تیسرا کون تھا؟۔۔۔۔کمیل بن زیاد

کل رات سے سوشل میڈیا پر بحث جاری ہے کہ پاکستان پر حملہ کی منصوبہ بندی کرنیوالے ممالک میں بھارت اور اسرائیل کے علاوہ ایک تیسرے ملک کا نام بھی آیا ہے!

Advertisements
julia rana solicitors london

اب سبھی کو کھوج ہے وہ تیسرا ملک کون ہے؟
کچھ کے مطابق افغانستان ہے!
کچھ ایران کا نام لے رہے ہیں!
کچھ امریکہ، اور فرانس کی طرف اشارہ کررہے ہیں!
یہ بات طے ہے کہ انٹیلیجنس ایجنسیاں جب بھی کوئی خبر لیک کرتی ہیں تو اس میں ہمیشہ ایک ابہام رکھا جاتا ہے، یوں سمجھیں کہ آپ نے لومڑی کا شکار کرنا ہے مگر یہ نہیں معلوم کہ لومڑی کون سے بھٹ میں ہے؟ لیکن آپ اندازوں پر تیر چلا دیتے ہیں، یا جال بچھاتے ہیں!
یہ خبر بھی کچھ اسی قسم کی تھی، جس میں اگر آپکو تیسرے ملک کا علم تھا تو آپ نے اسکا نام نہیں لیا، اگر انٹیلیجنس معلومات غلط ہوئیں تو تعلقات خواہ مخواہ خراب ہونگے! اور اگر معلومات درست ہیں تو اس تک یہ خبر پہنچ گئی کہ ہمیں اسکا پیشگی علم ہوچکا ہے!
اسرائیل اور انڈیا کا نام اس لیے کھل کر لیا گیا کہ اس سے قبل بھی یہ دونوں ممالک ضیاء الحق دور میں پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کی منصوبہ بندی کرچکے ہیں!
اب پہلے ملک کی طرف آتے ہیں یعنی ایران جسکا نام خصوصا تکفیری طبقے کی طرف لیا جارہا ہے!
سوال یہ ہے کہ ایران پاکستان حملہ کیوں کرے گا؟ اسکے سالڈ ریزن ہونے چاہئیں، کوئی بھی ملک کسی دوسرے ملک پر اسوقت تک حملہ آور نہیں ہوتا جب تک وہ اسے اپنے وجود کیلئے خطرہ محسوس نہ کرے اور بات پوائنٹ آف نو ریٹرن تک نہ پہنچ جائے!
کیا ایران واقعی پاکستان کو اپنے وجود کیلیے خطرہ محسوس کرتا ہے؟ مجھے نہیں لگتا، پاکستان کے ایران کیساتھ تعلقات گو اسوقت سرد مہری کا شکار ہیں اور اسکی وجہ ہماری خارجہ پالیسی کا جھکاؤ سعودی عرب کی طرف ہونا ہے تو یہ ایسی وجہ نہیں ہوسکتی کہ ایران پاکستان پر اسکو لیکر حملہ کردے، اور یہ جانتے ہوئے کہ ایک ایٹمی ملک اسکے جواب میں خاموش نہیں رہے گا؟
مشرق وسطی و عراق و شامٰ کی پراکسی میں الجھا ہوا ایران کبھی نہیں چاہے گا کہ اسکی مشرقی سرحدوں پر جنگی ماحول پیدا ہو۔ ایسے وقت میں جبکہ خلیج فارس میں امریکی بحری بیڑا موجود ہے اور اسرائیل آئے روز ایرانی ایٹمی تنصیبات پر حملے کی دھمکیاں دیتا ہے!
گو کہ پاکستانی سرحد کی طرف سے ایران کے اندر دہشتگردی کے واقعات ہوتے آئے ہیں، جن میں سلفی گروپس اور ایرانی سیستان کے علیحدگی پسند گروپس ملوث رہے ہیں لیکن یہ ایسی وجہ نہیں ہوسکتی جو پاکستان پر باقاعدہ حملہ کا باعث بنے۔ یہ معاملات سرحدوں پر سکیورٹی بڑھا کر، باڑ لگا کر اور انٹیلیجنس شئیرنگ سے ٹھیک کیے جاسکتے ہیں!
دوسری طرف اگر ایران حملہ کیلئے تیاری کر رہا ہے تو اسکے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی فضائی قوت، میزائیل بیٹریوں اور زمینی فوجی دستوں کو پاکستان کی سرحد کے پاس لائے، جبکہ ابھی تک ایسی کوئی خبر میڈیا پر نہیں آئی ہے، وگرنہ امریکی سیٹلائیٹ اور عرب میڈیا سب سے پہلے اسکا شور مچاتے!
لہذا ایران کا نام لینا سوائے مسلکی تعصب کے اور کچھ نہیں ہوگا!
دوسرا ملک افغانستان ہوسکتا ہے پاکستان کیساتھ افغانستان کی دوہزار کلومیٹر طویل سرحد ہے، قیام پاکستان سے ہی افغانستان کیساتھ پاکستان کے معاملات پیچیدہ رہے ہیں خصوصاً ڈریونڈ لائن کو افغانستان کی طرف سے تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے! پاکستان کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ افغانستان میں اسکی حمایت یافتہ حکومت ہو تاکہ فوجی نقطہ نگاہ سے ہماری مغربی سرحد محفوظ رہے اور فوج کی تمام تر توجہ بھارت پر مرکوز ہو!
لیکن نائن الیون کے بعد صورتحال تبدیل ہوئی اور افغانستان میں ایک ایسے رجیم کی حکومت قائم ہوئی جو نظریاتی طور پر پاکستان مخالف اور بھارتی حمایت یافتہ ہے! اسوقت افغان آرمی کی تربیت بھارت کے ڈیھرہ دھون ملٹری ٹریننگ سینٹر میں ہوتی ہے، اور یقینی طور پر افغان فوج پاکستان مخالف ہے، اور پاکستانی فوج سے شدید مخاصمت بھی رکھتی ہے!
آنیوالے دنوں میں جب کہ افغانستان کے اندر پاکستان اور ایران دونوں ہی افغان طالبان کی سرپرستی پر متفق ہوچکے ہیں اور ایران عملی طور پر افغان طالبان کی مالی اور عسکری امداد بھی کررہا ہے، کہ آنیوالے دنوں میں افغانستان میں ایران کو افغانستان میں داعش جیسے خطرے کا سامنا ہوگا اور اسکے لیے ضروری ہے کہ افغان طالبان کو مضبوط کیا جائے، چند ہفتے قبل افغان طالبان کا ایک وفد تہران کا دورہ بھی کرچکا ہے!
اور افغان طالبان کیلیے پاکستان کی مالی اور عسکری سپورٹ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، اور پاکستان دوبارہ افغان طالبان کے زریعے افغانستان میں بھارتی مفادات کو نہ صرف زک پہنچائے گا بلکہ بھارتی فوجی اثر رسوخ کا خاتمہ بھی چاہے گا!
یہ بات ا س لیے بھی افغان حکومت اور فوج کیلئے تشویشناک ہے کہ اگلے سال امریکی فوجی انخلاء کے بعد افغان طالبان ایک ایسے طاقتور فریق کی صورت میں سامنے آئیں گے، جسے پاکستان و ایران کی مالی اور سیاسی سپورٹ حاصل ہوگی! اور بھارتی حمایت یافتہ افغان رجیم اور بھارتی دفاعی و اقتصادی مفادات کیلئے مستقبل میں شدید خطرہ بنیں گے!
یہ وہ حقیقی خطرہ ہے جو کہ بھارت اور موجودہ افغان حکومت کو اسوقت درپیش ہے، اسوقت بھارت نے افغانستان کے اندر نہ صرف اربوں ڈالرز کی اقتصادی انوسٹمنٹ کی ہوئی، بلکہ فوجی نقطہ نگاہ سے بھی افغان آرمی کو پاکستان کی مغربی سرحدوں پر دباؤ کیلئے استعمال کرتا ہے! اور ایرانی چابہار بندرگاہ کے راستے نہ صرف افغانستان سے تجارت کررہا ہے بلکہ اسی بندرگاہ کے  ذریعے وسطی ایشیاء کی ریاستوں تک تجارتی رسائی کی کوششیں بھی کررہا ہے!
لہذا ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ آنیوالے دنوں میں خطے میں امریکی فوجی انخلاء کے بعد نہ صرف یہ کہ نئے تزویراتی اتحاد بنیں گے، بلکہ پرانے دشمن دوست بنیں گے۔ اور نئی دشمنیاں پیدا ہونگی!
کچھ لوگ تیسرے ممکنہ ملک کے طور پر امریکہ کا نام لے رہے ہیں۔ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ امریکی ایسی حماقت اس وقت کریں گے۔ پاکستانی ایٹمی ہتھیار کسی ٹھیلے پر نہیں رکھے ہوئے ہیں کہ امریکی کسی ہالی ووڈ مووی کی طرح سرجیکل اسٹرائیک کریں اور اٹھا لے جائیں، افغانستان کی دلدل سے نکلنے کا خواہاں ڈونالڈ ٹرمپ جسے اسوقت پرامن فوجی انخلاء کیلیے پاکستانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی اشد ضرورت ہے، وہ کبھی ایسی غلطی نہیں کرے گا!
لہذا میں ممکنہ طور پر یہ کہ سکتا ہوں کہ پاکستانی آئی ایس آئی نے جس تیسرے ملک کا نام لیا ہے، وہ افغانستان کی موجودہ فوجی و سیاسی قیادت ہے جو کہ بھارت کے زیر اثر ہے! اور پاکستان کا امریکہ کو یہ پیغام دینا کہ کسی قسم کی مہم جوئی کی صورت میں ہم ایک کی جگہ تین میزائیل داغیں گے، واضح کرتا ہے کہ وارننگ افغانستان اور بھارت کو دی جارہی ہے!
اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ پاکستان ایران کو امریکہ کے زریعے سے وارننگ دے یا پھر ایران اسرائیل کیساتھ ملکر پاکستان پر حملہ آور ہو؟

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply