• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کرہ ارض، زندگی، کرونا ۔ ہم نے کیا سیکھا۔۔۔نیّر نیاز خان

کرہ ارض، زندگی، کرونا ۔ ہم نے کیا سیکھا۔۔۔نیّر نیاز خان

یوں تو ہمارے سیارے کی عمر لگ بھگ ساڑھے چار ارب سال ہے۔ اور آج کے سبھی سائنسدان اس غیر متنازعہ حقیقت پر متفق ہیں کہ اس سیارے پر زندگی کی ابتداء کوئی ساڑھے تین ارب سال پہلے ہوئی، جب زمین کے پگھلے ہوئے جیالوجیکل کرسٹ نے ٹھوس شکل اختیار کرنا شروع کی۔ سبھی سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ زمین پر زندگی کی ابتدا اسی وقت ممکن ہو سکی جب ہماری زمین کا ماحول زندگی کی بقا کے لیے سازگار بن سکا۔ اور اس سازگار ماحول کو بنانے کے لیے کرّہ ارض کو ایک ارب سال کا سفر طے کرنا پڑا۔ کرّہ ارض پر زندگی کی ابتدا بیشتر سائنسدانوں کے نزدیک سائنوبیکٹیریا سے ہوئی لیکن بیکٹیریا کی پیچیدہ حیاتیاتی ساخت جس میں خلیے کی بیرونی تہہ جو پروٹین کو محفوظ بناتی ہے، جس سے  ڈی این اے پروڈیوس ہوتا ہے ،کو دیکھتے ہوئے بعض سائنسدان یہ کہتے ہیں کہ اس سے بھی سادہ حالت میں زندگی شاید بیکٹیریا سے پہلے وجود میں آئی ہو۔

کچھ سائنسی نظرئیے یہ بھی کہتے ہیں کہ شاید زندگی ہمارے سیارے پر براہ راست وجود میں نہ آئی ہو۔ بلکہ اسی کائنات میں موجود ہماری اپنی کہکشاں یا پھر دیگر کہکشاؤں سے منتقل ہوئی ہو۔ لیکن سائنسدانوں کی اکثریت اس بات پر اتفاق رکھتی ہے کہ زندگی کے ابتدائی عرصے میں آر این اے مالیکیول نے زندگی کی ابتدائی نوزائیدہ شکل کو مختلف مدارج سے گزارا ،اس وقت تک جب تک کہ پروٹین اور ڈی این اے نے زندگی میں متحرک رول ادا کرنا شروع نہ کیا تھا۔ اس بحث کو مختصر کرتے ہوئے ہم انسانی زندگی کی ابتدا پر آتے ہیں۔ تاکہ موضوع سے مطابقت کا رشتہ برقرار رہے۔ سائنس اس بات پر متفق ہے کہ انسانی زندگی کی ابتدا 66 ملین سال پہلے ہوئی۔

ان 66 ملین سالوں میں انسان نے کرّہ ارض پر اپنی بقا کو یقینی بنانے کے لیے بہت کٹھن اور دشوار گزار سفر طے کیا۔ خوراک کی تلاش، خوراک کو محفوظ بنانے کے طریقے، موسم کی شدت سے مقابلہ، جسم ڈھانپنے کے مختلف طریقے، زراعت اور کھیتی باڑی کے مختلف طریقے، صحت مند اور محفوظ غذا کا انتخاب اور طریقہ استعمال، رسم و رواج، فنون لطیفہ وغیرہ کے لیے نسل انسان کو طویل تجربات سے گزرنا پڑا۔ پیغام رسانی اور گفتگو کے لیے اشاروں کی زبان پھر ان اشاروں کو مخصوص معنی دینے، بولنے کے لیے مختلف آوازوں کا نکالنا ،ان آوازوں کو مخصوص معنی دینا، کسی نئے علاقے میں سفر کے دوران نئے گروہ کے اشاروں کو سمجھنے کا عمل۔ الفاظ کا استعمال، زبانوں کی تخلیق، پھر لکھنے کا عمل وغیرہ۔ اس سارے سفر میں جس مشکل ترین کام سے انسان کا واسطہ پڑا ،وہ تھا بیماریوں سے لڑنے کے لیے موضوع غذا اور مختلف غذاؤں کے امتزاج سے دوائیاں بنانے کا عمل کیونکہ  زندگی کی بقا کو شروع دن سے سب سے بڑا خطرہ مختلف بیماریوں اور وبا کے پھیلنے سے رہا۔ اور انسانوں کی بستیوں کی بستیاں مناسب طریقہ علاج نہ ہونے کی وجہ سے اُجڑتی رہیں۔ وبا اور بیماری کے دوران بڑے پیمانے پر اموات اور ان اموات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خوف اور خطرے نے دیوی دیوتاؤں کی ناراضگی کے تصور کو جنم دیا۔ اور تاریخ کے طویل ترین دورانیے تک اس تصور نے خوف کی وجہ سے انسانی دماغ کو مفلوج بنائے رکھا۔

انسانی زندگی کے اس مشکل ترین سفر میں مختلف وباؤں کا قابلِ عمل علاج نہ ہونے کی وجہ سے پہلی جنگ ِعظیم کے بعد تک ہماری دنیا کی کُل انسانی آبادی بمشکل ایک ارب سے کچھ زائد تک پہنچ سکی تھی۔ اسی دوران سر الیگزینڈر فلیمنگ نے 1928 میں پینسلین دریافت کر لی۔ پینسلین کی دریافت انسان کی سائنسی زندگی میں ایک انقلاب ثابت ہوئی۔

اگرچہ مغرب میں صنعتی انقلاب کے بعد فارمیسی کی صنعت میں بھی دوائیاں بنانے اور مختلف تجربات کا عمل شروع ہو چکا تھا۔ لیکن اینٹی بیکٹیریل دوا کے نہ ہونے کی وجہ سے زندگی کی بقا کو ہر پل خطرات رہتے تھے۔ الیگزینڈر فلیمنگ نے پینسلین کا پتہ اور اس کے موثر ہونے کی نوید تو سنا دی۔ لیکن اس کے کلینیکل استعمال کے لیے ہماری دنیا کو مزید ایک دہائی سے زائد عرصہ انتظار کرنا پڑا۔ اسی دوران دوسری عالمی جنگ بھی شروع ہو گئی اور ہماری دنیا نے ایک اور بے یقینی کی کیفیت دیکھی۔ لیکن سائنسدانوں نے ان مشکل حالات میں بھی اپنا کام جاری رکھا اور جنگ عظیم دوم کے عین بیچ 1943 میں پینسلین کا کلینیکل ٹرائل مکمل ہونے کے ساتھ استعمال بھی شروع ہو گیا۔

جنگ عظیم دوم کے بعد ہماری سیاسی دنیا دو بلاکوں میں تقسیم ہو گئی۔ سرمایہ دارانہ بلاک کی قیادت امریکہ بہادر اور سوشلسٹ بلاک کی قیادت سوویت یونین نے کی۔ فکری، نظری اور سیاسی مخاصمت کے باوجود سرد جنگ کا دور دونوں اطراف سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کا زریں دور تھا۔ 1970 کی دہائی تک سوویت اور امریکن بلاک نے پینسلین کی دریافت کو بنیاد بناتے ہوئے اینٹی بائیو ٹکس کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کرتے ہوئے بڑی بیماریوں پر قابو پا لیا تھا۔ نتیجے کے طور پر مختصر دورانیے میں ہماری دنیا کی آبادی دگنی ہو کر تین ارب سے زائد ہو گئی تھی۔

سوویت یونین کے عالمی منظر نامے سے ہٹنے کے بعد مغربی لبرل جمہوریت نے اوپن مارکیٹ اکانومی کو اتنی بڑھوتری دی کہ زندگی بچانے والی ادویات کا بنیادی کارن بھی فارما سیوٹیکل کمپنیوں کے سرمائے میں اضافہ بنتا گیا۔ حالانکہ 2003 کے سارس، 2009 کے ایچ ون این ون اور 2012 کے ایبولا نے وارننگ دے دی تھی کہ کوئی ایک اور نئی وبا انسانی زندگی پر حملہ کر سکتی ہے۔ بہت سارے سائنسدانوں، سیاستدانوں اور زندگی کی بقا کی فکر کرنے والے دانشوروں نے متعدد بار اس خدشے کا اظہار کر دیا تھا کہ ہماری دنیا کے سیاسی چوہدریوں کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ آج سرد جنگ کی مخاصمت میں ہونے والی سائنسی ترقی اور ادویات کی فراوانی کی بدولت انسانی آبادی آٹھ ارب کے قریب پہنچ چکی ہے۔ لیکن سرد جنگ کے خاتمے کے بعد فتح کے جشن اور معاشی برتری کے خمار نے جنگی جنون اور برتری کے خواب کو اتنی تقویت بخشی کہ گلوبل وارمنگ، موسمیاتی تبدیلیوں، سارس، ایچ ون این ون اور ایبولا کے باوجود سرمایہ دارانہ جمہوریت آنے والے خطرے کو شاید پنپ نہ سکی یا پھر اسے بھی جغرافیائی حدود و قیود اور علاقائی مسئلے کے طور پر لیتی رہی۔

2019 کے موسم سرما میں چین کے صوبے ہوبے اور خاص مرکز ووہان میں کرونا نے سر اٹھایا تو سازشی نظریات نے بھی اسی رفتار سے پھیلنا شروع کر دیا۔ چینی عوام کے کھانوں سے لے کر ان کے سیاسی نظام تک شش جہتی حملے شروع کر دئیے گئے۔ مشکل کی اس گھڑی میں چینی حکومت اور عوام کا ساتھ دینے کے بجائے اسے چین کا اندرونی مسئلہ بتاتے ہوئے ،دنیا نے نہ صرف آنکھیں پھیر لیں بلکہ اسے اقتصادی میدان میں پچھاڑنے کے لیے کورونا سے پورا سیاسی اور سفارتی فائدہ اٹھانے کی کوشش بھی کی گئی۔ ابتدائی دنوں میں چینی باشندوں کو بیشتر مغربی ممالک میں نفرت اور تعصب کا سامنا کرنا پڑا۔۔فضائی سفر پر چین اور چینی باشندوں پر پابندیاں لگا دی گئیں، اور 12 کروڑ والی آبادی کے صوبہ ہوبے کو بالخصوص اور پورے چین میں ڈیڑھ ارب انسانوں کو بالعموم تقدیر اور لی ژی پنگ کی کمیونسٹ پارٹی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گئا۔

صرف چند ہفتوں میں اس مہلک بیماری نے مصنوعی سرحدیں پھلانگ ڈالیں اور مشرق و مغرب کے ہر آنگن میں اپنے خونی پنجے گاڑھ ڈالے۔ فخریہ انداز میں سراہی جانے والی گلوبلائزیشن ہفتوں میں ہی ریت کی دیوار ثابت ہوئی اور سرمایہ دار قومی ریاستوں نے اپنی اپنی سرحدوں پر فضائی اور زمینی پہرے بٹھا دیے۔

سٹاک ایکسچینج کھربوں ڈالرز کی آکسیجن پمپنگ کے باوجود لڑ کھڑا رہی ہے۔ فضائی سفر کی بندش اور لاک ڈاؤن نے دنیا کی آدھی سے زائد آبادی کو اپنے گھروں میں محصور کر دیا ہے۔ مصنوعی معاشی غبارے کی ہوا نکل گئی ہے اور بیسویں صدی کے گریٹ ڈیپریشن سے بھی خوفناک معاشی بحران کی سرگوشیاں شروع ہو چکی ہیں۔ جسمانی فاصلے (جسے لوگ مغالطے کے طور پر سماجی فاصلے کا نام دے رہے ہیں) نے انسان کو ایک عجیب خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ بقول حضرت ایلیا کہ

اب نہیں کوئی بات خطرے کی

اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے

اس سارے عمل میں جو خوفناک عنصر سامنے آیا ہے، وہ یہ کہ اتنے بڑے پیمانے پر معاشی ترقی کے دعوے اور وسائل کے بھرمار کا پردہ چاک ہو گیا ،جب ڈاکٹرز اور طبعی عملے کے پاس حفاظتی سامان بھی پوری طرح موجود نہیں۔ وینٹی لیٹرز کی کمی کی وجہ سے اموات ہو رہی ہیں۔۔۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اکیسویں صدی کی پہلی دو دہائیوں میں دنیا میں دولت کے انبار لگ گئے تھے۔ لیکن ان کا مصرف طبقاتی بنیادوں پر تھا۔ دنیا کی سیاسی اشرافیہ نے عسکری اشرافیہ کو مضبوط بنانے کے لیے لوٹ مار سے حاصل کیے ہوئے وسائل کا بے دریغ استعمال کیا اور دنیا کی کُل دولت کا بیشتر حصہ مٹھی بھر کارپوریٹس اور افراد کی تجوریوں کی  زینت بنا دیا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دولت اور وسائل کی اتنی فراوانی کے باوجود آج بھوک، غربت اور لاچارگی بھی اس کرّہ ارض پر اتنی ہی تعداد میں موجود ہے جو اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔ مالیاتی سرمائے کے بڑے حصے پر ملٹی نیشنل کمپنیوں اور منافع میں شراکت دار افراد کے گروہوں نے اس سیارے پر زندگی کی بقا کو اپنے نصب العین کبھی نہیں سمجھا اور سامان حرب اور بارود کے ڈھیر کے ذریعے عسکری طاقت کو ہی اپنی بقا سمجھا۔ آج جب ایک وائرس نے حملہ کیا تو ہمیں اپنی سیاسی اور معاشی دنیا کی لاچارگی محسوس ہونے لگی کہ کتنی کمزور بنیادوں پر خوابوں کے محل تعمیر کیے گئے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یقینی طور پر جلد یا بدیر کرونا وائرس یا کووڈ -19 پر بھی قابو پا لیا جائے گا لیکن نظام زر کے مفلوج فلسفہ دانوں کو ایک بات ضرور سمجھنا ہو گی کہ جیسا چل رہا ہے۔ مزید نہیں چل سکتا۔ انسانوں کے طاقتور گروہوں کو مشترکہ وسائل پر کیے گئے ذاتی اور گروہی قبضوں کو چھوڑنا ہو گا۔ بارود کے کارخانوں کے بجائے تحقیقی مراکز قائم کرنے ہوں گے۔ زمین پر کھینچی گئی مصنوعی لکیروں پر موت بانٹنے والے باوردی پہرے داروں کا رعب دکھانے کے بجائے زندگی بچانے والے ڈاکٹروں پر خرچ کرنا ہو گا۔ زندگی کی مشترکہ بقا کے لیے وسائل کی منصفانہ تقسیم اور ان کے جائز استعمال کو ممکن بنانا ہو گا۔ فضا کی بلندیوں اور پانی کی گہرائیوں کو جاننے کے لیے فضا اور پانی میں موجود زندگی کے وجود اور ان مخلوقات کے حق ملکیت کو تسلیم کرنا ہو گا۔ فطرت کے پنہاں رازوں کو جاننے کے لیے فطرت سے جنگ کے بجائے پرامن بقائے باہمی کے اصول کے تحت آگے بڑھنا ہو گا۔ اکثریت کو بھوکا رکھ کر اقلیت کی عیاشی سے کام نہ چل سکے گا۔ نہیں تو ڈائنا سورز کی جسامت اور طاقت انسان سے کئی سو گنا زیادہ ہوا کرتی تھی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply