خوشونت سنگھ کی کہانی خود اُن کی زبانی

میں جانتا ہوں کہ میں کہاں پیدا ہوا تھا۔ میں کب پیدا ہوا تھا، ایک قیاس تک محدود ہے۔ صحرائے تھل کے ریتلے ٹیلوں میں چھپے ہوئے ایک بہت ہی چھوٹے گاؤں جسے ’’ہڈالی‘‘ کہتے ہیں، میں پیدا ہوا۔ یہ دریائے جہلم سے سات میل کے فاصلے پر مغرب میں اور تقریباً چالیس میل کھیوڑہ کے سلسلے کوہ نمک سے جنوب میں ہے۔ مجھے اپنے گاؤں کے دنوں کے بارے میں بہت کم یاد ہے ماسوائے ریت کے بے کنار خرابوں کے جن پر ہم چاندنی راتوں میں کھیلا کرتے تھے۔ والدین میرے بڑے بھائی کو ساتھ لے کر دہلی ہجرت کر گئے تھے۔ میں دادی اماں کی زیر نگرانی رہا۔ وہ ہی مجھے گاؤں کے گردوارے سے منسلک اسکول لے جاتی تھیں۔ جب مجھے گور مکھی کے الفاظ سکھائے جاتے وہ گرنتھ صاحب کا مقدس صحیفہ پڑھتی رہتی تھیں۔ دوپہر سے پہلے میری کلاسیں ختم ہوتیں۔ وہ مجھے واپس گھر لاتیں۔ آوارہ کتوں کے جتھے ہمارے پیچھے ہوتے کیوں کہ وہ انہیں ڈالنے کے لیے بچی کچی روٹی لاتیں۔ دوپہر کو امن کا ترانہ سکھ منی گنگناتے ہوئے وہ چرغہ کاتتیں۔ شام کو تمام گاؤں اپنے گھروں سے باہر آ جاتا۔ بھینسیں دودھ دوہے جانے کے بعد کیچڑ میں لتھڑنے کے لیے جوہڑ میں ہنکا دی جاتیں۔ عورتیں ٹولیاں بناتیں تا کہ ایسے محفوظ مقامات تلاش کر سکیں جہاں وہ ضروریات سے فارغ ہونے کے ساتھ ساتھ گپ شپ بھی کر سکیں۔ لڑکے اس مقصد کے لیے اپنی ٹولیاں بناتے۔ چونکہ پانی نایاب تھا لہٰذا ہم صفائی ستھرائی کے لیے اپنے اپنے طریقے ایجاد کرتے اور ساتھ ہی لطف اندوز بھی ہوتے۔ ہم ایک لائن میں زمین پر بیٹھ جاتے اور ایک پہلے سے بتائے ہوئے اشارے پر اپنے ہاتھوں کی مدد سے اپنے آپ کو آگے کی طرف ممکنہ تیزی سے دھکیلتے۔ ریس کے اختتام پر ہمارے پیندے صاف اور خشک ہوتے اور ساتھ ہی صحرا کی ریت سے پر۔ یہ گیم (کھیل) ’’گھیسی‘‘ کہلاتی تھی۔ پیندا پونچھنے کی دوڑ۔ ہم رات کا کھانا سورج غروب ہونے سے پہلے کھا لیا کرتے تھے۔ چاندنی راتوں میں مجھے باہر جا کر دوسرے لڑکوں کے ساتھ کھیلنے کی اجازت تھی۔ یہ میرے بچپن کی خوشگوار ترین یادیں تھیں۔ ہمارے گاؤں کی کثیر آبادی مسلمانوں کی تھی۔ وہ بڑے، ذیشان آدمی تھے، جو کہ دراز قد اور اپنی فوجی (حربی) روایات پر فخر کرنے والے تھے۔ ہم سکھ اور ہندو، تاجر اور مہاجن تھے۔ مسلمان چائے، نمک، مصالحہ جات، سبزیات اور نقد رقم حاصل کرنے کے لیے ہم پر تکیہ کرتے تھے۔ وہ عموماً ہمارے ممنون ہوتے تھے۔ اگر ہم انہیں قرض دینے سے انکار کرتے یا واپسی کے لیے اسرار کرتے تو وہ ہمیں سبق سکھانے کے لیے ڈاکوؤں کی ٹولیوں کو ہمارے خلاف ابھارنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں سوچتے تھے۔ ایک دفعہ ایک سکھ خاندان کو اپنی بیٹی کی شادی کے موقع پر مناسب جہیز دینے کے لیے پیسے کی ضرورت تھی۔ انہوں نے اس سلسلہ میں اپنے مقروض سے تقاضا کیا۔ اس رات ڈاکوؤں کی ٹولی نے ان کے گھر پر حملہ کر کے تین افراد کو قتل کر دیا، نقدی اور زیوارت لوٹ لیے اور دلہن کو ساتھ لے جا کر اس کے ساتھ بدکاری کی۔ قریب ترین پولیس اسٹیشن انیس میل سے زیادہ دور تھا۔ کوئی رپورٹ درج نہ کی گئی۔ نہ ہی نقدی اور نہ ہی دلہن ملی۔ اس طرح کے تجربات نے ہمیں اپنے ہمسائیوں سے خوف زدہ کیے رکھا۔ جب میں پانچ سال کا تھا تو میرے والدین نے ہمیں بلا لیا۔ تب تک میرا چھوٹا بھائی پیدا ہو چکا تھا۔ میرے والدین نے ایک گھروندا اس جگہ کے قریب جہاں میرے والد نے انڈیا کے نئے دارالخلافہ ’’نیودہلی‘‘ کی تعمیر کے لیے ٹھیکے حاصل کیے تھے کرایہ پر لے لیا تھا۔ میری دادی اماں اور میں ایک کمرے کے شراکت دار تھے۔ اس لیے ہماری دوستی قائم رہی۔ میرے بڑے بھائی اور میں ایک نئے شروع ہونے والے سکول میں جو کہ ماڈرن کہلاتا تھا، داخل کر دئیے گئے۔ انڈیا کے دوسرے سکولوں کے برعکس ماڈرن میں مخلوط تعلیمی نظام تھا۔ وہاں تیس لڑکوں کے ساتھ پانچ لڑکیاں بھی تھیں۔ پرنسپل اور اساتذہ کی اکثریت بشمول دو انگریز ٹیچرز کے خواتین کی تھی۔ عمومی تعلیمی کورس کے علاوہ، ہمیں موسیقی، پینٹنگ اور بڑھئی کا کام سکھایا جاتا تھا۔ یہ ایک قومی کالج تھا، لیڈر مہاتما گاندھی، پنڈٹ نہرو اور سروجنی نائیڈ و کو ہم سے خطاب کرنے کے لیے مدعو کیا جاتا تھا۔ یہ میرا سکول میں تیسرا سال تھا جب میں نے دریافت کیا کہ میں لگ بھگ کب پیدا ہوا۔ ہڈالی میں موت اور پیدائش کے رجسٹر کے قسم کی کوئی چیز نہیں تھی۔ میری پیدائش کے وقت میرے والد صاحب دہلی میں تھے اسی لیے انہوں نے اپنی ڈائری میں اس کا اندراج نہیں کیا جیسا کہ انہوں نے میرے بڑے بھائی، چھوٹے بھائی اور اس کے بعد کے دو بھائیوں کے بارے میں کیا تھا۔ سکول میں داخلے کا فارم بھرتے ہوئے انہوں نے نہ معلوم وجوہات کی بناء پر میری تاریخ پیدائش 2 فروری 1915ء درج کر دی۔ ماڈرن میں دوسرے بچے مغرب زدہ خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے اور اپنی سالگرہ مناتے تھے۔ میں نے دیکھا کہ میں نقصان میں تھا کیونکہ جہاں کہیں بھی مجھے مدعو کیا جاتا وہاں میں تحفے لے کر جاتا۔ پس میں نے اپنی سالگرہ منانے کا فیصلہ کیا۔ میں نے سات موم بتیاں، ایک کیک، کھانے کی بہت سی چیزیں اور سائیں سائیں کرتے ہوئے مشروباب مہیا کیے۔ لڑکے لڑکیاں تحائف سمیت آئے۔ تب میری دادی اماں نے پوچھا کہ یہ سب کس سلسلے کا ہنگامہ ہے۔ میں نے کہا۔ ’’میں اپنی ساتویں سالگرہ منا رہا ہوں‘‘۔ ’’تم ایک بیوقوف لڑکے ہو‘‘۔ وہ چڑچڑا کر بولی۔ ’’تم سردیوں میں پیدا نہیں ہوئے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے کچھ عرصے بعد‘‘۔ انہیں تاریخ کا یقین نہیں تھا لیکن ہندی کیلنڈر کے مطابق مہینے کا نام بھادوں بتایا۔ بھادوں انگریزی جولائی۔ اگست کے مطابق ہوتا ہے۔ میں اپنے پیدائش نامے کے بارے میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ میں ’’اسد‘‘ (Leo) ہوں۔ بعد میں، میں نے اپنی تاریخ پیدائش 15 اگست1915ء کو مقرر کرنے کا فیصلہ کیا۔ کیونکہ ہندوستان 15 اگست1947ء کو خود مختار ملک بنا تھا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply