منہ سے نہیں نکالیں گے، خواہ کچھ بھی کیوں نہ ہو جائے۔ اس کو بڑے خفیہ طریقے سے جہازوں میں پہنچایا گیا۔ اس کی فوٹوگراف کھینچنے کی کسی کو اجازت نہیں تھی۔ اس کے اندر ایک اور آلہ نصب کیا گیا کہ اگر جہاز کریش ہو جائے تو یہ تباہ ہو جائے تا کہ دشمن کے ہتھے نہ چڑھ سکے۔

پھر دوسری جنگِ عظیم شروع ہو گئی۔ اور ساتھ نورڈن بم سائیٹ کی خامیوں کا پتا لگنا شروع ہو گیا۔ تھیوری میں یہ بیس ہزار فٹ سے اچار کے مرتبان کو نشانہ بنا سکتی ہو گی لیکن عملی دنیا مختلف ہے۔ پہلی بات یہ کہ اس کو استعمال کرنا خاصا مشکل تھا۔ جن پچاس ہزار پائلٹوں کو تربیت دی گئی، ان میں سے ہر کوئی اس میں مہارت حاصل نہیں کر سکا۔ دوسرا مسئلہ یہ کہ یہ بہت مرتبہ خراب ہو جایا کرتی تھی۔ اس میں آلات ہی اتنے زیادہ تھے۔ تیسرا یہ کہ جب نورڈن نے اپنی کیلکولیشن کی تھی تو ان کا خیال تھا کہ پائلٹ کم بلندی پر کم رفتار سے اڑ رہا ہو گا۔ اصل جنگ میں ایسا نہیں ہوتا۔ ایسا کرنے والا پائلٹ جہاز گنوا بیٹھتا ہے۔ نئے جہاز زیادہ اونچا اور زیادہ تیز اڑتے تھے جس پر اس کی کیلکولیشن آگے پیچھے ہو جاتی تھی اور سب سے بڑا مسئلہ یہ کہ پائلٹ کو نشانہ آنکھ سے دیکھ کر پھر اس کو استعمال کرنا ہوتا تھا۔ اصل دنیا میں بادل ہوتے ہیں۔ وسطی یورپ کے جنگ کے تھیٹر میں اکثر ہی بادل ہوا کرتے تھے۔ اتحادی فوجوں نے 1944 میں لیونا میں جرمن کیمیکل پلانٹ کو نشانہ بنایا جو کہ ساڑھے سات سو ایکڑ پر پھیلا ہوا تھا تو بمباری کے بائیس مشن بھیجے گئے اور اس ایک پلانٹ پر پچاسی ہزار بم پھینکے گئے۔ نورڈن بم سائٹ کی مدد سے نشانہ باندھ کر اتنے بڑے ٹارگٹ پر جو بم گرائے گئے، ان میں سے صرف دس فیصد پلانٹ میں گرے۔ جنگی تاریخ کی سب سے مہنگی بمباری کی کچھ ہی ہفتوں بعد لیونا کا پلانٹ ایک بار پھر کام کر رہا تھا۔

اور وہ جو اسے خفیہ رکھنے کے لئے جتنی کوشش کی گئی تھی؟ اس کو بنانے والے ایک انجینیر نے اس کا پورا ڈیزائن 1938 میں ہی نازیوں کے حوالے کر دیا تھا۔ ان کے پاس اس پوری جنگ میں یہی آلہ شروع سے ہی موجود تھا (اور نازیوں کے لئے بھی یہ اتنا ہی “کامیاب” رہا تھا)۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس وقت بھی ہم اس دور میں ہیں جہاں بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی اپنی “نورڈن بم سائٹ” ایجاد کر لی ہے۔ وہ ایک حل جو سب مسائل ختم کر دے گا۔ وہ ایک خیال، وہ ایک ایجاد، وہ ایک ویب سائٹ، وہ ایک نظریہ، جو سب کو آزاد کر دے گا۔ دنیا کو ہمشہ کے لئے بدل دے گا اور بہتر کر دے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب ہم عسکری ٹیکنالوجی میں اس جگہ پر ہیں جہاں پر واقعی اچار کے مرتبان کو بیس ہزار سے نشانہ بنا سکتے ہیں۔ لیکن اس بارے میں ہمیں اپنا تصور ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پانچ ملین ڈالر کے کیمرے جہاز سے بہت ہی تفصیلی نظارہ دکھا دیتے ہیں۔ جنگوں میں اچار کے مرتبان میں بم ڈال دینا اہم نہیں۔ مشکل مسئلہ یہ ہے کہ وہ اچار کا مرتبان ہے کونسا؟ اور کیا اس کو نشانہ بنانے سے کوئی فرق بھی پڑے گا؟ جدید جنگوں میں یہ نشانہ اس قدر ایکوریٹ ہو چکا ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس سے پھر بھی فرق نہیں پڑا۔ نہ جنگ جیتنے میں، نہ اس کی تباہ کاری روکنے میں۔

ہمارے مسائل نت نئی چیزوں سے یا پھر بہترین نشانہ باندھنے والے ہتھیاروں سے کبھی حل نہیں ہوئے۔ یہ اس لئے نہیں ہوتے کہ یہ اس سے زیادہ پیچیدہ ہیں۔ کیا ہم میں وہ دانائی ہے کہ ہم ان بموں کے استعمال کے بغیر مسائل کو حل کر سکیں؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسری جنگِ عظیم میں 6 اگست 1945 کو ایک بمبار طیارہ اڑا۔ ایک B29 بمبار جس کا نام اینولا گرے تھا۔ نورڈن بم سائٹ کو استعمال کرتے ہوئے اس نے نشانہ باندھا اور ہیروشیما کے اوپر ایک بڑا تھرمونیوکلئیر بم پھینک دیا۔ یہ بم حسبِ معمول نشانے پر نہیں گرا۔ نشانے سے آٹھ سو فٹ دور گرا۔ فضائیہ کے ڈیڑھ ارب ڈالر کے پراجیکٹ سے نشانہ لے کر تین ارب ڈالر کے پراجیکٹ کے نتیجے میں بننے والا آلہ ہیروشیما پر گرا۔ لیکن فرق کیا پڑتا تھا؟ اس کو بم سائٹ کی ضرورت ہی نہیں تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیویارک میں کسی نے کارل نورڈن کو نہیں بتایا کہ اس ایٹم بم کو گرانے کے لئے بھی ان کا آلہ استعمال کیا گیا تھا۔ وہ ایک مذہبی کرسچن تھے۔ ان کا خیال تھا کہ انہوں نے ایسی چیز ڈیزائن کی ہے جو جنگ کی تباہ کاریاں کم کر کے دنیا سے تکلیف کا خاتمہ کرے گی۔ معصوم لوگوں کو مرنے سے بچائے گی۔ اچھا ہوا کہ ان کو نہیں بتایا گیا۔ ان کا دل ٹوٹ جاتا۔

نوٹ: ساتھ لگی تصویر ایک بم سائٹ کی جو کیلیفورنیا کے میوزیم میں ہے۔

نورڈن بم سائٹ پر
https://en.wikipedia.org/wiki/Norden_bombsight

Advertisements
julia rana solicitors

یہ اس ویڈیو سے
https://youtu.be/HpiZTvlWx2g

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply