کنزرویٹو مذمت کی “مذمت”۔۔۔۔روبینہ فیصل

کنزرویٹو لیڈر اینڈریو سکیر کا مقبو ضہ کشمیر میں ہو نے والے انڈین ٓرمی پر کشمیری آزادی پسندوں کے حملے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے چالیس فوجیوں کی مذمت میں جاری بیان پڑھا :
“کینیڈا کے کنزویٹیو زکشمیر میں انڈین آرمی پر، دہشت گرد تنظیم جیش محمد کے حملے کی مذمت کرتے ہیں اور ہم پاکستانی حکومت کو دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے کے وعدے کی یاد دہانی کرواتے ہیں ۔ دہشت گردوں کے لئے کوئی محفوظ جنت نہیں ہو نی چاہیئے ۔کنزرویٹیوزاس خطے میں اپنے سکیورٹی پارٹنر بھارت کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حمایت جاری رکھیں گے۔انڈیا اور کینیڈا کی دہشت گردی کے خلاف پارٹنر شپ تاریخی ہے اور وہ دونوں اسے ختم کرنے کے خلاف ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ انڈیا پاکستان کو اس مسئلے کا پرا من حل نکالنا چاہیئے ۔ اور ہم دونوں ممالک کے خطے میں استحکام پر زور دیتے ہیں ۔ ”
اس بیان میں تعصب ، جانبدار ی اور تاریخی حقائق سے نا آشنائی کی بو آتی ہے ۔ فوجیوں کی موت پر اظہار افسوس ضرور کریں مگرکنزرویٹوز کی طرف سے یہ بیان نہ صرف پاکستان کے خلاف یک طرفہ ، بغیر کسی ثبوت کے ایک ناسمجھی اور کم علمیت کا مظاہرہ ہے بلکہ دنیا میں انسانی حقوق ، امن اورسماجی انصاف کے نعروں کے ساتھ بھی ایک سنگدلانہ مذاق ہے ۔ اس بیان کو پڑھ کر میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی ہوں کہ کیا خون کا رنگ پیسے کے رنگ کی جھلک سے تبدیل ہو جاتا ہے ؟ ایک غریب کا خون بنا آواز کے سڑکوں پر لاوارث بہتا رہتا ہے اور یہ مغربی تہذیب یافتہ ممالک کے انسانی حقوق کی آواز بلند کرنے والے بڑے بڑے لیڈرکیسے اندھے اور بہرے بنے بیٹھے رہتے ہیں ۔ یہی انڈین فوج ہے جس کی پیلیٹ گنوں سے مقبوضہ کشمیر میں اٹھارہ ماہ کے بچے سے لے کر  ۸۰ سال کے بوڑھے کی بینائی چھینی جارہی ہے ۔ یہی وہ انڈین آرمی ہے جس کی اندھی گولیوں سے ماوں کی کوکھ کے اندر بچے ہلاک ہو رہے ہیں ۔ ستر سالوں سے مائیں بچوں کے جنازوں پر ماتم کناں ہیں ، باپ جوان بچوں کے جنازوں کو کندھا دے دے کر نڈھال ہیں ، بچے اپنے سامنے باپوں کو مرتے دیکھتے ہیں ، بھائیوں کے سامنے بہنوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا جا تا ہے ، بہنوں کے سامنے بھائیوں کے سینوں کو گولیوں سے چھلنی کر دیا جا تا ہے ۔۔ یہ سات لاکھ  بھارتی فوج ، موت بنی کشمیریوں کے سروں پر منڈلاتی رہتی ہے ۔۔ ان حالات پرآپ کی پر زور مذمت کا انتظار ہے ۔
اگر وہ چالیس فوجی جوان حملے میں مارے گئے تو حالتِ جنگ میں تو فوجی مرتے ہی ہیں ۔یا تو آپ امیرانہ شان سے کہہ دیں کہ مقبوضہ کشمیر حالتِ جنگ میں نہیں ہے ؟ اگر وہ انڈیا کی دوسری ریاستوں کی طرح ایک ریاست ہے تو وہاں اتنی تعداد میں فوج کیا کر رہی ہے ؟ کھیتوں میں کام کرنے گئی ہے یا سڑکیں اور پل بنانے ؟ یا ان گھروں کی دوبارہ سے تعمیر کرنے جنہیں وہ خود کسی معمولی سی غلطی کی پاداش میں بے دردی سے جلا دیتی ہے ؟ کیا کنزرویٹو لیڈر نے کبھی اتنی تعداد میں فوج کی کشمیر میں موجودگی پر مذمت کی ہے، مذمت تو دور کی بات کبھی سوال بھی اٹھایا ہے ؟
پاکستان، کہنے کی بات نہیں ، ہر باشعور انسان سمجھتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جس طرح استعمال ہوا ہے اور جتنا نقصان پاکستان کا ہوا ہے کسی اور کا نہیں ہوا۔۔ کبھی اس بے گناہ انسانی خون کے ضیاع پر جو پاکستان کی زمین پر اسی دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کے جرم میں ہو رہا ہے ، جو نہ کسی پر قابض ہیں اور نہ مقبوض ، ایک آزاد ملک کے شہری ہیں مگر مارے جا رہے ہیں کیااس پر کبھی مذمت کی ؟
جناب!!مذمتی بیان کا آغاز وہاں سے کریں جب 1948میں کشمیرمیں چھڑنے والی ہند وپاک جنگ کو ، انڈیا کے اس وقت کے پردھان منتری نہرو نے یو این سکیورٹی کونسل کے پاس جا کررکوایا تھا ۔ اور اس کی مداخلت پر جنگ اس ڈیل کے بعد رک گئی تھی کہ پاکستانی فوجیں واپس چلی جائیں اور انڈین اپنے فوجیوں کی تعداد کم کر دے اس وقت تک جب تک کشمیری عوام کی رائے سے ان کی قسمت کا فیصلہ نہیں ہوتا۔ انڈیا کی تقسیم کے وقت جس بے شرمی کے ساتھ کشمیری عوام کے ساتھ جو نا انصافی کی گئی کیا آپ کو اس کا ادراک ہے ؟کشمیر، ایک مسلمان اکثریت والی ریاست تھی جس کا راجہ ہندو تھا اور یہ اصول بنایا گیا تھا کہ ہندو اکثریت والی ریاستیں ہندوستان کا حصہ بنیں گی اور مسلمان اکثریت والی ریاستیں پاکستان کا مگرکشمیر کے ہندو راجا نے جلد بازی اور بغض میں ہندوستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا ،جسے کشمیری عوام نے نامنظور کیا اور تب سے اب تک عوام کی رائے کو گولیاں مار کر قتل کیا جا رہا ہے ۔۔ اور آزادی اظہار کے اس دور میں جب جانوروں کے حقوق پر بھی موم بتیاں جلا کر حلق پھاڑ پھاڑ کے نعرے لگائے جاتے ہیں ،مگر ان معصوموں کی زبان بندی کا کام جاری ہے ۔ کیا آپ ایسا سلوک آزادی کا مطالبہ کر نے والے صوبے کیوبک کے لوگوں کے ساتھ کر نے کا سوچ سکتے ہیں ؟ کیا آپ نے ریفرنڈم کا راستہ نہیں اپنایا تھا ؟ اگر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کشمیر میں یفرنڈم کروانے کے وعدے سے مکر رہی ہے تو اس کی مذمت بنتی ہے یا نہیں ؟
اگر آپ انڈیا کے پروپیگنڈے یا اس کی بھاری بھر کم معشیت کی وجہ سے ، بغیر کسی ثبوت کے اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ پاکستان، کشمیری آزادی پسندوں کو سپورٹ کرتا ہے تو مان بھی لیتے ہیں مگر بات تھوڑی اورآگے بھی بڑھاتے ہیں ۔۔
کیا آپ کو یاد ہے کہ 1971 تک پاکستان کا ایک اور صوبہ بھی تھا ، اور اسے مشرقی پاکستان کہا جاتا تھا ۔ وہاں مرکز کی طرف سے ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف جب بغاوت اٹھی تو جانتے ہیں ان کے اس وقت کے دہشت گرد ( آزادی حاصل کرنے کے بعد وہی ریاست کے تخریب کار اور دہشت گرد ، فری ڈم فائٹر کہلاتے ہیں )،مکتی باہنی کے نام سے بننے والی یہ پاکستان کی باغی تنظیم سرحد پار کر کے کہاں ٹریننگ لینے جا تی تھی ؟ اور اس وقت کی انڈیا کی پردھان منتری اندر گاندھی نے کیا فرمایا تھا ؟
” ہم سرحد پار لوگوں کا خون بہتے دیکھیں ، ان پر ظلم اور نا انصافی ہو تے دیکھیں اور خاموش رہیں ؟ ”
مغربی پاکستان کے خلاف بنگالیوں کی لبریشن وار میں، کیا انڈیا نے اسے پاکستان کا اندرونی معاملہ سمجھ کے چھوڑ دیا تھا ؟ کیا انڈیا نے مکتی باہنی کو اپنے ملک کے اندر ٹریننگ نہیں دی تھی ؟ ایسا بہت فخر سے بتا یا جاتا ہے اس سے کوئی انکار نہیں کرتا کیونکہ پاکستان کو توڑنے کے بعد اندرا گاندھی نے فخر سے کہا تھا; “آج میں نے نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے” ۔تو کیا اینڈریو سر پیچھے تاریخ میں جائیں گے اور ان دہشت گردی کے کیمپوں کو سپورٹ کر نے والے انڈیا کی مذمت کریں گے ؟ جس کے بدلے پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا تھا ۔۔ اور اگر تب ناانصافی اور ظلم پر پڑوسی مداخلت کو حق سمجھتے تھے تو اب قانون کیوں بدل گیا ؟پاکستان سے آزادی کے طلب گار فری ڈم فائٹر اور انڈیا سے آزادی کے طلبگار دہشت گرد کیسے ہو گئے ؟
تاریخ میں نہ بھی جائیں ۔۔ آج میں رہتے ہو ئے کیا آپ نہیں جانتے کہ پاکستان کے صوبوں ،بلوچستان اور سندھ میں تحریب کار اور باغی عناصر کو کس کی پشت پناہی حاصل ہے ؟ کیا وہ پاکستان کا اندرونی معاملہ نہیں ؟ اور پاکستان کے اندر ہو نے والے دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کنزرویٹوز کو کیا بات روکتی ہے ؟ پیسے کا رعب یا بے ضمیری ؟ ، یہاں بھی ، کینیڈا کے اندر رہتے ہو ئے بھی،کیاان پاکستانیوں کو جو اپنی ماں کے خلاف بولتے ہیں انڈیا اپنے ملک میں اور یہاں بھی ان کی کھلم کھلا مالی، جذباتی اور اخلاقی مدد نہیں کرتا ؟نام جاننا چاہیں گے تو بچے بچے کو پتہ ہو گا ۔۔ کسی سے بھی پو چھ لیں ۔۔ یہ وہ اوپن سیکرٹ ہیں جو سب کو پتہ ہے مگر لب کشائی کا نہ کوئی فائدہ نظر آتا ہے اور نہ کوئی حوصلہ کرتا ہے ۔ یہ ایک مشقت لاحاصل ہے ۔ پاکستان کی حمایت کرنے والوں کو خریدنے والا کوئی نہیں،ان کی اخلاقی حمایت کرنے والا بھی کوئی نہیں اس لئے سب چپ رہتے ہیں مگر پاکستان کے خلاف بولنا ایک سود مند بزنس ہے ، اس لئے بہت سارے کام چور ، بے ضمیرے اس گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں ۔
جناب اینڈریو صاحب !۱ آپ نے مذمت کرنے کی ٹھانی ہی ہے تو کچھ مذمتیں اور بھی کر لیں کیونکہ خون کا رنگ تو ایک ہی ہو تا ہے، مرنے والے کے رشتے دار بھی ایک ہی جیسے ہو تے ہیں ۔۔ وہی بد نصیب ماں باپ ، ویسے ہی بیوی بچے ، اسی طرح بہن بھائی ۔دوست یار ، سب انسانوں کا سب کچھ ایک جیسا ہی ہو تا ہے ، بس نظریہ ضرورت کے تحت لفظوں کے معنی بدل جاتے ہیں اسی لئے انڈیا کا پاکستان کے خلاف بنگالیوں ،بلوچوں یا سندھیوں کی حمایت کرنا ، دہشت گردی کو فروغ دینے یا اندرونی ملکی معاملات میں مداخلت نہیں بلکہ انسانی حقوق دلوانے کے مترادف ہو جا تا ہے ۔مشرقی پاکستان ، یا بلوچستان کا ناجائزباغی ، آزادی کا متوالا اور ہیرو کہلاتا ہے اور کشمیرکی آزادی کی جائز جنگ لڑتا سپاہی دہشت گرد کہلاتا ہے ۔جائز اس لئے کہ کشمیر پر غیر قانونی طور پر بھارتی فوج قابض ہے اور ستر سالوں سے ان کے حقوق سلب کر رہی ہے اور عالمی ضمیر معاشی مجبوریوں میں بندھا ہوا خاموش تماشائی ہے۔
کشمیر جو بین الاقومی سطح پر متنازع علاقہ ہے اورانڈیا کا حصہ بھی نہیں اور پاکستان اس میں ایک فریق ہے ، اس میں پاکستان کو مداخلت کی اجازت نہیں ، اگر وہ کسی طرح فریڈم فائٹرز کو سپورٹ کرتا ہے تو اس کی مذمت کرنا کتنا آسان ہے ۔۔ فوج، معصوم شہریوں کو مار دے ، ریپ کر دے ، اندھا کر دے ، ٹکڑے ٹکڑے کر دے ، ان کی مذمت کرنا کتنا ناممکن ہے۔ ۔۔پسے اوردبے ہوئے انتقام کی آگ میں جلتے شہری اپنوں کی موتوں ، ذلتوں کا بدلہ لینے کو چند فوجیوں کو مار دیں تو بھر پور مذمت ۔۔ جناب والا !! اس مذمت کو اور وہ مذمتیں جو نہیں کی گئیں کوانسانیت میں تعصب کی سب سے بڑی مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے ۔
کینیڈا انسانی حقوق کا چیمئین ، ایسے ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے لیڈرکی تعصب سے بھر پور اس مذمت کی کینیڈا میں موجود سب پاکستانی ،مسلمان اور کشمیری مذمت کرتے ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ یہ لیڈر یا تو ہر اس بہے خون کی مذمت کرے جو معصوم اور غریب لوگوں کاتھا اور یا پھر ہر قسم کی مذمت کے لئے اپنے آپ کو نا اہل سمجھے۔یا تو انڈیا کو اس کی بدمعاشیوں پر تنبیہ کرے اور یا پھر کسی بھی ملک کو تنبیہ کرنے سے خود کو باز رکھے ۔۔۔۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply