پاکستان پوسٹ کے دیرینہ مسائل اور مراد سعید۔۔۔۔محمد عبدہ

یہ جنوبی کوریا کے دارلحکومت سیول کے مضافات میں ایک چھوٹے سے قصبے کے ایک ڈاکخانہ کا منظر ہے، اندر داخل ہوتے ہی ایک طرف ٹیبل پر مختلف سائز کے پارسل ڈبے پڑے ہوتے ہیں، ساتھ ہی ہر طرح کے پوسٹ والے لفافے، مارکر، پینسل، قینچی، ٹیپ، گوند حتی کہ نظر کی مختلف عینک بھی رکھی ہوتی ہیں، اور یہ سب سروس بالکل مفت ہے، کسی بھی چیز پر پیسے نہیں لئے جاتے بلکہ ساتھ ایک آدمی یا عورت بھی کھڑی ہوتی ہے جو ان سب کیلئے مدد کرتی ہے،
بس گھر سے اپنا خط، سامان لیکر آئیے ڈاکخانہ میں لفافہ، بکس میں پیک کیجیے اور پوسٹ کردیجئے، پورے کوریا میں ہر طرح کی ڈاک اگلے دن مطلوبہ مقام تک پہنچ جاتی ہے، جیسے ہی ڈاک بُک ہوتی ہے تو موبائل پر ایک میسج آ جاتا ہے اور ڈاک مقام پر پہنچنے کے بعد بھی میسج آ جاتا ہے۔
کوریا میں ڈاکخانہ کی یہ سہولت کسی بڑے شہر میں نہیں ہے بلکہ کوریا کے طول و عرض قصبہ گاؤں حتی کہ کسی پہاڑ اور جزیرہ پر بھی کوئی ڈاکخانہ ہے تو ایسی ہی سہولت اور سروس ملتی ہے۔
یہ سب بتانے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ کل ایک دوست کو کچھ کتابیں پوسٹ کرنے کیلئے کہا اور اسے ہدایت کی کہ کوشش کرکے کسی پرائیویٹ کورئیر کی بجائے پاکستان پوسٹ سے بھیجنا اور وہ خود بھی یہی چاہتا تھا کہ سرکاری ادارے کو فائدہ پہنچایا جائے، دوست کتابیں لیکر گیا تو ڈاکخانے والوں نے کہا ہمارے پاس پیکنگ کی سہولت نہیں ہے گھر سے پیک کرکے لائیں، وہ دوسرے ڈاکخانے گیا تو وہاں بھی یہی حال تھا۔ مجبوراً اس نے ایک لیپرڈ کورئیر کو نیٹ سے تلاش کرکے فون کیا تو گھر سے آ کر لے گئے خود پیکنگ کی اور پارسل بھیج دیا۔

چھ ماہ پہلے میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا اپنی کتابیں بھیجنے کیلئے ایک کورئیر سے بات ہوئی تو انہوں نے بہت معقول ریٹ پر گھر سے گھر تک سروس کا پیکج دیا لیکن میں نے نئے پاکستان میں سرکاری ادارے کو آزمانے کا فیصلہ کیا جو نہائت مایوس کُن رہا، فیصل آباد میں پہلے طارق آباد ڈاکخانے گیا تو سلاخوں والی ایک چھوٹی سے کھڑکی سے رُوکھا سا جواب آیا “واپس لے جائیں اور پیک کرکے لائیں، قریب ہی ایک بُک سٹور سے لفافے ،گوند خرید کر سب کو پیک کرکے واپس گیا تو ڈاکخانہ کا وقت ختم ہوچکا تھا، مجبوراً گھر واپس آ گیا۔
اگلے دن نشاط آباد ڈاکخانہ گیا تو وہاں بھی یہی کچھ چل رہا تھا، پیک شدہ کتابیں دیں تو سوالات کی بوچھاڑ کردی، کیا ہے ؟ کتابوں کے بیچ کچھ چھپایا تو نہیں ہے ؟ کھول کر دکھائیے، کھولنے کے بعد دوبارہ پیک کرنے کی  ذمہ داری بھی آپ کی اپنی ہوگی۔
گویا چھ ماہ میں کچھ بھی نہیں بدلا، ابھی سیالکوٹ سے ایک اور دوست کی شکایت سنی کہ اس کا ڈرائیونگ لائسنس ٹی سی ایس کے  ذریعے موصول ہوا ہے یعنی ایک سرکاری ادارہ اپنی ڈاک کیلئے بھی پاکستان پوسٹ استعمال نہیں کررہا تو پھر محترم وزیر مراد سعید صاحب کس نظام کی بہتری اور منافع کی نوید سناتے رہتے ہیں۔

دور کیا جائیں محترم وزیر کے اپنے ضلع سوات میں پاکستان پوسٹ کا برا حال ہے۔ جدید پروفیشنل اور تیز ترین کوریئر سروس تو دور کی بات ہے سوات میں محکمہ ڈاک کا عملہ ہی پورا نہیں، جبکہ چھوٹے ڈاکخانوں میں تو صرف ایک ایک اہلکار تعینات ہے، شہری خود ڈاک خانے جاکر ڈاک وصول کرتے ہیں۔ ضلع بھر میں 19 ڈاکخانے اور 52 برانچز تو موجود ہیں مگر اس میں عملہ 50 فیصد کم ہے، اسٹاف کی کمی سے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ڈاک کی ترسیل کا نظام بھی صحیح اور بروقت نہیں، پارسل گم ہوجاتے ہیں۔
اگر پاکستان پوسٹ کو ترقی دینا اور منافع بخش بنانا چاہتے ہیں تو ایک صدارتی نوٹیفکیشن کے  ذریعے ہر سرکاری ادارے کو پاکستان پوسٹ استعمال کرنے کا پابند کردیا جائے، تمام اراکین اسمبلی اور گریڈ سترہ سے اوپر ہر افسر کو اپنی  ذاتی ڈاک و پارسل کیلئے بھی پاکستان پوسٹ کا پابند بنایا جائے اور جو خلاف ورزی کرے اسے فوراً محکمانہ کاروائی کا نشانہ بنا دیں، اس کے ساتھ ساتھ محکمہ کی آمدنی بڑھانے کیلئے اس کے پرانے مسائل کو حل کریں جس پر نئی حکومت آنے کے بعد سے اب تک کوئی پیش رفت تو درکنار سوچا بھی نہیں گیا۔
قابل افراد پر مشتمل سیلز اور مارکیٹنگ ٹیم تشکیل دیں جو بڑے اداروں اور کمپنیوں کا بزنس لیکر آئیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

محترم وزیر صاحب آپ نے نومبر میں ایک پریس کانفرنس میں فرمایا تھا۔
پاکستان پوسٹ کے افسران اور عملہ باصلاحیت ہے‘ 13 ہزار پوسٹ آفیسز کو جدید بنایا جائے گا‘ پاکستان پوسٹ کے ریونیو میں اضافے کے لئے ہنگامی اقدامات کررہے ہیں‘ 25 شہروں میں ون ڈے ڈلیوری سروس اور 93 جی پی اوز میں ہم الیکٹرانک منی آرڈر شروع کرنے جارہے ہیں۔ عملہ گھر کی دہلیز پر منی آرڈر پہنچائے گا۔ پاکستان پوسٹ کو ملک بھر میں 85 فیصد رسائی حاصل ہے۔
کیا یہ سب سروس مہیا ہوگئیں ہیں اگر ہیں تو انکا معیار کیا ہے، دور دراز کے ڈاک خانوں میں یہ منی آرڈر، ون ڈے ڈلیوری تو چھوڑئیے عام ڈاک کی کیا حالت ہے اسی کا جائزہ لے لیں، عوام سے ہونے والی بدسلوکی، بدتمیزی پر ایک نظر ڈال لیں، پبلک ڈیلنگ والے عملے کو خوش اخلاقی اور مسکرا کر خوش آمدید کہنے کا ایک کورس ہی کروا دیں پاکستان پوسٹ کے منافع میں واضح فرق آ جائے گا۔

Facebook Comments

محمد عبدہ
مضمون نگار "محمد عبدہ" کا تعلق فیصل آباد سے ہے اور حالیہ کوریا میں مقیم اور سیاحت کے شعبے سے تعلق ہے۔ پاکستان کے تاریخی و پہاڑی مقامات اور تاریخ پاکستان پر تحقیقی مضامین لکھتے ہیں۔ "سفرنامہ فلپائن" "کوریا کا کلچر و تاریخ" اور پاکستانی پہاڑوں کی تاریخ کوہ پیمائی" جیسے منفرد موضوعات پر تین کتابیں بھی لکھ چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply