• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مسئلہ کشمیر پر ممکنہ جنگ اور انڈیا ۔ 30 برسوں کے دوران پاکستانی پالیسیوں میں ہونیوالی تبدیلیاں۔۔ غیور شاہ ترمذی/دوسری ،آخری قسط

مسئلہ کشمیر پر ممکنہ جنگ اور انڈیا ۔ 30 برسوں کے دوران پاکستانی پالیسیوں میں ہونیوالی تبدیلیاں۔۔ غیور شاہ ترمذی/دوسری ،آخری قسط

انڈین حکومت 2000ء کی دہائی سے اس پالیسی پر بھی سنجیدگی سے غور کر رہی ہے کہ وہ 1960ء کی دہائی میں کئے سندھ طاس معاہدہ کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اسے منسوخ کر دے۔ سندھ طاس معاہدہ کے تحت پاکستانی جنرل ایوب خان نے تین مشرقی دریاؤں راوی، ستلج، بیاس کو انڈیا کے حوالہ کر دیا تھا مگر تین مغربی دریاؤں یعنی سندھ، چناب اور جہلم پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا۔ تینوں مغربی دریاؤں سے پاکستان کا 85 فیصد پانی انڈین مقبوضہ کشمیر اور افغانستان سے آتا ہے۔ کشمیر میں تو انڈیا نے خود ڈیم بنانا شروع کر دیے ہیں جبکہ سندھ طاس معاہدے کے تحت اس کو اس بات کی اجازت نہیں ہے۔ دوسری طرف انڈیا نے افغانستان میں دریائے کابل پر بنائے جانے والے ڈیم میں بھی تکنیکی امداد اور سرمایہ لگایا ہے تاکہ یہ پانی بھی روک کر پاکستان میں پانی کا بحران شدید ترین کر دیا جائے۔ انڈیا کی ہر حکومت کا ہمیشہ سے یہ مؤقف ہوتا ہے کہ پاکستان اپنا پانی ضائع کرتا ہے اور انڈیا کے اس مؤقف کو اس کی زنردست سفارتی مہم کی وجہ سے پوری دنیا میں تسلیم کیا جا ریا ہے۔ کشن گنگا ڈیم کی دریائے سندھ پر تعمیر کے علاوہ انڈیا نے متنازعہ منصوبہ نیموبازگو ڈیم کو بھی مکمل کر لیا ہے۔ اس کے علاوہ ”چٹک“ کا منصوبہ بھی پایہ تکمیل تک پہنچنے والا ہے۔ انڈیا کی یہ پالیسی صرف یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے 2016ء میں یہ بیان بھی دیا کہ وہ پاکستان کو پانی کی بوند بوند کے لئے محتاج کر دے گا اور بی جے پی حکومت اسی پالیسی کے تحت زوروشور سے اس منصوبہ پر عمل درآمد جاری رکھے ہوئے ہے۔ جیسا کہ:۔

1) :۔ بھارت دریائے چناب پر سلال ڈیم اور بگلیہار ڈیم سمیت چھوٹے بڑے 11 ڈیم مکمل کر چکا ہے۔

2) :۔ دریائے جہلم پر وولر بیراج اور ربڑ ڈیم سمیت 52 ڈیم بنا رہا ہے۔

3) :۔ دریائے چناب پر مزید 24 ڈیموں کی تعمیر جاری ہے۔

4) :۔ اسی طرح آگے چل کر مزید 190 ڈیمز کی فزیبلٹی رپورٹس، لوک سبھا اور کابینہ کمیٹی میں منظوری کے مراحل میں ہیں۔

یہ تمام ڈیمز بننے کے بعد انڈیا نہ صرف اس پوزیشن میں آ جائے گا کہ وہ پاکستان کا پانی روک کر اسے پانی کی بوند بوند کو ترسا دے بلکہ وہ جب چاہے ان ڈیمز سے پانی چھوڑ کر پاکستان بھر میں سیلاب پیدا کر سکتا ہے۔ اس طرح کے اقدامات کا منطقی نتیجہ یہی نکلنے کی توقع ہے کہ پاکستان مقبوضہ پانی کی بحالی کے لئے انڈیا پر حملہ کر دے۔ اس صورت میں انڈیا کے پاس یہ نادر موقع ہوگا کہ وہ پاکستان پر بین الاقوامی سرحدوں کی خلاف ورزی کے الزامات لگا دے۔

پہلی قسط کا لنک: https://www.mukaalma.com/61342

خارجہ پالیسی کے ماہرین کہتے ہیں کہ پانی پر قبضہ کرنے کی اس پالیسی کو اپنے ارادوں کے مطابق مکمل طور پر نافذ کرنا انڈیا کے لئے فوری طور پر ممکن نہیں ہے کیونکہ سندھ طاس معاہدہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان لڑی جانے والی تینوں جنگوں کے باوجود بھی زندہ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ معاہدہ ورلڈ بنک کی موجودگی اور گواہی میں کیا گیا تھا جس کے لئے امریکہ کی طرف سے خاطر خواہ مالی امداد بھی فراہم کی گئی تھی۔ اس لئے انڈین دھمکیوں کے باوجود یہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکا کہ انڈیا اس معاہدہ سے قانونی طور پر کیسے دست بردار ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کہ اس معاہدہ سے دستبرداری کی صورت میں انڈیا کے خلاف پیدا ہونے والے شدید سیاسی، سفارتی نتائج سے نبردآزما ہونا بھی انڈین قیادت کے لئے ممکن نہیں رہے گا۔ اس کے علاوہ جب تک انڈیا اوپر بیان کردہ پانی جمع کرنے کے ذخائر کی تعمیر نہیں کر لیتا تب تک خود انڈیا کے لئے اتنا پانی جمع کرنا بھی ممکن نہیں ہوگا۔ ان حالات میں انڈیا کی طرف سے سندھ طاس معاہدہ سے دست برداری کے اعلانات عملی اقدامات کی بجائے پاکستان کو نفسیاتی طور پر مرعوب کرنے کی کوشش قرار دی جا سکتی ہے۔

ابھی تک انڈیا کی طرف سے پاکستان کے خلاف باقاعدہ اور ایٹمی حملہ سے پاک جنگ کے امکانات کو ابھی تک مسترد نہیں کیا جا سکا۔ انڈیا کے مقابلہ میں سیاسی، اقتصادی اور سفارتی محاذ میں پاکستان کی پوزیشن میں خاطرخواہ کمی کے بعد ایٹمی حملہ میں پہل کرنے کی پالیسی کو کافی زک پہنچی ہے اور عملی طور پر ایسا ممکن ہونا نہیں ہوگا کہ پاکستان واقعی ہی ایٹمی حملہ میں پہل کر دے۔ اس سے پہلے پاکستانی ایٹمی پروگرام کے سابق سربراہ جنرل خالد قدوائی کے زمانہ میں وہ خود یہ پالیسی بیان کر چکے تھے کہ انڈیا کی طرف سے پاکستان کی اکانومی کو تباہ کرنے, آبی جارحیت کرنے اور سیاسی طور پر تباہ کرنے کی انڈین پالیسی کے جواب میں جنگ شروع کی جا سکتی ہے جس میں پاکستان کے پاس ایٹمی حملہ میں پہل کرنے کی آپشن موجود ہے۔ اس کھلی دھمکی کے باوجود انڈین حکومتیں کبھی بھی اس پالیسی سے پیچھے نہیں ہٹیں کہ پاکستان کے خلاف سیاسی، اقتصادی، ملٹری کاروائیوں کے تمام آپشنز کھلے رکھے جائیں اور جو بھی پارٹی حکومت مر رہی ہو وہ اُس پر عمل پیرا رہے۔ اس مقصد کے لئے انڈین حکومت نے پچھلے 30 سالوں سے اس پالیسی پر عمل درآمد شروع کیا ہوا ہے کہ وہ انڈین عوام کی ذہنی تربیت کے لئے اپنے میڈیا میں پاکستان مخالف مہم مسلسل چلاتا رہے۔ آج کی تاریخ میں انڈین چینلز میں ایک بھی ایسا چینل ڈونڈھنا ممکن نہیں ہے جس میں انڈین خفیہ ایجینسی راء نے کم از کم 30 فی صد کی شراکت داری نہ کی ہو۔ اتنے زیادہ شئیرز ہونے کی وجہ سے آج انڈین صحافی مجبور ہیں کہ وہ پاکستان کے خلاف ڈیزائن کردہ راء کے ایجینڈے پر مکمل طور پر عمل پیرا رہیں۔ یہی صورت حال پاکستان میں بھی ہے کہ پاکستان کے میڈیا پر خفیہ ادارہ کا شدید دباؤ ہے مگر پاکستانی اداروں کی پالیسی میں میڈیا چینلز میں سرمایہ کاری کرنے کی بجائے میڈیا میں فعال صحافیوں پر سرمایہ کاری کرنا زیادہ موزوں سمجھتے ہیں۔ اس لئے دونوں ممالک کے میڈیا ہاؤسز کی پالیسیوں میں واضح فرق دکھائی دیتا ہے۔ صحافی کے لئے حکومتی دباؤ برداشت کرنا آسان ہوتا ہے مگر ادارہ کی پالیسی کے خلاف جا کر کام کرنا ناممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہر انڈین چینل پاکستان کے خلاف جنگ شروع کرنے کی مہم پر اپنے عوام کو تیار کر رہا ہے جبکہ اِس کے مقابلہ میں پاکستانی میڈیا میں جنگ مخالف بیانیہ زیادہ مضبوط دکھائی دیتا ہے۔

پلوامہ خود کش بم دھماکہ کے بعد کی جانے والی سرجیکل سٹرائیک اور لائن آف کنٹرول پر گولہ باری تیز کرنے کے پیچھے انڈین حکومت کی یہ سوچ نہایت واضح ہے کہ پاکستان کشیدگی میں اضافہ کی طرف نہیں جائے گا۔ اس سوچ کے درست ہونے کا ثبوت پاکستانی حکومت نے بھارتی پائیلٹ ابھی نندن کی گرفتاری اور صرف دو دن میں اسے انڈیا کے حوالہ کر کے فراہم کر دیا ہے۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ بالا کوٹ کشمیر میں سرجیکل سٹرائیک سے پہلے انڈیا نے عالمی طاقتوں کو اعتماد میں لیا تھا اور اُن سے مشورہ کر کے ہی سرجیکل سٹرائیک کی تھیں۔ انڈیا نے یہ یقین دہانی بھی کر لی تھی کہ ایٹمی جنگ کے خطرات اگر بڑھے تو امریکہ فوری طور پر پاکستان کے نیوکلئیر ہتھیاروں والے مقامات کو نشانہ بنا کر جنوبی ایشیاء میں ایٹمی تصادم کا راستہ روک دے گا۔ اس کے علاوہ انڈیا کو یہ بھی امید تھی کہ امریکہ محدود پیمانے پر کی جانے والی سرجیکل سٹرائیکس کے نتیجہ میں پاکستانی ردعمل کو روکے گا حالانکہ اس وقت امریکہ کو افغانستان سے نکلنے اور طالبان سے مزاکرات کرنے کے لئے پاکستان کی شدید ضرورت ہے۔ توقعات کے عین مطابق بالاکوٹ سرجیکل سٹرائیکس کے بعد امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے کچھ ہی دنوں میں دو (2) بار یہ بیان دیا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تناؤ کو کم کرنے کے لئے کوشش کی جارہی ہے اور یہ کہ حالات پر مسلسل نظر رکھی جارہی ہے۔ صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ کئی اور ممالک، مثلاً چین، اہران, سعودی عرب, قطر, کویت اور ترکی نے بھی اس سلسلے میں نہ صرف اپنی تشویش کا اظہار کیا اور دونوں ممالک کو ذمہ دارانہ طریقے اور سفارتی عمل کے ذریعے حالات درست کرنے کی تاکید کی ہے۔

انڈین وزیراعظم نریندر سنگھ مودی کے دور میں انڈین پالیسی کے جارحانہ پن نے اس خوف کو عملی صورت سے دوچار کر دیا ہے کہ بین الاقوامی طاقتیں مسئلہ کشمیر کے پُر امن حل کی طرف متوجہ ہو چکی ہیں۔ اس بین الاقوامی توجہ کا ایک انجام یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عالمی طاقتیں انڈیا پر اپنا دباؤ بڑھائیں کہ وہ اپنے ہر لمحہ بڑھتے ایٹمی پروگرام پر کنٹرول کرے۔ امریکہ کی طرف سے انڈیا کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی فضاء میں انڈیا کی یہ پالیسی کامیاب رہی ہے کہ وہ انڈیا پر نیوکلئیر ٹیکنالوجی کی زیادہ سے زیادہ حد کا اطلاق نہ کرے مگر جیسے ہی جنوبی ایشیاء میں ایٹمی جنگ کے بادل منڈلائے تو امریکہ پاکستان کے ساتھ ساتھ انڈیا کے لئے بھی اپنے رویہ اور پالیسی میں تبدیلی لا سکتا ہے۔ یہی وہ مقام تھے جہاں انڈیا نہیں پہنچنا چاہتا تھا-او آئی سی کے 57 اسلامی ممالک نے اپنی کانفرنس میں کشمیر پر قابض قرار دے دیا ہے اور عالمی برادری سے کشمیریوں کی مدد کی درخواست کی ہے- اس قرارداد سے انڈیا نہ صرف کشمیر پر قابض مان لیا گیا بلکہ کشمیری عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کا ذمہ دار بھی انڈیا کو ٹھہراتے یوئے اسے دہشت گرد ریاست مان لیا گیا. کئی دہائیوں سے انڈیا نے او آئی سی کانفرنس میں شرکت نہیں کی اور جب شرکت کی تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ وہ اسے قانونی حیثیت دے رہا ہے- انڈیا کی طرف سے قانونی حیثیت تسلیم کی جانے والی اسی کانفرنس کی یہ قرارداد مودی حکومت کی واضح ناکامی کا ثبوت ہے.

اگرچہ ان پےدرپے ناکامیوں سے بوکھلائی مودی حکومت محدود پیمانے کی جنگ جیسا ایڈونچر شروع کر سکتی ہے مگر پھر بھی اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ محدود پیمانے کی روایتی جنگ شروع ہونے کے بعد وہ محدود کیسے رہ سکے گی مگر متعدد سیاسی، عسکری وجوہات اس بات پر متنج ہیں کہ انڈیا اور پاکستان بہت زیادہ شدّت والی جنگ یا ایٹمی جنگ کی طرف نہیں بڑھیں گے۔ پاکستان کے ساتھ بہت زیادہ شدّت والی جنگ سے انڈین افواج کو اپنے دو (2) بڑے مقاصد پورے ہونے کا بہت زیادہ یقین ہے:۔

(1):۔ پاکستان کی ملٹری کو بنگلہ دیش کی طرح شکست دے کر تباہ و برباد کر دیا جائے۔

(2):۔ پاکستان کو چھوٹے اور قابل انتظام ٹکڑوں میں تبدیل کر دیا جائے۔

انڈین اسٹیبلشمنٹ میں موجود کچھ شدّت پسند عناصر کی رائے میں پاکستان کے ساتھ جاری اس تاریخی کشمکش کا اس کے علاوہ اور کوئی حل ممکن ہی نہیں ہے۔ مگر ان مقاصد کے حصّول میں انڈیا کو یہ بھی خطرہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ مکمل اور انتہائی پیمانے کی جنگ میں پاکستان اس کی موجودہ تیز رفتار ترقی کا سبب بننے والی انڈسٹری کو نشانہ بنا سکتا ہے جو کہ 8 فی صد جی ڈی پی سے زیادہ رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اس لئے انڈین قیادت کا سارا دارومدار صرف اس بات پر ہے کہ پاکستان کے خلاف سفارتی مہم چلا کر، اس کے آبی وسائل پر قبضہ کی دھمکی سے کر اور محدود پیمانے کی سرجیکل سٹرائیکس کے ذریعہ پاکستان کو دباؤ میں لا کر کشمیر میں چلنے والی ہلکی پھلکی جنگ کا خاتمہ کیا جا سکے جسے انڈین لابی بارڈر پار دہشت گردی قرار دیتی ہے۔ انڈیا کا خیال ہے کہ ایسا ہونے سے مسئلہ کشمیر کا ایسا حل ڈونڈھنا ممکن ہے جو کشمیری مسلمانوں، انڈیا اور پاکستان کے لئے بھی قابلِ قبول ہو۔ اس انڈین پالیسی کے خالق سابق بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی تھے اور آج تک انڈین حکومتیں انہی مقاصد کے حصّول کے لئے کاربند ہیں۔ جنرل مشرف کے دور حکومت میں مسلح جہادی تنظیموں سے دوری اختیار کرنے کی جعلی پالیسی کو اگر پاکستانی قیادت آج کے دور میں اصلی شکل مہیا کر دے تو انڈیا کے لئے یہ ممکن ہی نہیں رہے گا کہ وہ پاکستان کے خلاف کسی بھی طرح کی جارحیت پر خود کو آمادہ کر سکے۔ ایک معتدل مزاج پاکستان نہ صرف اپنے لئے بلکہ اپنے ہمسایہ ممالک انڈیا کے لئے مثالی ہوگا۔ امریکہ کے ساتھ پاکستان کے حالیہ تعلقات میں اچانک پیدا ہونے والی بہتری کے بعد بھی ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کی طرف سے دہشت گرد گروپوں کے خلاف سخت کاروائی ہونے کی یقین دہانی حاصل ہونے تک مکمل روایتی جنگ کی طرف انڈیا اور پاکستان کو نہیں بڑھنے دے گا۔

طالبان اور القائدہ کے بچے ہوئے عناصر کی طرف سے کشمیری حریت پسندوں کو تربیت دینے کے مراکز اب کشمیر کی بجائے پاکستان کے قبائلی علاقہ جات اور افغانستان کے ساتھ ملحق بارڈر کی طرف منتقل ہو چکے ہیں۔ حالیہ امریکہ، طالبان مزاکرات میں یہ نقطہ بھی ایجینڈہ کے اہم ترین نقاط میں شامل تھا کہ طالبان کسی بھی عسکریت پسند گروپ کو تربیت نہیں دیں گے اور نہ ہی انہیں کسی بھی طرح کی پناہ دیں گے۔ طالبان کی طرف سے پاکستانی بارڈر سے ملحقہ سرحد کے بیشتر حصّوں پر قبضہ جما لینے کے بعد پاکستان اب اس پوزیشن میں بھی ہے کہ وہ طالبان سے مزاکرات کے بعد اپنے مغربی بارڈر پر تعنیات افواج کو انڈیا کے مشرقی بارڈر پر تعنیات کر دے مگر ایسا تب ہی ممکن ہو گا جب امریکہ اورطالبان کے درمیان مزاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں اور امریکی افواج کا افغانستان سے انخلاء شروع ہو جائے۔

سیاسی عوامل کے علاوہ عسکری طور پر بھی مکمل جنگ دونوں ممالک کے لئے ممکن نہیں ہے۔ انڈیا کے پاس واضح طور پر ایسے ہتھیاروں میں پاکستان پر برتری نہیں ہے جن کی مدد سے وہ پاکستان کو جنگی محاذ میں شکست دے سکے۔ انڈین میڈیا اور سیاستدانوں کے رائے کے برعکس اکثر دفاعی مبصرین کا کہنا ہے کہ ہتھیاروں کی دوڑ میں انڈیا اور پاکستان کے پاس ایک جیسے ہی ہتھیار اور مہارت ہے۔ اگرچہ انڈیا کی افواج کی تعداد پاکستان کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے مگر پاکستان کے مقابلہ میں انڈیا کے پاس موجود ہتھیاروں کی خراب کوالٹی، محدود سپئیر پارٹس، مرمت کے فقدان اور لاجسٹک کمی کی وجوہات کی بنیاد پر دونوں ممالک کو افواج ایک جیسے معیار پر پہنچ جاتی ہیں۔ بالاکوٹ سرجیکل سٹرائیکس کے بعد خود انڈین وزیراعظم نریندر سنگھ مودی نے بیان دیا ہے کہ اگر انڈیا کے پاس مگ (mig) کی بجائے رافیل طیارے ہوتے تو وہ زیادہ بہتر نتائج حاصل کر سکتے تھے۔ اس کے مقابلہ میں پاکستان کے پاس 8 اواکس طیارے ہیں جن پر لگے ریڈارز کی مدد سے پاکستان کسی بھی فضائی حملہ کی صورت میں فوری ردعمل دے سکتا ہے۔ پاکستان نے جے ایف تھنڈر طیارے بھی خود بنانے شروع کر دئیے ہیں اور ان کی فروخت بھی کر رہا ہے۔ جے ایف-17 تھنڈر (JF-17 Thunder) ایک کثیر المقاصد لڑاکا طیارہ ہے، جو پاکستان اور چین نے مشترکہ طور پر بنایا ہے۔ پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ میں پیداوار کے آغاز کے بعد پہلی بار 23 نومبر 2009ء کو یہ طیارے پاک فضائیہ کے حوالے کئے گئے۔ پاک فضائیہ 2010ء کے اوائل سے جے ایف-17 جہازوں کے مکمل اسکواڈرن کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ ابتدائی بناوٹ کے لحاظ سے یہ طیاره امریکی ساختہ ایف-16کی نقل تھا۔ جس پر امریکا نے شور برپا کر دیا کہ میرے طیارے کی نقل نہیں اتاری جاسکتی۔ اس وجہ سے طیارے کی دوسری شکل ایف-16 اور میراج لڑاکا طیروں سے قدرِ مشترک ہے۔

دونوں ممالک کی افواج ایک دوسرے کے بارے اس قدر چوکنا ہیں کہ سرپرائز حملہ کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ایک طویل سرحد ہے جہاں حملے اور جوابی حملے کئے جا سکتے ہیں۔ ایک محدود پیمانے کی جنگ میں گولہ باری، سرحدی خلاف ورزیوں اور کچھ سرحدی علاقوں پر دونوں ممالک کی افواج کے قبضہ اور جوابی قبضہ جیسی صورتحال کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مکمل روایتی جنگ کے برپا ہونے کا امکان صرف اُسی صورت میں ہو سکتا ہے اگر انڈیا کی طرف سے کسی غلطی کے نتیجہ میں مقبوضہ کشمیر کے بارڈر سے منسلک کسی علاقہ کی نجائے دوسرے انٹرنیشنل بارڈر پر محاذ آرائی کی جائے۔ یہ درست ہے کہ جیش محمد، لشکر طیبہ کے کچھ مراکز وسطی پنجاب، جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ واقع ہیں اور کسی انڈین ایدونچر کے چکر میں ان پر کسی قسم کی سرجیکل سٹرائیک کے بعد حالات ہلکی پھلکی جنگ کی بجائے مکمل جنگ کی طرف مُڑ سکتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس خطرناک صورتحال میں انڈین حکومت ایسا احمقانہ طرز عمل کیسے اختیار کر سکتی ہے۔ ان مقامات پر حملہ کرنے میں انڈین افواج کے پاس اس حملہ کے لئے درکار لیول کے بارے بہت زیادہ شکوک و شبہات ہیں۔ انڈین افواج ان مقامات پر حملہ کرنے کے لئے درکار مہارت، انٹیلی جینس معلومات کے فقدان کا ہی شکار نہیں بلکہ ایسا کرنے سے کشمیر میں لڑنے والی پاکستانی جہادی تنظیموں کو کمزور بھی نہیں کیا جا سکے گا بلکہ ایسے حملے سے وہ مزید تقویت حاصل کریں گی۔ دوسری طرف انڈیا کو عالمی برادری سے سفارتی محاذ پر ملی کامیابی بھی ایسے کسی بےمقصد ایڈونچر کے نتیجہ میں ناکامی سے دوچار ہو سکتی ہے۔ ایسی کاروائی کرنے سے پاکستان کی حکومت کی طرف سے دہشت گرد گروپوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کی اُمید بھی ختم ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ ایسا حملہ کرکے انڈیا عالمی برادری میں خود کو حملہ آور ریاست کے طور پر متعارف کروا دے گا اور کشمیر کے معاملہ پر اُس کی مظلومیت والی پالیسی کا ڈھول کا پول کھل جائے گا۔ انڈین طیاروں کی گولہ باری کے بعد پاکستان کی طرف سے انہیں نیچے گرائے جانے کے بعد انڈین قیادت کو اس بات کا پوری طرح ادراک بھی ہو چکا ہے کہ مکمل جنگ کی صورت میں پاکستان کو تباہ کرنے والی حکمت عملی کی کامیابی ممکن نہیں ہے اور مکمل جنگ میں اگر بالفرض پاکستان کو شکست دینے کی طرف بھی انڈین فوج گامزن ہو سکے تو اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ پاکستان بوکھلا کر ایٹمی حملہ کرنے میں پہل نہیں کرے گا۔ 1990ء کی دہائی سے انڈین حکومتوں نے وہ خط کھینچا ہوا ہے کہ پاکستان کو انڈر پریشر کرتے ہوئے اُسے اس مقام تک نہیں لانا کہ پاکستان گبھرا کر ایٹمی جنگ کی طرف مڑ جائے۔ بے شک مودی سرکار آج کل زیادہ ایڈونچر کر رہی ہے مگر وہ کبھی بھی اُس سرخ لائن کو کراس نہیں کرے گی جس کا نتیجہ مکمل جنگ یا ایٹمی جنگ کی طرف مُڑ جائے۔

مودی حکومت جانتی ہے کہ پلوامہ واقعہ کے بعد پیدا ہونے والی سنگین صورتِ حال پر عالمی ذرائع کی مسلسل توجہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں، اور نہ ہی اس توجہ کا سبب یہ ہے کہ پاکستان اور ہندوستان روایتی حریف ہیں اور اُن کے درمیان تناؤ کی فضا بنتی رہتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس خطے میں جنگ کے بادلوں کا امڈ آنا عالمی سطح پر خطرے کی گھنٹی بجا دیتا ہے۔ اس لئے کہ دونوں ممالک ایٹمی طاقت ہیں، اور جنونی مزاج رکھتے ہیں- ان کے درمیان اگر خدانخواستہ واقعی جنگ چھڑتی ہے تو وہ ڈیڑھ ارب آبادی والے دونوں ممالک کے لئے ہول ناک تباہی کا ذریعہ نہیں ہوگی، بلکہ اس کی لپیٹ میں دنیا کا اور بھی خاصا بڑا علاقہ آئے گا اور اس کے اثرات تو بہت دور دور تک پہنچیں گے۔ اس لئے عالمی برادری یا امریکی صدر کی طرف سے آنے والے بیانات دراصل کروڑوں انسانوں اور ایک وسیع علاقے تک پھیل جانے والے حالات پر تشویش کا اظہار ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

انڈیا پاکستان کے درمیان مسائل کی وجہ سے مکمل امن و امان کا قیام بہرحال خطرناک زون میں داخل ہو چکا ہے۔ اس وقت بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ اسلام آباد اور نئی دہلی کبھی بھی کشیدگی کو اُس سٹیج تک نہیں لے جائیں گے کہ وہ مسائل کا حل مکمل جنگ کی صورت میں نکالنے پر کمربستہ ہو جائیں مگر چند ہفتوں بعد آنے والے عام انتخابات میں کامیابی کے لئے انڈین مودی سرکار کے لئے بہت ضروری ہے کہ وہ ماحول کو ایسے ہی گرم کئے رکھے۔ موجودہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے انتخابی مہم کے لیے تو بے شک ’’اب راج کرے گا ہندو‘‘ کا نعرہ استعمال کرکے ہندو اکثریت کے جذبات کو متحرک کرکے اپنے ووٹ بینک کو وسعت دی اور اقتدار حاصل کیا تھا، لیکن حکومت سنبھالنے کے بعد اس جماعت نے بھی حکومت کے سیکولر نظریات اور جمہوری رویوں کا خوب پرچار کیا۔ تاہم اقتدار کی طاقت کو مودی سرکار نے ہر ممکن ذریعے سے اپنی انتہاپسند پالیسیز کے لئے استعمال کیا ہے۔ اب جبکہ وہ حکومتی دورانیہ پورا کررہی ہے اور اسے آنے والے دنوں میں انتخابات کا سامنا ہے تو ملک کے باشعور اور سیکولر مزاج لوگ اس بات کا کھلے بندوں اظہار کررہے ہیں کہ اگلے چناؤ کے لئے عوامی جذبات پر اثرانداز ہونے کے لئے اس کے پاس کوئی سامان نہیں ہے۔ پلوامہ کے واقعے کے بعد ایسے سب افراد اور طبقات نے اسے خود حکومتی کارروائی قرار دیا اور صاف لفظوں میں کہا گیا ہے کہ یہ مودی سرکار کے گھناؤنے ہتھکنڈے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ مودی اور اُن کی پارٹی انتہاپسند ہی نہیں، اقتدار پرست بھی ہیں۔ ایسے لوگ اپنے مقصد کے حصول کے لئے کچھ بھی کرسکتے ہیں، لیکن حالات مودی سرکار کو پاکستان سے جنگ کی اجازت بالکل نہیں دیتے۔ انھوں نے اچھی طرح واویلا کر کے دیکھ لیا ہے، لیکن عالمی برادری سے انھیں وہ جواب نہیں ملا جو پاکستان پر چڑھائی کی جرأت اُن میں پیدا کرسکے۔ اس وقت چین، ایران, روس، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات, قطر اور ترکی جیسے ممالک نے جس طرح پاکستان سے سفارتی تعلقات رکھے ہوئے ہیں، اور خود امریکا اور پاکستان کے مراسم میں بھی جو بہتری کا رخ سامنے آرہا ہے اُس کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ انڈیا پاکستان کے مابین مکمل جنگ کا اس وقت امکان نہیں ہے البتہ الیکشن میں کامیابی لینے کے لئے چھوٹی موٹی سرحدی جھڑپیں اور پاکستان مخالف انڈین پراپیگینڈہ چلتا رہے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply