اصطلاحات اور ان کے غیر متعین مصادیق

کوئی بھی معاملہ کرنے سے پہلے اس سے متعلق باتوں اور اصطلاحات کو غیر مبہم الفاظ میں لکھ لینا چاہیے۔ یہ نہ صرف قانونی ضرورت ہے بلکہ عوامی ضرورت بھی ہے۔ ایک صاحب میرے پاس مالیات سے متعلق فتویٰ پوچھنے آئے۔ کہنے لگے کہ میں سو والی کاپیاں خریدتا ہوں، کیا میں سو والی کاپی ایک سو دس میں بیچ سکتا ہوں۔ میں نے کہا کہ اتنا منافع تو بالکل جائز ہے۔ وہ بھی مطمئن ہوگئے اور میں بھی۔ میری عادت ہے کہ موسم کے مطابق سائل کا اکرام کرنے کی ضرور کوشش کرتا ہوں۔ ان کے لیے بوتل منگوائی۔ جتنی دیر میں بوتل آتی، کچھ اور سوال جواب شروع ہوگئے۔ اچانک معلوم ہوا کہ کاپی سے مراد نوٹوں کی گڈی ہے جو وہ بینک سے نئے نوٹوں کی لیتے ہیں اور آگے بیچتے ہیں اور ان کا گاہک شادی کے ہار بنانے والا طبقہ ہے۔ میں نے فوراً اپنے فتوے سے رجوع کیا۔ اب وہ سخت ناراض۔ میں نے عرض کیا کہ آپ نے اصل بات کو چھپا کر اپنی مرضی کا جملہ مجھ سے کہلوایا ہے۔ آپ یوں کیجیے کہ پوری بات لکھ کر دار الافتاء میں جواب کے لیے بھجوائیے۔ فتویٰ صرف صورتِ مسئولہ کا ہوتا ہے اور صرف سائل کے لیے ہوتا ہے۔ بہرحال ان کو اکرام سے رخصت کیا۔
ایک صاحب نے ایک کتاب لکھوائی۔ معاملہ لکھا پڑھی سے طے ہوا اور ایک معاہدہ لکھا گیا جس میں طویل شقیں تھیں۔ میں نے کام مکمل کر دیا اور مجھے آن لائن پیمنٹ ہوگئی۔ کتاب چھپ کر سامنے آئی تو اس پر ایک ایسے معروف مصنف کا نام لکھا تھا جن کی کئی کتابیں مارکیٹ میں موجود ہیں۔ میں سخت جِزبِز ہوا۔ مجھ سے معاملہ کرنے والے صاحب نے معاہدے کی دستخط شدہ دستاویز میرے سامنے رکھ دی (محاورہً تو منہ پر دے ماری) کہ اس میں یہ ذکر کہیں نہیں ہے کہ شائع شدہ کتاب پر مصنف کا نام بھی آپ کا ہوگا۔ یہ کتاب اب ہر جگہ مصنف کے بجائے ایک اور نام سے چل رہی ہے۔
نام یا اصطلاحات کے مصادیق کا مسئلہ بہت نازک، پرانا، اور بِنائے فساد ہے۔ ایک صاحب انگریز کو دنیا بھر کی فحاشی کا ذمہ دار بتاتے ہیں۔ عرض کیا کہ آپ کے بڑوں نے تو آبپارہ میں چینی مساجرز کے خلاف جہاد فرمایا تھا نہ کہ امریکیوں یا برطانویوں کے خلاف۔ کہنے لگے کہ چینی بھی انگریز ہوتے ہیں۔ ایک قوم کی قوم ہے جس کے نمائندے مغرب کو برا بھلا کہتے ہیں اور ساری خرابیوں کی جڑ مغربیت کو بتاتے ہیں۔ ان میں سے ایک نمونے سے پوچھا کہ مغرب کہاں ہے؟ مغرب کی طرف منہ کرکے تو ہم نماز پڑھتے ہیں، تم لوگ عجیب ہو کہ قبلے کو برا کہتے ہو۔ اس پر تو قہقہہ پڑا لیکن جب اس سے پوچھا کہ مغرب میں کون کون سے ملک ہیں تو جناب نے یورپ و امریکہ سے لے کر جاپان تک سب گنوا مارا۔ معلوم ہوا کہ ان لوگوں نے اپنے ملک اور سعودی عرب کے علاوہ ساری دنیا کو مغرب سمجھ رکھا ہے اور اسی کو فی سبیل اللہ گالی دیتے ہیں۔
یہی حال جمہوریت، خلافت، سامراج، سیکولر ازم، انسانیت، شہادت، روشن خیالی اور دیگر اصطلاحات کا ہے. جدید سیاسی اصطلاحات کی زبان میں بات کریں تو دنیا کی معلوم تاریخ میں اولین سیکولر جمہوریت حضرت عمر کا دورِ حکومت تھا. مثالی سیکولر جمہوریت کی جو صفات گنوائی جاتی ہیں وہ آج یکجا کہیں نہیں پائی جاتیں البتہ حضرت عمر کے دور میں مل جاتی ہیں. ایک غریب مسافر خاندان کو روٹی کپڑا اور سہولیات فراہم کرنے کے لیے اور سربراہِ مملکت کا اپنی بیوی کو زچگی کے لیے رات کو جنگل میں لے جانا تو آج بھی ممکن نہیں ہے. لیکن واضح بات ہے کہ اصطلاحات کے تفاوت کی وجہ سے حضرت عمر کے دور کو سیکولر جمہوریت کہنا کارے دارد ہے. سیرت النبیؐ میں علامہ شبلی نے حضرت محمد علیہ السلام کی بعثت کو فرسودہ عقائد و خیالات کی تاریکیاں چھٹنے اور روشنی کی طرف جانے والا دور یعنی روشن خیال دور لکھا ہے۔ اب اسے ہماری کم قسمتی ہی کہیے کہ ہم روشن خیالی کو مشرف دورِ حکومت والی روشن خیالی سمجھتے ہیں اور اس کے علاوہ کچھ سمجھنے کو تیار نہیں ہیں۔ مغربی (مراد غیر مسلم) مفکرین اب کہیں جاکر اس بات پر متفق ہوئے ہیں کہ انسانیت کے احترام کو بنیادی حیثیت دی جائے۔ جس دن سے انسانیت کا لفظ غیر مسلموں نے اٹھایا ہے، انسانیت پر لمبی لمبی بحثیں کرنے اور انسانِ کامل جیسی کتابیں لکھنے والے مذہب کے پیروکار انسانیت کی اصطلاح کے “اسلامی” ہونے ہی سے منکر ہوگئے ہیں۔ شہادت کی اصطلاح اتنی بے توقیر ہوئی کہ اب کتے بلے بھی شہادت کی سند دیے جانے لگے ہیں۔ سامراج کو ہدف بناکر گالیوں سے نوازنے والے آج کم رہ گئے ہیں لیکن اب بھی کسی پرانے خرابکار فسادی کی زبان سے یہ لفظ کبھی تراوش ہو جاتا ہے۔
اور تو اور، سیاسی ناکارگی کی وجہ سے کہیں جمہوریت کا لفظ گالی بن گیا ہے تو گلے کاٹنے والے نائیوں کی وجہ سے خلافت ننگِ انسانیت بن گئی ہے، اور چلتی گاڑی میں گینگ ریپ کرنے والے مولوی اور غریبوں کی جمع پونجی کو مضاربے کی ضرب سے فنا کر دینے والے مفتی نے مولوی اور مفتی کی مذہبی اصطلاح میں نیا جہانِ معنی سمو دیا ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ گدھے کو فیلڈ مارشل کا رینک لگانے سے اور بھیڑیے کو خلیفہ کے عہدے پر تعینات کرنے سے گدھا فیلڈ مارشل اور بھیڑیا خلیفہ نہیں بن سکتا۔ صحابیت اور بدریت بہت بڑے بڑے شرف ہیں اور اسلامی تاریخ و فقہ میں ان اصطلاحات کی نمایاں حیثیت ہے لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانے والے بدری صحابی کو کوڑے مارتے وقت ان اصطلاحات کو کسی نے ذکر نہیں کیا۔ کوئی کر بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ اسلام ظلم و جور کو ختم کرنے کا نعرہ لے کر آیا تھا نہ کہ کسی عالی نسبت یا عالی نسب مجرم کو پناہ دینے، اور یہ سزا حضرت محمد علیہ السلام نے خود دلوائی تھی۔ اگر یہ سزا نہ دلوائی جاتی تو حکومتی رِٹ اسلام میں وجود ہی نہ پاسکتی۔
آخری بات یہ ہے کہ اصطلاح کے وہی معنی لینا چاہییں جو چلن دار اور معروف ہیں نہ کہ ان میں اپنے مزعومہ تصورات یا خواہشات کو بھرنا۔ لبرل ازم وہی ہے جسے اہلِ مغرب کہتے ہیں نہ کہ اس کی تعریف اہلِ اسلام کی ترجمہ شدہ کتابوں سے لے کر اقتباس کی جائے گی۔ نبی، رسول، وحی، نماز، زکوٰۃ، خلافت اور حدیث وغیرہ وغیرہ کے معنی اسلام کی امہات الکتب سے اخذ کیے جائیں گے نہ کہ مثلاً علامہ غلام احمد پرویز سے۔ جمہوریت کا معنی مغربی اہلِ علم ہی بتائیں گے تو معتبر ہوں گے نہ کہ ابوالکلام جیسا عبقری یا کوئی کنٹینر نشیں جغادری۔ جب لشکرِ اسلام قیادتِ نبوت میں مکہ میں داخل ہو رہا تھا تو جنابِ عباس ابوسفیان کو لے کر ایک ٹیلہ پر کھڑے تھے۔ حیرت زدہ تھے کہ اسلام کے لشکریوں کی اتنی بڑی تعداد کہاں سے امڈ آئی۔ آخر بول پڑے: ابو الفضل، تمھارا بھتیجا “بادشاہ” ہوگیا ہے۔

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply