جنسی تجارت،خاک سے لاکھ بنانے والے۔۔۔اسد مفتی

برطانیہ کے اخبار آبزرور نے خبر دی ہے کہ ’’برطانیہ میں اسمگل شدہ خواتین کی نیلامی کی جاتی ہے۔‘‘ رپورٹ کے مطابق بیرون ملک سے خواتین کی اسمگلنگ کیخلاف وسیع پیمانے پر کئے جانیوالے آپریشن میں یہ روح فرسا انکشاف ہوا ہے کہ ان میں سے بعض کو نیلامی کے ذریعے فروخت کیا گیا ہے خریدنے والے نے کچھ ہی دنوں بعد انہیں قحبہ خانوں میں جبری جسم فروشی پر مجبور کردیا۔ کیمبرج شائر میں پولیس نے73مشتبہ قحبہ خانوں پر چھاپے مارے سات خواتین کو پہلے ہی برآمد کیا جاچکا ہے ان میں کچھ تو بہت زیادہ زخمی بھی تھیں، یہ زخم قحبہ خانوں سے فراریت کی ناکامی کا تحفہ تھے۔
آج کے مہذب معاشرے میں خواتین کے ساتھ روا رکھے جانے والا گھنائونا سلوک ہیبت ناک، شرمناک اور خوفناک ہے۔ اسمگل شدہ خواتین کا جبری استحصال اور جسم فروشی کا دھندا گائوں سے بڑے شہروں تک پھیلا ہوا ہے۔ انہیں کمرے سے باہر جھانکنے کی آزادی تک نہیں ہوتی اور ایک دن میں درجنوں افراد ان کا استحصال کرتے ہیں جس سے اسمگلنگ میں ملوث افراد کو ہزاروں پائونڈ کی آمدن ہوتی ہے۔ برطانیہ کے وزیر داخلہ نے پولیس فورسز اور سیریس وآرگنائزڈ کرائم برانچ(سوکا) کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس جرم کے خاتمے کو اپنی ترجیحات میں سب سے اوپر لائیں کہ ہزاروں بچوں اور عورتوں کو ’’ جدید غلامی ‘‘ میں فروخت کیا جارہا ہے۔ میرے حساب سے یہ سب مشرقی یورپ سے درآمدشدہ ہے۔ مشرقی یورپ کے جرائم پیشہ افراد اسے مغربی یورپ میں لے آئے ہیں بالخصوص برطانیہ میں جہاں یہ جرم اس قدر بڑے پیمانے پر ہے کہ پولیس اور ’’ سوکا‘‘ اپنے ایک چوتھائی وسائل اسٹریٹ کرائمز اور عورتوں کی اسمگلنگ سے نمٹنے پر خرچ کررہے ہیں۔ حکومت نے انسانی اسمگلنگ کے خلاف ایک مہم کا آغاز کیا ہوا ہے جس کا نام ’’ پنٹیا میٹر2ہے اس کوڈ نام سے شروع کیے جانے والے آپریشن کا مقصد خواتین اور بچوں کو جنسی تجارت کیلئے مجبور کرنے والے گروہوں کے سرغنوں کو نشانہ بنانے کے علاوہ اس گھنائونے کاروبار کا شکار ہونے والوں کی مدد اور اس مسئلے کے حوالےسے عوامی آگاہی بڑھانا، برطانیہ میں پیدا ہونے والےبچوں کی فروخت کے مسائل اور اس سے منسلک مجرم گروہوں کی نشاندہی کرنا ہے گزشتہ برس بھی اس طرز کا چار ماہ پر محیط آپریشن شروع کیاگیا تھا جس میں635افراد پر انسانی اسمگلنگ سمیت دیگر الزامات میں فرد جرم عائد کی گئی تھی جبکہ500قحبہ خانوں، مساج پارلروں ،گھروں اور دیگر جگہوں سے90کے قریب عورتوں اور لڑکیوں کو بازیاب کرایا گیا تھا ۔ ان میں سے نصف کے لگ بھگ خواتین مشرقی یورپ ، مشرق بعید، اور جنوبی امریکہ سے آئی تھیں اس آپریشن کے نتیجے میں ایک مستقل یونٹ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جس کے تحت ’’ ساکا‘‘ کے افسران اور پراسیکیوٹر کو ایک دوسرے سے منسلک کیاگیاتھا۔ جرائم کے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ وہ منظم جرائم کو اب اسلحہ اور منشیات سے جسم فروشی میں تبدیل ہوتا دیکھ رہے ہیں اور ان گروہوں کے چنگل میں پھنسی خواتین کا اس دلدل سے نکلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ‘‘ نیلام ہونے والی عورت کے ساتھ ایک نگران ہوتا ہے مختلف گروہوں کے لوگ جانوروں کی طرح اس کا جائزہ لیتے ہیں پھر’’ بولی‘‘ شروع ہوتی ہے( یاد رہے کہ ہالینڈمیں کم ازکم گزارہ الائونس ایک ہزار یورو کے لگ بھگ ہے) مغربی یورپ اور برطانیہ لائی جانے والی زیادہ ترخواتین مشرقی یورپ افریقہ اور مشرق بعید سے تعلق رکھتی ہیں۔ جنہیں سوشلزم کی چھتر چھائوں سے نکالنے کے بعد بہتر زندگی اور روزگار کاجھانسا دیاجاتا ہے لیکن مغربی یورپ پہنچنے کے بعد ان سے پاسپورٹ اور دوسری تمام دستاویزات لے لی جاتی ہیں اور پھر اکثر ان کو نہایت غلیظ مکانوں میں رکھا جاتا ہے بعد میں ان کو نیلام گھروں میں منتقل کردیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق مشرقی یورپ افریقہ اور مشرق بعید سے حالیہ اسمگل شدہ دس ہزار عورتوں کو برطانیہ میں فی کس ڈھائی ہزار پونڈ کے عوض منظم گروہوں کو فروخت کیاگیا ہے اور اس وقت وہ جنسی غلامی میں بندھی ہوئی ہیں۔جرائم پیشہ سنڈیکیٹ نے نامعلوم تعداد میں عورتوں اور بچوں کو پانچ سے دس ہزار پونڈ کے عوض بانڈ لیبر میں فروخت کردیا ہے۔ ادھر ایک رپورٹ کے مطابق پولینڈ اور رومانیہ سے تارکین وطن کے ایک سیلاب کی وجہ سے یورپ اور بالخصوص برطانیہ میں جرائم میں خوفناک اضافہ ہوگیا ہے اس سے برطانیہ کے ہوم آفس اور پولیس کے یہ خدشات درست ثابت ہو رہے ہیں کہ جرائم پیشہ افراد پولینڈ اور رومانیہ سے لندن منتقل ہورہے ہیں۔ پولیس کو تشویش ہے کہ جرائم پیشہ افراد دس سال سے کم عمر کے بچوں کو استعمال کررہے ہیں جن کے خلاف مقدمہ قائم نہیں کیا جاسکتا۔جرائم کی یہ کمائی واپس رومانیہ بھیجی جارہی ہے ادھر رومانیہ کی پولیس نے اعتراف کیا ہے کہ رومانیہ کے جرائم پیشہ لوگ برطانیہ بھاگ گئے ہیں( جیسے کچھ عرصہ قبل کیوبا سے جرائم پیشہ افراد امریکہ بھاگ آئے تھے) اور یہ لوگ جرائم سے جو کمائی کرتے ہیں رقم رومانیہ کے بینکوں میں جاتی ہے ان سے لگژری کاریں اور بنگلے خریدے جاتے ہیں رومانیہ کی پولیس انہیں ضبط کرنا چاہتی ہے لیکن شواہد کی عدم موجودگی میں ایسا نہیں کرسکتی ۔
میرے حساب سے جنسی تجارت کا یہ مسئلہ مغرب کا اپنا پیدا کیا ہوا ہے مشرقی یورپ میں سوشلزم کے ہوتے ہوئے وہاں ایک بھی ایسا جرم پیدا نہیں ہواتھا۔ سرمایہ دارانہ نظام کی ’’ خوبیوں‘‘ میں سے ایک خوبی جنسی تجارت بھی ہے سواب مغرب میں ان تلخ سچائیوں کا سامنا کرنے، انہیں پہچان کر قبول کرنے، اور پھر ان کے نقصان دہ ہونے کا اعلان کرنے کا حوصلہ ہونا چاہئے۔
ہم نہ کہتے تھے نہ عاشق ہواب اتنا تو بتا
جاکے ہم روتے ہیں پہروں پس دیوار کہ تو

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply