زاہد مسعود کی بذلہ سنجی/آغر ندیم سحرؔ

حلقہ اربابِ ذوق کے خصوصی سیشن میں زاہد مسعود کے لیے بات کرنا اور اسے مرحوم کہنا انتہائی تکلیف دہ لگ رہا ہے،اسی حلقہ ارباب ِ ذوق میں زاہد مسعود کے ساتھ نشسیں شروع ہوئیں اور پھر یہ نشستیں دوستی میں بدل گئیں،ان کے ساتھ درجنوں نہیں سینکڑوں مرتبہ انارکلی میں بیٹھا،ان کے قہقہوں سے زندگی کشید کی،ان کے ساتھ سفر بھی کیا اور درجنوں تقاریب میں بھی شریک ہوا۔وہ بلا کے بذلہ سنج اور جملہ باز آدمی تھے،محفل میں ہوتے تو مرکز ِ نگاہ ہوتے،ان کے قہقہے سامعین کو اپنی جانب متوجہ رکھتے،وہ اپنی نظموں کی طرح انتہائی گہرے آدمی تھے۔ان سے بات کر کے،کسی موضوع پر مکالمہ کر کے احساس ہوتا کہ انھوں نے دنیا جہان کی کتب پڑھ رکھی ہیں،شاعر بھی بلا تھے اور نثر نگار بھی،نثر میں مزاح لکھتے تھے۔میرا ماننا ہے کہ مزاح وہی شخص لکھ سکتا ہے جس کا اندر آنسوئوں سے بھرا ہوا ہوتا ہے،زاہد مسعود ظاہری طور پر تو ایک مزاح نگار اور جگت باز آدمی تھے مگر اندر سے انتہائی دکھی تھے،معاشرے کی المناک کہانیوں کو اپنی نظموں میں سمونے والے،معاشرے کے دکھوں اور آنسوئوں کو اپنے مزاحیہ نثر پاروں کی شکل میں تحریر کرنے والے زاہد مسعود اپنی نوعیت کا اکیلا شخص تھا،انتہائی وضع دار اور تہذیب یافتہ۔
میں ۲۰۱۷ء میں اکادمی ادبیات پاکستان کی دعوت پرکل پاکستان اہل ِ قلم کانفرنس میں شرکت کے لیے اسلام آبادپہنچا تو برادر اختر رضا سلیمی نے حکم دیا کہ تمہارا کمرہ زاہد مسعود سے شیئر ہوگا،میں اندر سے خوف زدہ ہو گیا،وہ اس لیے کہ زاہد مسعود سے دوستی اور بے تکلفی اپنی جگہ،بہرحال وہ ایک سینئر قلم کار تھا اور میری طرف سے جانے ان جانے میں کوئی ایسی بات یا عمل نہ ہو جائے جس سے انھیں دکھ پہنچے۔میں نے اختر رضا سلیمی سے کہا کہ آپ انھیں ڈاکٹر امجد طفیل کے ساتھ ٹھہرا دیں، کہنے لگے ان کے ساتھ ڈاکٹر ضیاء الحسن ہوں گے اور زاہد مسعود نے خود ہی آپ کا نام منتخب کیا ہے۔خیر میں کمرے میں پہنچا تو زاہد مسعود نے جس بے تکلفی سے میرا استقبال کیا اور پھر وہ چار دن ایسے گزرے جیسے میرا کوئی لنگوٹیا دوست میرے ساتھ ہے۔اس سفر اور قیام کی یادوں پر کئی کالم لکھے جا سکتے ہیں،انھوں نے بہت سے موقعوں پر میری ہمت بندھائی،مجھے ایک خیرا خواہ کی طرح مشوروں سے نوازا۔اسلام آباد کے سفر کے بعد ان سے رابطہ تھوڑا عرصہ تو رہا مگر ایک دم انھوں نے محافل میں آنا جانا چھوڑ دیا،شروع میں تو یہ ہی محسوس ہوا کہ وہ کہیں مصروف ہوں گے مگر دوستوں کی طرف سے اطلاع ملنے پر معلوم ہوا کہ وہ کسی ایسی بیماری کا شکار ہو چکے ہیں جس میں ان سے ملنا ناممکن ہو چکا ہے،وہ نہ کسی کو پہچانتے ہیں اور نہ ہی انھیں کچھ یاد ہے۔ہم سب دوستوں کے لیے یہ خبربہت تکلیف دہ تھی،ہماری محفلیں یک دم سنسان ہو گئیں ۔ہماری محفلوں سے قہقہے رخصت ہو گئے،اس کے بعد ہم جب بھی بیٹھتے،زاہد مسعود کو یاد کرتے ،ان کی نظموں پر بات ہوتی،ان کی بذلہ سنجی اور زندگی سے لبریز قہقہے بطور خاص موضوعِ گفتگو ہوتے،افسوس آج زاہد مسعود کے ساتھ ان کے قہقہے اور یادیں،سب رخصت ہو گیا۔
زاہد مسعود کی باتوں اور جملوں میں جیسی شوخی، ندرت، برجستگی،شگفتہ پن،طنز،گھائوبے ساختگی اور سادگی پائی جاتی تھی،وہ فی زمانہ مفقود ہے۔وہ محفل میں ہوتے تو یقین کریں مرکز نگاہ بھی ہوتے اور مرکز گفتگو بھی،زبان کا ذائقہ جو ان کے ہاں تھااور کہیں نہیں تھا۔یہ زبان کا لطف ہی تھا کہ ان کی پھبتیاں بھی پھول معلوم ہوتے۔شورش کاشمیری نے عبدالمجید سالک کے بارے کہا تھا:’’بسا اوقات سالک صاحب کی پھبتی ننگی بھی ہو جاتی مگر وہ جس رخ سے پھبتی کستے،طعن توڑتے،مصرع اٹھاتے ،بذلہ فرماتے، اس میں ایک خاص سرور تھا کہ خود پر چوٹ کھانے والوں کی زبان پر بھی کلمہ تحسین ہوتا‘‘۔زاہد مسعود بھی ایسے ہی تھے بلکہ اس فن میں بڑے ہی مشاق تھے۔کوئی بھی پھبتی ان کی زبان پر آکر رہ نہیں سکتی تھی،ان کی اصل خوبی یہی تھی کہ وہ الفاظ سے مزاح پیدا نہیں کرتے تھے بلکہ ظرافت ان کے دماغ سے اگتی تھی ،جیسے عبد المجید سالک،ابراہیم جلیس یا پھر پطرس بخاری اور مشتاق احمد یوسفی۔ہمارے ہاں بہت کم ایسے مزاح نگار ہیں جو فحاشی، پھبتی، طنز،ہجو، تضحیک اور جگت کے فرق کو سمجھتے ہیں،زاہد مسعود اس تفریق سے آگاہ تھے،وہ مزاح کے دوران کبھی بھی اپنی حد سے باہر نہیں نکلے۔
زاہد مسعود جو بھی کام کرتے،انتہائی دل جمعی سے کرتے،اپنے ذہنی سفر میں جس طرف بھی نکل جاتے پورے ذوق و شوق اور انہماک سے اس راہ پر چلتے اور نئی نئی سرزمینوں کا کھوج نکالتے رہتے۔میں نے زاہد مسعود کی نشستوں،باتوں اور مکالموں سے بہت کچھ سیکھا،وہ مجھ سے بہت سینئر تھے مگر ہمیشہ دوستوں کی طرح رہنمائی کی، لاہور میں آنے کے بعد جن احباب سے دلی تعلق قائم ہوا،ان میں ایک زاہد مسعود بھی تھے۔
آج جب برادر نواز کھرل نے ان کے لیے خصوصی سیشن کا اہتمام کیا اور مجھے گفتگو کا کہا تو میرے سامنے ماضی ایک فلم کی طرح چل رہا تھا،کی بورڈ پرانگلیاں چل رہی ہیں اور دماغ میں یادیں گتھم گتھا ہیں،کس یاد اور واقعے کو احاطہ تحریر میں لائوں،فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے۔خدا ان کی اگلی منازل آسان فرمائے،ایک زندہ دل شخص زیر زمین چلا گیا،ہم مدتوں اسے تلاشتے رہیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply