مستقل اور پائیدار حل۔۔۔ایم۔اے صبور ملک

دیر آید درست آید ،حکومت نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت ملک بھر میں کالعدم تنظیموں کے خلاف کریک ڈؤان شروع کردیا،وزیر مملکت شہریار آفریدی کا کہنا ہے کہ مقاصد کے حصول تک موجودہ آپریشن جاری رہے گا،جنرل ضیاء دور میں نام نہاد جہاد افغانستان کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ملک بھر میں جس طرح مذہبی بنیادوں پر برسات میں خودرو جڑی بوٹیوں کی طرح اُگ آنے والی ان تنظیموں نے جس طرح پاکستان کو نقصان پہنچایا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں،خصوصاً 90کی دہائی میں مذہبی بنیادوں پر جو قتل غارت گری ہوئی اوربعد ازاں مشرف دور میں ہونے والے خودکش دھماکوں نے ہزاروں پاکستانی شہری ہم سے چھین لئے جن میں پاکستان پیپلز پارٹی کی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو بھی شامل ہیں،افواج پاکستان اور قومی سلامتی کے دیگر اداروں نے اس جنگ میں جو قربانیاں دیں وہ ہماری ملکی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہیں ،سوات ااپریشن ،ضرب عضب اورآپریشن رد الفساد اس سلسلے کی کڑیاں ہیں،لیکن سوال اس بات کا پیدا ہوتا ہے کہ کیا موجودہ آپریشن سے صورتحال مکمل طور پر قابو میں آجائے گی،کیونکہ ماضی میں بھی یہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے لوگوں کو حراست میں لیا گیا،لیکن کوئی ٹھوس شہادت اور گرفتاری کی وجہ نہ ہونے کے باعث ان لوگوں کو عدالت سے ریلیف مل گیا،ایک بار پھر سے حکومت بنا ہوم ورک کئے ان تنظیموں کے خلاف جو ایکشن لے رہی ہے اس سے بظاہر تو یوں لگتا ہے کہ مستقبل میں کہیں پھر وہ پریکٹس نہ دوہرائی جائے جس کی ماضی میں کئی مثالیں موجود ہیں،آخر ہم اس مسئلے کے ایسے پائیدار حل کی جانب کیوں نہیں جاتے جس سے ہمارا ملک امن کا گہوارہ بن سکے؟صرف کالعدم تنظیموں کے خلاف کریک ڈؤان سے یہ مسئلہ وقتی طور پر تو حل ہو جائے گا لیکن کچھ عرصے بعد جب یہ لوگ باہر آجائیں گے اور جس کی قوی امید ہے تو پھر کیا ایک اور آپریشن ہو گا؟پاکستا ن بلاشبہ اسلام او ر کلمہ طیبہ کے نام پر وجود میں آیا،لیکن جناح کی نظروں میں پاکستان کوئی کٹھ ملائیت پر مشتمل سٹیٹ نہیں تھی بلکہ پاکستان قرآن مجید کے زریں اُصولوں کے مطابق ایک اسلامی فلاحی مملکت ہونا تھی لیکن تحریک پاکستان کے مخالف ملا ؤں نے جناح کے جلد رخصت ہوجانے اور پاکستان میں پے درپے حکومتوں کی تبدیلی اور 1958کے مارشل لاء کافائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں جان بوجھ کر فرقہ واریت کا بیج بویا اور جنرل ضیاء دور میں ان کو اپنی من مانی کرنے اورکھل کر کھیلنے کا موقع مل گیا،اور پھر جو مذہبی فرقہ واریت کی آگ بھڑکی اس نے ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا،اور ہم قرآنی نظام حیات کی بجائے ملاازم کے ہو کر رہ گئے،اور ملک میں ہر دوسرے شخص نے مذہب کے نام پر اپنی ڈیڑھ انچ کی الگ مسجد قائم کر لی،جسکے عملی مظاہر ے اور مثالیں ہم آئے روز دیکھتے ہیں،ایک مسلم ریاست میں اقلیتیں تو دور کی بات خود مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کی جان عزت و آبرومحفوظ نہیں،حالیہ دو مثالیں لے لیں ،پنجاب کے سابق وزیر اطلاعات کی اقلیتوں کے حوالے سے نازیبا گفتگو،اور یوای ٹی لاہور میں لباس کے معاملے پر طالبعلموں پر دباؤ۔کیا یہ جناح کا پاکستان ہے،مذہبی انتہا پسندی اور ملائیت نے آج ہماری زندگی کے ہر شعبے کو آکٹوپس کے پنجوں کی طرح اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے،ایسے میں صرف کالعدم تنظیموں کے خلاف کریک ڈؤان نہیں بلکہ اس کا مستقل اور پائیدارحل ہونا چاہئے تاکہ ہماری آنے والی نسلیں اس جہنم سے آزاد ہو کر زندگی بس کرسکیں ،پور ی اسلامی دنیا اور پاکستان میں موجود ڈی ایچ اے ،بحریہ طرزکی ہاوسنگ سوسائیٹز میں مسجد کا نظام ایک اتھارٹی کے تحت ہے جہاں فرقہ واریت ،مذہبی انتہا پسندی اور تنگ نظری سے بالاتر تعلیم یافتہ شخص کو مسجد کا امام مقرر کیا جاتا ہے،اور ہر چند ماہ بعد اسکا تبادلہ دوسری مسجد میں کردیا جاتاہے ،امام مسجد کی باقاعدہ تنخواہ مقرر ہوتی ہے،اور اسکے افعال وکردار پر گہری نظر رکھی جاتی ہے،مبادا کوئی ایسی حرکت نہ سرزد ہوجائے جس سے معاشرتی طور رپر بگاڑ پیدا ہو،جمعے کا خطبہ باقاعدہ سرکاری طور پر جاری کیا جاتاہے اور مسجد کا لاؤڈسپیکر ماسوائے اذان،خطبہ جمعہ اوراہم اعلانات کے استعمال نہیں ہوتا،لیکن پاکستان میں دی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن کو چھوڑ کر ہم نے پورے ملک میں مولوی کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے،اور اس کا نتیجہ یہ کہ ہمیں ہرچند سال بعد ان کے خلاف کوئی نہ کوئی آپریشن کرنا پڑ جاتا ہے،جس سے وقتی مسئلہ دب جاتا ہے،لیکن کچھ عرصے بعد پھر کوئی ملا عبدالرشیدلال مسجد اور ملا خادم حسین رضوی اٹھ کر حکومت کی رٹ کو چیلنج کرکے ریاستی مشینری کو جام کرکے رکھ دیتا ہے،اور ان ملاؤ ں کے بہکاوے اور برین واشنگ کے شکار لوگ اپنے فرقے کے علاوہ دوسرے فرقے اور مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی زندگیاں اجیرن بناکررکھ دیتے ہیں،جیسا کہ فیاض الحسن چوہان نے کیا کیونکہ موصوف کی سیاسی تربیت اور سیاسی زندگی کا آغاز جماعت اسلامی سے ہوا تھا،اور اپنی 8ماہ کی وزارات کے دوران ہر دوسرے دن موصوف کی جانب سے گالی گلوچ اور بدتمیزی کے مظاہرے دیکھنے کو ملے،ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر حکومت اور ریاستی ادارے واقعتا پاکستان کو مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت سے پاک بنانا چاہتے ہیں صرف کالعدم تنظیموں کے خلاف کریک ڈؤا ن ہی تک محدود نہ رہیں ،پاکستان میں مسجد اور مولوی کے ادارے کو باقاعدہ سرکاری چھتری تلے لایا جائے ،اور فرقہ واریت پر مبنی دینی مدارس کا نصاب بدل کر یکساں نصاب نافذ کیا جائے ،ساتھ ساتھ مساجدکو سرکاری تحویل میں لے کر مولوی کی اجارہ داری ختم کی جائے ،اور جمعے کا خطبہ پورے پاکستان میں یکسا ں کرنے کے لئے وزارت مذہبی امور کو متحرک کیا جائے ۔تاکہ ملک بھر جاری مذہبی فرقہ واریت اور انتہا پسندی کا خاتمہ ہوسکے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply