• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مسجد معلوم اور دہشتگرد نامعلوم! آخر کب تک؟۔۔۔نذر حافی

مسجد معلوم اور دہشتگرد نامعلوم! آخر کب تک؟۔۔۔نذر حافی

مسجد اللہ کا گھر ہے، اللہ کا گھر پاکستان میں ہو یا نیوزی لینڈ میں، گھر تو اللہ کا ہے، جو نمازی مارے گئے وہ شہید ہیں، شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔ لہذا قوم کو چاہیئے کہ وہ شہداء کی عزت و تکریم کرکے ان کا شکریہ ادا کرے۔ نیوزی لینڈ کی مسجد پر گذشتہ جمعۃ المبارک کو حملہ ہوا، پچاس نمازی جن میں سے نو پاکستانی تھے، شہید ہوگئے، وزیراعظم عمران خان نے ٹوئٹ کرتے ہوئے اسے 11 ستمبر کے حملے کے بعد دنیا بھر میں پھیلنے والے مسلمان مخالف جذبات (اسلامو فوبیا) کا شاخسانہ قرار دیا۔ وزیراعظم کے کہنے پر 9 پاکستانیوں کی شہادت کے باعث ملک بھر میں قومی سوگ بھی منایا گیا، جبکہ پاکستان کی درخواست پر او آئی سی کا ہنگامی اجلاس بھی طلب کرلیا گیا، جو کہ 22 مارچ کو استنبول میں منعقد ہوگا۔ اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کریں گے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ اجلاس کا مقصد مسلم امہ کو واقعے کے بعد اکٹھا کرنا ہے، اجلاس میں اسلامو فوبیا کے سدباب کے لیے مسلمان ممالک کے کردار پر اور مسلم دنیا سے یورپی ممالک ہجرت کرنے والے مسلمانوں پر مظالم سے متعلق بات ہوگی۔ اس کے علاوہ نیوزی لینڈ میں شہداء کے لئے پاکستان سٹاک مارکیٹ میں خصوصی دعا کا اہتمام کیا گیا اور ایک منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی گئی۔

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے مذمتی قرارداد سینیٹ سیکرٹریٹ میں جمع کروائی، قرارداد میں واقعہ کی شدید مذمت کی گئی ہے اور نیوزی لینڈ کی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ مساجد کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے نیوزی لینڈ کی جامع مسجد میں فائرنگ کے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے عالم اسلام اور پوری امت مسلمہ پر حملہ قرار دیا۔ اس کے ساتھ ہی بہت سارے قلمبردار اور دانشمند بھی میدان میں آگئے، جو اِن دنوں میں جذبہ جہاد کو شعلہ ور کرنے میں مصروف ہیں۔ لمحہ فکریہ ہے ہم سب کے لئے کہ نیوزی لینڈ کی مسجد میں ایسی کیا خصوصیت ہے کہ اگر وہاں دہشت گردی کا واقعہ پیش آجائے تو ہمارا قومی پرچم بھی سرنگوں ہو جاتا ہے، قومی سطح پر یومِ سوگ منایا جاتا ہے، او آئی سی کا اجلاس طلب کیا جاتا ہے اور جماعتِ اسلامی بھی اس واقعے کی مذمت کرتی ہے، نیز جماعت کی طرف سے سینیٹ سیکرٹریٹ میں قراردادِ مذمت بھی پیش کی جاتی ہے۔ غور و فکر کرنے کا مقام ہے کہ پاکستان میں کتنی ہی مساجد پر حملے ہوئے اور ان حملوں میں کتنے ہی پاکستانی شہید ہوئے، نہ ہی تو سرکاری سطح پر یومِ سوگ منایا گیا اور نہ ہی جماعتِ اسلامی نے کبھی مذمت کرنے کی زحمت گوارا کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آج تک دہشت گردی کے خلاف کوئی قومی بیانیہ تشکیل نہیں دے سکے۔

ہمارے وزیراعظم نے نیوزی لینڈ کے واقعے کے بعد بھی یہ کہا ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی دین نہیں ہے، ساتھ یہ بھی کہا کہ یہ اسلامو فوبیا کا نتیجہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر دہشت گردوں کا کوئی دین نہیں ہے تو پھر اس نے مسلمانوں کے دینی مرکز یعنی مسجد کو نشانہ کیوں بنایا اور اگر یہ اسلامو فوبیا ہے تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ دہشت گرد کا تعلق ایسے دین سے ہے، جو دینِ اسلام سے ہراساں ہے۔ اگر حملہ آور کی کوئی دینی شناخت نہیں ہے تو پھر او آئی سی کا اجلاس کیوں طلب کیا گیا ہے۔؟ لہذا ہمیں دہشت گردی کے نیٹ ورک کو سامنے لانے کے لئے دہشت گردوں کو ان کی دینی و ملی شناخت کے ساتھ بے نقاب کرنا چاہیئے۔ جب تک ہم دہشت گردوں کو ان کی دینی و ملی شناخت کے ساتھ بے نقاب نہیں کریں گے، تب تک وہ شکلیں بدل بدل کر نہتے انسانوں پر حملہ آور ہوتے رہیں گے۔ دہشت گرد خواہ پاکستان کی کسی مسجد پر حملہ کریں یا نیوزی لینڈ کی کسی مسجد پر، بے گناہ لوگ ایشیا میں مارے جائیں یا یورپ میں، عبادت گاہوں کا تقدس مشرق میں پامال ہو یا مغرب میں، ہمارا قومی رویہ اور ملی برتاو ایک جیسا ہونا چاہیئے، ہمیں دہشت گردوں کو ان کی ملی و دینی و سیاسی و علاقائی شناخت کے ساتھ بے نقاب کرنا چاہیئے، تاکہ ان کے ہم مذہب، ان کے معاشرے کے لوگ، ان کی کمیونٹی، انہیں اچھی طرح پہچانے اور انہیں پہچان کر اپنی صفوں سے نکالے۔

یہ سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے کہ وہ کونسی طاقتیں ہیں، جو پاکستان اور نیوزی لینڈ کی مساجد کے درمیان فرق کی قائل ہیں، جو نیوزی لینڈ کی مسجد میں نو نمازیوں کی شہادت پر تو ہمیں تڑپاتی اور گرماتی ہیں اور ہمارے جذبہ جہاد کو ابھارتی ہیں، لیکن پاکستان کی مساجد پر شب خون مارنے والے درندوں کے بارے میں ہمیں بولنے نہیں دیتیں، ہمیں معلوم ہونا چاہیئے کہ وہ کون لوگ ہیں، جو دہشت گردوں کی شناخت کو چھپا کر انہیں بار بار منظم ہونے کا موقع دیتے ہیں۔ یہ وہی طاقتیں اور وہی لوگ ہیں کہ جو پوری دنیا میں دہشت گردی کے نیٹ ورکس کی سرپرستی اور اسلحے کی سپلائی کا کاروبار کرتے ہیں اور انہوں نے ہی یہ مشہور کر رکھا ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی دین اور مذہب نہیں ہوتا۔ ورنہ سچ بات یہ ہے کہ ہر دہشت گرد کا ملک، دین اور مسلک مشخص ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ دہشت گردوں کے سرپرستوں کی منشاہے کہ ایک مسجد میں خون خرابے پر خاموشی اور دوسری مسجد میں دہشت گردی پر واویلا، ایک بھائی کے قتل پر سکوت اور دوسرے بھائی کے قتل پر احتجاج، ایک عبادت گاہ کا تقدس مجروح ہونے پر سنّاٹا اور دوسری عبادت گاہ پرحملہ ہونے کی صورت میں آہ و بکا۔ ہمیں اس فرق اور تقسیم کو ختم کرنا ہوگا، ہمیں ساری عبادت گاہوں کو مساوی احترام دینا ہوگا اور سارے دہشت گردوں کو ان کی شناخت کے ساتھ پکارنا ہوگا۔ ہمیں دل سے یہ کہنا پڑے گا کہ مسجد اللہ کا گھر ہے، اللہ کا گھر پاکستان میں ہو یا نیوزی لینڈ میں، گھر تو اللہ کا ہے اور دہشت گرد تو دہشت گرد ہے، وہ خواہ پاکستان میں کسی عبادت گاہ پر حملہ کرے یا نیوزی لینڈ میں۔ جب دہشت گرد پہچانے جائیں گے تو ان کے سرپرست اور سہولت کار بھی پہچانے جائیں گے۔ ہماری گزارش یہ ہے کہ یومِ سوگ، جذبہ جہاد، او آئی سی کا اجلاس، مذمتی قراردادیں، یہ سب بجا ہے، لیکن دہشت گردوں کو ان کی شناخت تو دیجیئے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply