• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مذاہب کے ساتھ کیا مسئلہ ہو گیا ہے ؟۔۔۔۔نذر محمد چوہان

مذاہب کے ساتھ کیا مسئلہ ہو گیا ہے ؟۔۔۔۔نذر محمد چوہان

کل کا نیوزی لینڈ کی ایک مسجد میں مسلمانوں کا ایک متعصب اور جاہل آسٹریلین کے ہاتھوں قتل سب مذاہب پر انگلیاں کھڑی کروا گیا ۔ یہ مذاہب اتنے عرصے سے استعمال ہو ہو کر لگتا ہے اب اپنی افادیت کھو بیٹھے ہیں ۔ ان کو حکمرانوں ، بادشاہوں اور مافیا نے اپنے گندے اور غلیظ مقاصد کے لیے اتنا زیادہ استعمال کیا کہ  اب ان پر سے لوگوں کا اعتماد اٹھ گیا ہے ۔ پنڈت ، ربی اور مولوی کے خدا دراصل سارے کے سارے مادہ پرست بن گئے ۔ سرکاری مولوی ، سرکاری پوپ اور چاند دیکھنے والا مفتی سب مولانا ڈیزل سمیت بکاؤ مال ۔ مذہب کو تہواروں، لباس ، ceremonies اور مدرسوں تک محدود کر دیا گیا ہے ۔ کارل مارکس نے مذہب کو غریبوں کی افیم کہا تھا اور ماریو پُزو نے اپنے مشہور زمانہ ناول گاڈ فادر میں omertà کو سسلی کے لوگوں کا مذہب کہا ۔ اومرٹا کا مطلب تھا خاموشی ۔ آپ نے ہرگز بولنا نہیں نہ پولیس کے سامنے اور نہ ہی کسی اور کے ۔

غامدی صاحب فرماتے ہیں ہمیں قرآن شریف کی طرف راغب ہونے کی ضرورت ہے اس میں تمام مسائل کا حل ہے ۔ کل مجھے ایک خاتون نے کوئی  قرآن شریف کی تفسیر پڑھنے کا کہا جس پر میں نے کہا میری اپنی تفسیر ہے میرا اپنا اس روحانی اور مقدس کتاب پر ایک فلسفہ ہے ۔ میری ساری روحانیت اسی قرآن پاک سے پُھوٹتی ہے ۔ میں کیوں ان لوگوں کی تفاسیر پڑھوں جو لکھتے ہیں کہ  یہودیوں اور کافروں کا قتل جائز ہے کیونکہ قرآن شریف میں لکھا ہے ۔ اب تو یہ حال ہے کہ جتنے جعلی اور مادہ پرست مُلا اتنے ہی قرآن پاک کے perspective ۔

مجھے بہت شدید دُکھ ہوا جب بُدھ مت کے چودھویں لاما، دلائی  نے اس دفعہ کے مشہور امریکی جریدے ٹائم میں یہ کہا کہ  مذاہب کو قریب لانا ہو گا اور مثال مسلمانوں میں شیعوں اور سنُیوں کی چپکلش کی دی ۔ دلائی  سمیت مغرب بھی آج شیعہ اور سنی کو الگ مذہب دیکھتی ہے جیسے احمدی ۔ پورا خلیج فارس ، جنگ کی لپیٹ میں ہے ۔ ایران ، ایراق، شام ، ترکی اور یمن ایک طرف اور باقی سب دوسری طرف ۔ کُردوں کو آزادی نہ دینے کے معاملے کی وجہ سے ترکی ایران کے ساتھ مل گیا ۔ پورا خطہ آج ایک نہ بجھنے والی آگ کا بگولا نظر آ رہا ہے ۔ تینوں بڑی طاقتیں امریکہ ، چین اور روس کو تو خدا ایسا موقع دے ۔ دلائی  لاما ۸۳ سال کا ہے نیا لاما جو دلائی  نے منتخب کیا تھا وہ چین نے مار دیا اور ۱۹۹۵ میں اپنا لاما اناؤنس کیا اور کسی خفیہ جگہ وہ قید ہے ۔ دلائی  لاما نے اس انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ
We 7 billion human beings emotionally, mentally and physically are the same, every one wants a joyful life ..
کاش یہ بات ہمارے حکمرانوں کی سمجھ میں آ جائے کہ  آخر ہم سب انسان ہیں ، سب ہی آدم کی اولاد ہیں تو پھر نفرتیں کیسی ؟ ۱۹۳۹ میں ایک فلم گنگا دن کے نام سے بنی ۔ آپ وہ فلم ضرور دیکھیں ۔

ایک گنگا دن نامی ایسٹ انڈیا کمپنی میں بہشتی مقرر ہوتا ہے ۔ انگریز افسر اس کا اچھا خیال نہیں رکھتے اور اپنے سے بہت نیچ سمجھتے ہیں ۔ ایک دفعہ ایک لڑائی  میں گنگا دن دو گورے سپاہیوں کو بچاتا بچاتا اپنی جان دے دیتا ہے ۔ اسے کہتے ہیں انسانی احساسات ، انسانی محبت ۔ کیا کمال کی فرض شناسی ۔
اب چین کی کمیونسٹ پارٹی بھی مذہب کے ذریعے عوام کے استحصال میں کُود پڑی ہے ۔ چین نے بتدریج بُدھ مت کو چینیوں کا سرکاری مذہب رائج کرنے کے اقدام اٹھانے شروع کر دیے ہیں ۔ پاکستان سے لے کر میانمار تک تمام بدھ مت کے مندروں کی مرمت پر لاکھوں ڈالر چین لگا رہا ہے اور نیپال میں لَومی شہر جہاں بُدھا پیدا ہوا تھا تین بلین ڈالر سے چین اسے نیا بنا رہا ہے ۔ دلائی  لاما نے یہ بھی مانا کے بُدھ مت بھی اپنی افادیت کھو بیٹھا ہے اور اس نے مثال میانمار کی دی جہاں بدھ لوگوں نے لاکھوں مسلمان مار دیا ۔ ٹائم میگزین نے بہت اچھا لکھا کہ  اب ۔۔
when Dalai Lama leaves this plane of existence its highly likely a 15th incarnation will be chosen by godless Chinese Communist Party (CCP)..
دلائی  لاما نے ٹائم کو انٹریو دیتے ہوئے بہت سارے سچ بولے ۔ اس نے یہ بھی کہا کہ  مصنوعی ذہانت انسانی  ذہن سے مقابلہ نہیں کر سکتی اور اس نے بہت خوبصورت انداز میں بُدھا کو یہاں quote کیا ؛
Do not believe my teaching on faith, but rather through thorough investigation and experiment “..

سارا مسئلہ ہی خراب یہاں سے ہوا کہ  ہم تقلید کے نیچے آ گئے ۔ جیسے چینی کمیونسٹ پارٹی اب اپنی مرضی کا بُدھ مت رائج کرے گی اور بُدھسٹ ریپلک بن کر اُبھرے گی اس سے چین کا خیال ہے کہ  اسے پوری ریجن پر کنٹرول بہت ہی آسان ہو جائے گا ۔ فلپائن کے صدر ڈٹرٹے نے بھی ملک کا نام بدلنے کا عندیہ دیا ہے ۔ اس کے نزدیک کنگ فلپس اور نوآبادی استعماریت لوگوں کے ذہنوں سے نکالنا بہت ضروری ہے ۔ میں ڈُٹرٹے کا بہت بڑا حامی ہوں ۔ عمران خان سے ابھی تک گورنر ہاؤس نہیں گرایا گیا کیونکہ چند نوآبادیاتی نظام سے پلے مسٹنڈے ایسا نہیں کرنے دیں گے ۔ چوہدری سرور اور ڈاکٹر شہباز گل جیسے تو برطانیہ اور امریکہ چھوڑ کر ہی اسی چکر میں آئے ہیں ، یہ تھانیداری کا شوق اور انسانوں پر حاکمیت کے موج میلے امریکہ اور برطانیہ میں کہاں ۔ ان جہانزیب خان چیرمین ایف بی آر جیسے کلونیل ماسٹرز سے اگر جان نہ چُھڑوائی  گئی  تو ۲۰ کروڑ پاکستانی غریب استحصال سے مر جائے گا ۔

پاکستان میں اب کسی تیمور کی ضرورت ہے جو ان سب استحصالیوں کی کھوپڑیوں کے مینار بنائے ۔ عدلیہ نے نہ صرف ہتھیار ڈالے بلکہ ان استحصالیوں کا حصہ بنی ۔ کاش موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ گاڈ فادر کے پہلے ہی بیانیہ کو quote کرتا جہاں جب نیویارک کے ایک جج نے ایک لڑکی کو تقریباً قتل کرنے پر امیر خاندان کے دو بچوں کو صرف تین سال کی یہ کہ کر سسپینڈد سزا دی کہ  نوجوان ہیں ، انہیں corrections پروگرام میں ڈالو ٹھیک ہو جائیں گے ۔
daughter was in hospital and her assailants released by a New York Judge.
اس پر ماریاپُوزو کیا زبردست لکھتا ہے ؛
How can you accept a judgment from a judge who sells himself like the worst whore in the streets..

نیویارک کو تو مافیا سے آزادی مل گئی  لیکن پاکستان ابھی بھی مافیا کی لپیٹ میں ۔ ساری کی ساری عدلیہ whore سے بھی بدتر ۔ راؤ انوار اور شاہ رخ جتوئی مافیا کی نشانیاں ابھی بھی باہر ۔ میں اسی لیے کہتا ہوں کے پاکستان کو کوئی  مُلا عمر چاہیے جس کے قاضیوں نے ابھی تک ان کو اُلٹا لٹکا دینا تھا ۔ تیمور بہت مذہبی شخص تھا ۔ قرآن پاک پر اس کو بہت عبور حاصل تھا ۔ اس کے پوتے نے ثمرقند پر حکومت کا کیا شاندار نمونہ پیش کیا ۔ دلائی  لاما نے بھی اس مافیا کے سامنے ہتھیار پھینک دیے ۔ اب مذہب کا لیکچر بھی ون بیلٹ ون روڈ کے ذریعے چین دے گا ۔ دراصل یہ سارا معالہ روح کا تھا اور غیب کا علم روح کا علم تھا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

انیسویں صدی کے آخر میں امریکہ میں ایک وولٹرئین ڈی کلیر نامی خاتون بہت مشہور ہوئی  جس نے سرمایا دارانہ نظام کی شدید مخالفت کی ۔ شادی اور تمام جنسی معاملات کو مذہب سے الگ رکھنے کا کہا ۔ وہ بہت اچھی لکھاری اور مقرر بھی تھیں ۔ اس کا ایک بہت مشہور مندرجہ زیل قول ہے جو میرے روحانیت والے فلسفہ کی تائید کرتا ہے ؛
Women are equal because of supposed metaphysical some thing or the other called equality, existing in some mysterious way apart from material conditions ..
ہمیں صرف ہمارا مذہب ، عقیدہ یا اخلاقیات ہی راہ راست پر لا سکتے ہیں بشرطیکہ ہم مادہ پرستی کی جان چھوڑیں ۔ سات ارب لوگ نفرتوں کی وج سے جہنم کا لقمہ اجل بن سکتے ہیں ۔ یہ بہت بڑا سانحہ ہو گا انسانیت کے ساتھ ۔ ہمیں beyond religion plain سوچنا ہو گا ۔ میں الحمد اللہ اپنے دین اور اپنے آقا حضرت محمد ص کی تعلیمات پر قائم ہوں ۔ وہ ساری کی ساری روحانیت کی بات ہے نہ کہ  جسموں کی ۔ یہ جسموں کی زندگیاں عارضی ہیں اور عارضی ہی رہیں گی ۔ ان کا بہترین مقصد پیار محبت ہی رہے گا نہ کہ  مال و دولت کا اکٹھا کرنا ۔ بہت خوش رہیں ۔ اللہ تعالی آپ سب کا حامی و ناصر ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply