عورت مارچ۔۔۔۔نسرین غوری

میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا میں اس گھسے پٹے موضوع پر لکھوں گی۔ لیکن اس حوالے سے قدامت پسند تو ایک طرف نام نہاد لبرلز اور خاص کر ان خواتین نے اتنا گند مچایا جو خود تو اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزار رہی ہیں جو چاہتی ہیں پہنتی ہیں، جہاں مرضی جاتی ہیں کہ میں لکھنے پر مجبور ہوگئی۔ اس ضمن میں دو تین پہلو ہیں جن پر میں کچھ کہنا چاہو ں گی۔
نمبر ایک : فیمینزم یا تحریک نسواں کے بارے میں شاید نہ تو وہ خواتین جانتی ہیں جنہوں نے یہ احتجاج منظم کیا نہ ان کے ناقدین اور مخالف۔ تحریک نسواں ایک عالمگیر تحریک ہے جس کا بنیادی مقصد ذاتی، سماجی، سیاسی اور معاشی میدانوں میں دونوں اصناف کو برابری کے حقوق دلانا ہے۔ خواتین کو بھی وہی مواقع مہیا کرنا ہے جو حضرات کو حاصل ہیں۔ جیسے تعلیم، صحت، ووٹ کا حق۔اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق۔ اپنی مرضی کی تعلیم حاصل کرنے اور پروفیشن اختیار کرنے کا حق۔ یا اپنی مرضی سے گھریلو زندگی گزارنے کا حق۔
یاد رہے کہ مواقع مہیا کرنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ خواتین کو زبردستی ان کاموں کو کرنے کا کہا جائے جو ان کے کرنے کے نہیں ہیں۔ جیسے بعض نادان لوگ ہل میں بیل کی جگہ گائے جوتنے کو برابری کی مثال بنا کر پیش کرتے ہیں۔ کوئی ان سے کہے بھائی ایک بچہ پیدا کر کے دکھا دو۔ جو وہ نہیں دکھا سکتے کیونکہ ان میں اس کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔
Feminism is a range of political movements, ideologies, and social movements that share a common goal: to define, establish, and achieve political, economic, personal, and social equality of sexes. This includes seeking to establish educational and professional opportunities for women that are equal to those for men.

نمبر دو جس طرح ان تمام نعروں کو یکسر قبول کرنا ناقابل قبول ہے اسی طرح ان کو بیک جنبش قلم رد کردینا بھی ممکن نہیں۔ تمام نعرے اگر اچھے نہیں تھے تو تمام کے تمام برے اور قابل مذمت بھی نہیں تھے۔ اگر ایک ایک نعرے یا پوسٹر کو لگ الگ پڑھا جاتا تو پتا لگتا کہ ان پوسٹرز پر جتنے نامعقول نعرے درج تھے، کم و بیش اتنے ہی معقول نعرے بھی درج تھے۔
لیکن ہم جنرلائزیشن کی شوقین قوم ہیں جو گیہوں کے ساتھ گھن بھی چکی میں جھونک کے فارغ ہوکر بیٹھ جاتے ہیں۔ پھر اس پر ریٹنگ کا تڑکہ۔ تو مہربانوں نے صرف ان نعروں کو مقبولیت کے لیے پیش کیا جن پر بہت زیادہ لائکس، کمنٹس ملنے تھے اور جنہیں ہر شخص لعنت بھیج کر آگے شئیر کرنے میں ثواب کما سکے۔

نمبر تین : ہم مذمت اور ذلیل کرنے میں فرق نہیں کرتے۔ اگر ہمیں کسی بات سے اتفاق نہیں ہے تو ہمیں اس کی مذمت کرنی چاہیے نہ کہ اس شخص کی مسلسل تذلیل جس نے وہ بات کی ہے۔ اس تذلیل کے باعث متعلقہ بندہ اپنی بات پر مزید اڑ جاتا ہے ۔ عورت مارچ کے نعروں سے اگر آپ متفق نہیں ہیں تو آپ ان پر اعتراض کیجیے اور ان کا متبادل پیش کیجیے۔ لیکن ان عورتوں کی تذلیل سے آپ صرف اپنی تربیت اور تہذیب کی توہین کر رہے ہیں۔ ان گنتی کے چند پوسٹرز کے ردعمل میں نام نہاد اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ معاشرتی اقدار کے حامل شرفاء نے اپنے اندر کی غلاظت خوب خوب باہر نکالی ہے۔ اتنی غلیظ زبان کہ ان کی اپنی بہنیں اور بیٹیاں سنیں تو دانتوں میں انگلیاں دبا لیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نمبر چار: نائن الیون کے بعد سے ہم ایک انتہائی ریڈیکل اور پولارائزڈ ورلڈ میں رہ رہے ہیں۔ اور بین الاقوامی معاملات سے لے کر ذاتی تعلقات تک ہر معاملے کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں کہ “اگر تم ہم سے متفق نہیں تو تم ہمارے دشمنوں کے ساتھی ہویا ہماری مخالف رائے کے حامی ہو ۔ اور اگر ہمار ی رائے سے متفق نہیں تو بس ہماری مخالف رائے کے حامی ہو۔ کوئی تیسرا پہلو تو کسی موضوع کا ہو ہی نہیں سکتا۔ ہم خیالات کے فرق اور ٹکراو کو ذاتی دشمنی کے مترادف سمجھتے ہیں۔ اور جو شخص ہماری رائے سے متفق نہ ہو اس سے ذاتی دشمنی اور اس پر ذاتی حملوں پر اتر آتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply