دنیا کو جاننے کے لئے تشکیک اچھا آغاز ہے۔ جب تک شک نہیں، اس وقت تک غلط خیال کو مسترد کر دینا ممکن نہیں۔ لیکن تشکیک صرف پہلا قدم ہے۔ سوال کرنا صرف اسی وقت مفید ہے اگر یہ جواب تلاش کرنے کے لئے کئے جائیں۔ سوال یہ شک سے آگے کیسے بڑھا جائے۔ اور اس کے کچھ طریقے ہیں۔
ڈیکارٹ نے اپنے یقینوں کی ٹوکری الٹا کر جب شک کے سمندر میں چھلانگ لگائی تو اس سے بصیرت کا ایک راز دریافت کیا۔ “میں سوچتا ہوں، اس لئے میں ہوں”۔ اس ایک آئیڈیا نے (یعنی کہ وہ ہیں تو شک کر سکتے ہیں) نے انہیں ایک ایک کر کے واپس اپنے یقین کی ٹوکری بھرنے کی اجازت دی۔ لیکن ڈیکارٹ کے زیادہ تر یقین غیرمادی دنیا کے بارے میں تھے۔ فزیکل دنیا ایک الگ معاملہ ہے۔
زیادہ تر فلسفیوں کے نزدیک فزیکل دنیا کو سمجھنے کا یہ قابلِ اعتبار طریقہ نہیں۔ صرف سوچ کافی نہیں۔ یعنی کہ، صرف اس لئے کہ آپ سوچ سکتے ہیں، کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کی سوچ کا میٹیریل حقیقت سے کسی طرح کا قابلِ اعتبار تعلق ہے۔
اور اس لئے یہاں سے ہمیں دو الگ راستے نظر آتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تشکیک کے جواب میں دو ریسپانس تھے۔ ایک ریشنلزم۔ یعنی کہ ریزن یا عقل علم کا سب سے قابلِ اعتبار ذریعہ ہے۔ دوسرا ایمپریسزم یعنی حسیات سے موصول ہونے والی انفارمیشن علم کا سب سے قابلِ اعتبار ذریعہ ہے۔
ڈیکارٹ نے تشکیک کا جواب ریشنلزم سے دیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ دنیا میں سب سے اصل چیز آئیڈیا ہیں۔ ایسے تجویز کردہ خیالات جن تک خالص ریزن کے ذریعے پہنچا جا سکے۔ ڈیڈکٹو سچ (جن پر پہلے بات ہو چکی ہے) اس قسم کی تھے۔ ریاضی کے سچ بھی اسی طرح کے تھے۔
اس کے مقابلے میں ایمپریسزم کا مطلب یہ ہے کہ سچ تک پہنچنے کا بہتر امکان انڈکشن یا سائنسی طریقے کے ذریعے ہے جو ہمیں مادی دنیا کے بارے میں بتاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلسفیوں میں یہ تفریق بہت پرانی ہے۔ افلاطون اور ارسطو کی یہی بحث تھی۔ افلاطون کا خیال تھا کہ سچ کی رہائش آئیڈیاز کی غیرمادی دنیا میں ہے جبکہ ارسطو کی توجہ مشاہدات پر تھی۔
ڈیکارٹ کے وقت میں ان کے اس بارے میں مخالف سترہویں صدی کے مفکر جان لاک تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاک کا کہنا تھا کہ ہم سب دنیا میں خالی تختی کی صورت میں آتے ہیں۔ اور ہم اپنا تمام علم تجربے سے حاصل کرتے ہیں۔ پیدائش کے وقت ہم کچھ نہیں جانتے اور حواس سے آنے والی انفارمیشن کے ذریعے ہم علم اکٹھا کرتے ہیں۔
لاک اس سے اتفاق کرتے تھے کہ حسیاتی انفارمیشن قابلِ اعتبار نہیں، کیونکہ ان سے موصول ہونے والی غلط انفارمیشن تو ہم سب واقف ہیں۔ ڈیکارٹ کا اس پر ردِعمل تمام حسیاتی تجربے پر شک تھا جبکہ لاک اتنا آگے نہیں گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاک نے دو خاصیتوں میں تفریق کی۔ پرائمری خاصیتیں اور ثانوی خاصیتیں۔ پرائمری خاصیت وہ ہے جو فزیکل شے کی ہوتی ہیں۔ لاک کے مطابق، ان کا ہمارے ذہن سے تعلق نہیں۔ کسی شے کا ٹھوس ہونا، اس کی کثافت، وزن، ماس، سائز، شکل جیسی چیزیں ہیں۔ ان کا تعلق شے سے ہے۔ مثلاً، دو سو گرام کا سیب، گول، سخت ۔۔ یہ اس کی پرائمری خاصیت ہیں۔
لیکن اس کی ثانوی خاصیتیں بھی ہیں۔ لاک کے سٹینڈرڈ کے مطابق یہ اصل نہیں۔ کم از کم کسی معروضی اعتبار سے جن پر متفق ہوا جا سکے۔ یہ خاصیتیں ہمارے ذہن میں ہیں۔ لیکن یہ پرائمری خاصیتوں کے ذریعے پہنچتی ہیں۔ سیب کا ذائقہ، اس کا رنگ، اس کی آواز، ٹیکسچر اور خوشبو۔ یہ ہاتھ اور زبان پر کیسا محسوس ہوتا ہے۔ اس کو کاٹنے سے آواز کیسی آتی ہے۔
پرائمری اور سیکنڈری خاصیتوں کا یہ فرق ہے جو ہمارے خارجی دنیا کے بارے میں متفق نہ ہونے کی وجہ ہے۔
ہم سب اس کی پرائمری خاصیتوں کی پیمائش کسی بھی طریقے سے کر سکتے ہیں اور ان پر متفق ہو سکتے ہیں۔ لیکن ثانوی خاصیتوں کے بارے میں نہیں۔ میں اسے خوش ذائقہ کہتا ہوں، آپ نہیں ۔۔۔ کیا یہ واقعی سرخ ہے یا گلابی مائل سرخ ہے؟ اور اس کو کاٹنے کی آواز کو کیسے بیان کریں گے؟ سیب جیسی آواز؟ ہم ان کے بارے میں رات گئے تک بحث کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر پرائمری کوالٹی کے بارے میں اختلاف کریں گے تو ہم میں سے ایک لازمی طور پر غلط ہو گا۔ کیونکہ وہ مجھ سے اور آپ سے آزاد اپنا ایک وجود رکھتی ہیں۔ ان کا تعلق صرف اس سیب کے ساتھ ہے۔ “سیب کا ذائقہ کیسا ہے؟” پر تو اختلاف کو طے کرنے کا اچھا طریقہ نہیں لیکن سیب کا وزن دوسو گرام ہے پر اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی بھی اسے چیک کرے گا تو یہی جواب ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاک کی ریزننگ سادہ اور خوبصورت ہے اور اس میں بہت سادہ تصورات سے بہت اچھی وضاحتی طاقت نکل آتی ہے۔ اس وجہ سے یہ بہت مقبول رہی ہے۔
نظریہ علم کی یہ تھیوری نیچرل سائنس میں عام استعمال ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایمپریسزم بہت کارآمد ہے لیکن اگر آپ کی دلچسپی ریلیٹی سے ہے تو پھر صرف کارآمد ہونا کافی نہیں۔ کیا ایمپریسزم خود میں ایک consistent مکتبہ فکر ہے جسے نیچر آف ریلیٹی سمجھنے کی بنیاد بنایا جا سکتا ہے؟ یہ تجزیہ کرنے والے اس کے حامی جارج برکلے تھے۔
برکلے ایمپریسزم سے متاثر ہوئے اور اسے اتنا سنجیدگی سے لیا کہ انہوں نے لاک کی منطق کو خود لاک کے خلاف ہی استعمال کیا۔ وہ ایمپریسزم کو اپنے منطقی نتیجے تک لے گئے جو پرسیپشن کو اس حد تک لے گیا کہ انہیں سوال کرنا پڑا کہ کیا کوئی بھی شے وجود رکھتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برکلے نے پہلے لاک کی پرائمری اور سیکنڈری کی تفریق پر حملہ کیا۔ مثلاً، آپ کیسے جانتے ہیں کہ سیب کی شکل کیا ہے؟ لاک کا کہنا تھا کہ شکل ایک پرائمری خاصیت ہے اور اس کا فوری ادراک کیا جا سکتا ہے۔ لیکن برکلے نے نشاندہی کی کہ ایسا نہیں کہ آپ آبجیکٹ کی چند خاصیتوں کا ادراک کرتے ہیں اور دوسروں کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ یعنی کہ جب شکل کا پتا لگتا ہے تو ساتھ ہی رنگ کا بھی۔ اور اگر آپ غور کریں تو رنگ کے بغیر آپ اس کی شکل کا پتا ہی نہیں لگا سکتے تھے۔ بے رنگ سیب دیکھا نہیں جا سکتا۔ اور یہی تمام خاصیتوں کے ساتھ ہے۔
اور اگر آپ سیب کی ثانوی خاصیتوں کو الگ کرنا شروع کریں گے تا کہ پرائمری خاصیتوں تک محدود رہا جا سکے تو آپ کے پاس سیب ہی نہیں بچے گا۔
کوشش کریں کہ آنکھ بند کر کے ایسے سیب کا تصور کیا جا سکے جس میں صرف پرائمری خاصیتیں ہوں۔ یعنی اس کا سائز، شکل اور وزن تو ہے لیکن رنگ، ذائقہ یا ٹیکسچر نہیں۔ ایسا نہیں کیا جا سکتا۔
آپ کوشش کر سکتے ہیں کہ بے رنگ سیب کا تصور کریں لیکن اصل میں پھر آپ اسے کوئی رنگ تو دے ہی رہے ہیں۔ خواہ سفید ہو یا سیاہ یا شفاف۔ اسی طرح اگر ٹیکسچر کو ہٹا دیں تب بھی آپ کے تصور کردہ سیب کا ٹیکسچر تو ہے۔ شاید یہ ملائم ہے۔
یاد رہے کہ لاک کا دعویٰ تھا کہ ثانوی خاصیتیں اصل نہیں ہوتی۔ یہ صرف موضوعی تجربہ ہے۔ لیکن اب برکلے کا کہنا تھا کہ یہ دونوں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ہی جڑی ہوئی ہیں۔ ایک کے بغیر دوسرے کے ہونے کا تصور نہیں۔ تو پھر کیا پرائمری خاصیتیں بھی اصل نہیں؟ کیا یہ بھی ویسی ہی ہیں جیسا ہمارا ذہن انہیں بنا لے؟
برکلے نے اس سے ایک چونکا دینے والا نتیجہ نکالا۔ مادہ موجود نہیں۔ ہو ہی نہیں سکتا۔ صرف perceptions ہیں۔
برکلے کا مشہور فقرہ “To be is to be perceived” کا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نکتہ نظر میں آبجیکٹ موجود نہیں۔ ان کے شاہدین ہیں۔ اور یہ بھی فزیکل نہیں، بلکہ ذہن ہیں جو اشیا کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ برکلے کے منظرنامے میں، ہم ایسی دنیا میں ہیں جہاں سوچ ہی اصل ہے۔
لیکن اس آئیڈیا کے مطابق، اگر ہر شے perception ہے تو پھر جب یہ پرسیپشن ختم ہو گی تو کچھ بھی نہیں بچے گا۔
تو پھر کیا جب میں سو جاوٗں تو میں باقی نہیں رہوں گا؟ کیونکہ میری اپنے بارے میں پرسپشن ختم ہو گئی۔ تو مجھے اپنا مسلسل وجود برقرار رکھنے کے لئے کسی کو کہنا پڑے گا کہ مجھے دیکھتا رہے؟
برکلے کا اپنا خیال یہ تھا کہ واحد وجہ، جو ہمیں اور باقی ہر شے کو برقرار رکھے ہوئے ہے، وہ ایک ultimate perceiver ہے، جو خدا ہے۔ جس کی ہمیشہ رہنے والی، اور نہ ہی جھپکنے اور بند والی آنکھ ہے جس وجہ سے ہر شے کا وجود ہے۔ آپ خواہ توجہ دیں یا نہیں۔
برکلے کا یہ آئیڈیا ایمپریکل آئیڈلزم کہلاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بارے میں مشکل یہ ہے کہ شاید ہم سب کا خیال ہے کہ ان کی بات غلط ہے۔ ہم میں سے بہت ہی کم اس بات پر تیار ہوں گے کہ فزیکل دنیا پر اپنے یقین کو ترک کرنے کا تصور کر سکیں۔ ہم حسیاتی حیوان ہیں۔ اور ہمیں اس بات کی تسلی کی ضرورت ہے کہ سیب اپنا وجود برقرار رکھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں