ایک تھا فیدل کاسترو۔۔

دستک
روبینہ فیصل
rubyfaisal@hotmail.com
ایک تھا فیدل کاسترو۔۔
جو لوگ سچ کے ساتھ جیتے ہیں ان کی موت بھی سچ ہو تی ہے۔ سی اے آئی نے اسے مارنے کے لئے تقریبا638 حملے کئے ۔مگر اس کا کردار آہنی ،اور دماغ تیزتھا سو وہ بچتا گیا ۔ کیوبا پر پانچ دہائیاں یعنی نصف صدی تک حکومت کی ، سرمایہ دار نہ نظام اسے ڈکٹیٹر کے نام سے یاد کر تا ہے اور میں اسے ایک سچا اور غیرت مند آدمی کہتی ہوں ۔ جو منافق نہیں تھا ، اور وقت کے ساتھ گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والا نہیں تھا ۔ اس لئے سیاست دان نہیں ہو سکتا تھا ، صرف ایک لیڈر تھا ۔ لیڈر چاہے ڈکٹیٹر ہو یا جمہوری ، وہ اپنے اخلاقی قد ،بہادری اور لوگوں کی خاطر کچھ کر نے کے جذبے سے سرشار ہو نے کی وجہ سے عام لوگوں سے بلند ہو تا ہے ۔ جس کی نظر آنے والے الیکشنوں تک نہیں بلکہ آنے والی نسلوں تک دیکھتی ہے۔
کچھ لوگ مطلب کی خاطر ایمان بیچ دیتے ہیں ۔عیاش اور خود غر ض لوگ کمزور ہو تے ہیں جلد ہی جھک جاتے ہیں ۔ کاسترو امریکہ سے فقط نوے میل دور تھا ، اس امریکہ کے جو دنیا پر حکومت کر تا ہے ، جس نے کمیونزم کو تہس نہس کرنے کی ٹھان رکھی تھی اور کر کے دکھا بھی دیا ۔ روس امریکی سازشوں سے نہ بچ سکا ۔ کاسترو کیسے جان لیوا حملوں سے بچتا رہا ؟ اور نوے سال تک امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ، سر اٹھا کر جیتا رہا،مرا تو اپنی طبعی موت مرا ،اسے نہ کوئی مار سکا ، نہ جھکا سکا اس کے بچنے کا جواب شائد تاریخ کے کسی موڑ پر کسی انسانی ذہن سے نکل کر صفحوں پر بکھر جائے ، مگر تاحال یہ ایک راز ہے ۔
امریکہ کی ناک کے نیچے بیٹھ کر اس سے دشمنی مول لی ، اپنا صدر مشرف تو یا د ہو گا سب کو ؟
“میں مجبور تھا ،اپنے ہی لوگوں پر ڈرونز کی اجازت دینے پر ، کیونکہ امریکہ نے دھمکی دی تھی کہ ہم تمھیں پتھر کے دور میں پہنچا دیں گے ۔ ” مشرف کی بزدلی کے اس فیصلے سے نہ ملک بچا اور نہ ہی ملکی غیرت ۔ منافق،بزدل اور عیاش لوگوں کی غیرت کی قیمت بھی ان کے چہروں کی طرح بدلتی ہے ۔ جب مطلب ہو تا ہے تو اسے بیچ کے پیروں میں بیٹھ جاتے ہیں اور جہاں مطلب نہیں ہو تا ، وہاں ماتھے پر تیوریا ں چڑھا کر ، مکے لہراتے ہیں اور اپنے غیرت مند ہو نے کے نعرے لگاتے ہیں ۔۔۔
اس صدی میں کاسترو جیسے لوگ ناپید ہیں ۔۔ کہا جا رہا ہے صدی کا آخری انقلابی مر گیا ہے ، میں سمجھتی ہوں صدی کا آخری سچا انسان مر گیا ہے ۔ امریکہ نے جب 1959 کاسترو انقلاب کے بعد کیوبا پر حسبِ معمول معاشی پابندیاں لگا دیں تو ملک میں ابتری اور غربت پھیلنے لگی ۔ پہلے امریکہ نواز ڈکیٹیر بٹیسٹسا تھا ، جس کے خلاف 26جولائی تحریک چلائی ۔ یاد رہے فیدل کاسترو کا تعلق ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تھا ، خود اس نے قانون کی تعلیم حاصل کی تھی مگر امپیریلزم کے خلاف لڑائی میں خود گوریلا جنگ کا سپاہی بن کر لڑا ، کسی کنٹینر میں بیٹھا ڈنڈ پیل نہیں لگا تا رہا ۔پہلی ناکام بغاوت کی صورت میں جیل بھی گیا اور ملک بد ر بھی ہوا ۔ مگر ہمت نہیں ہاری ، چی گویرا کے ساتھ دوبارہ مٹھی بھر لوگوں کے ساتھ بٹیسٹا جیسے آمر ، جس کی پیٹھ پر امریکہ بھی تھا،کا تحتہ الٹ دیا ۔ 1961میں ہو نے والا سی آئی اے کا مشہور ناکام آپر یشن “بے آف پگز”جس میں ایک دفعہ پھر مٹھی بھر انقلابیوں اور جنگجوؤں نے امریکہ جیسی طاقت کو اپنے ملک سے تین دن میں بھگا دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ایسی ناکامی تھی جسے امریکی اسٹیبلشمنٹ نے زندگی بھر برداشت نہیں کیا ،اور جس کا خمیازہ جان ایف کینڈی کو اپنی موت کی صورت چکانا پڑا ۔ حالانکہ وہ بھی ایک بڑے قد کا لیڈر تھا ، اس نے اسی وقت ناکامی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ :”
Victory has a hundred fathers
and defeat is an orphan…further statements,detailed discussions are not to conceal responsibilty because I am the responsible officer of the GOVT”
اپنی غلطی کو ماننا بڑا پن ہے ،وہ تھا ہی بڑے لوگوں کا دور ، کاسترو نے ہمیشہ اس شک کا اظہار کیا کہ کینڈی کو امریکہ نے اس ناکامی پرمعاف نہیں کیا تھا ۔۔
پھر کاسترو کے خلاف مونگوس سازش ہوئی۔ Fabian Escalanteجو پچاس سال تک کاسترو کی حفاظت کر تا رہا وہ ان حملوں کی تفصیل بتا تا ہے ۔ امریکہ اور سی آئی اے کی سازشوں کا حال پڑھیں تو اپنے سیاست دان بہت معصوم نظر آتے ہیں ۔ 50 ملین کا سالانہ بجٹ ،2500لوگ،جن میں 500امریکن بھی شامل تھے،فاؤنٹین پن سے لے کر آئس کریم تک،یہ سب اہتمام ایک کاسترو اور اس کی حکومت کے خاتمے کے لئے تھا ۔ کیا آپ یقین کر یں گے کہ شیخ رشید کس دیدہ دلیری سے سگار پیتے اور حکومت کے خلاف زہر فشانی کرتے پھرتے ہیں ۔ سی آئی اے ان کے پیچھے ہو تی تو یہی سگار ان کی موت کا باعث بن چکا ہو تا ۔ کیونکہ exploding cigarنامی آپریشن ، کاسترو پر ہو چکا ہے ۔کاسترو سگار کے شوقین تھے ، سی آئی اے نے اسی سگار کو ان کی موت بنانا چاہا ،مگر ناکام ہو ئے ۔
عمران خان بھی شکر منائیں کہ عورتوں کے ذریعے صرف انہیں بلیک میل کر کے شادی پر ہی مجبور کیا جاتا ہے ورنہ سی آئی اے نے تو کاسترکی محبوبہ کو استعمال کر کے کولڈ کریم کے ذریعے اسے زہر دینے کا منصوبہ بنا یا تھا ، یہ اور بات ہے وہ کاسترو تھا ، ان جیسا گھامڑ نہیں ، اسے محبوبہ پر اسی وقت شک ہو گیا: “پو چھا کیا تم زہر سے مجھے مارنے آئی ہو ؟”اس کا سر اثبات میں ہلنے کی دیر تھی کہ اپنا ریوایورنکال کر اسے تھما دیا اور کہا “لو مارو مجھے” ۔۔وہ مارنے کی بجائے کاسترو کے بازوؤ ں میں جھول گئی ۔۔یہ اور بات ہے کہ کاسترو اپنا پسٹل ہمیشہ خالی رکھتا تھا ، اس ڈر سے کہ کسی وہم کی وجہ سے کہیں اس سے گولی نہ چل جائے اور کوئی بے گنا ہ نہ مارا جائے ۔۔
بے گناہ اور عام لوگوں سے محبت کر نے والے نے ، آمر کا تختہ الٹنے کے بعد چوروں اور ڈاکوؤں کو الٹا لٹکایا اور صرف انہی کے خون تک انقلاب کو محدود رکھا ، باقی مخالفین کو یا قید میں ڈال دیا اور یا ملک بدر کر دیا ، اور پھر امریکہ نے انہی باغیوں کو تیا ر کر کے بے آف پگز پر کاسترو کا تختہ الٹنے کے لئے لا کھڑا کیا تھا ۔ کاسترو اپنے ملک میں مساوات اور انصاف دیکھنا چاہتا تھا ۔ بلکہ اس کا یہ خواب پو ری دنیا کے لئے تھا ، اسی لئے ساؤتھ اافر یقہ کی نسل پر ستی کے خلاف جنگ میں اس کا کلیدی کر دار تھا ، جسے نیلسن منڈیلا نے آخری وقت تک نہ صرف یاد رکھا بلکہ احسان مند رہا ۔ ہو گو شاویز جو خود ایک آہن تھا ، امریکہ کے حلق میں پھنسی ہوئی ایک اور ہڈی ، کاسترو کو اپنا اخلاقی باپ کہتا تھا ۔ایک رُخ چلنے والی ہوا کے مخالف جانے والے تعداد میں بہت تھوڑے بھی ہوں ، لاکھ مشکلوں میں گھر ے بھی ہوں ،پھر بھی قومی غیرت کی ، اپنے ملک کو امپیریلزم کی غلامی سے نجات دلانے کی ایک الگ شناخت رکھتے ہیں۔
کیوبا نے امریکی پابندیوں کے باوجود تعلیم، ثقافت اور صحت میں اپنا مقام ترقی یافتہ قوموں سے بھی بلند کر لیا ۔ آج دنیا میں کو ئی بھی آفت آئے ، کیوبا کے ڈاکٹرز سب سے پہلے وہاں پہنچتے ہیں اور سب سے آخر میں وہاں سے آتے ہیں ۔ یہ انسانیت کا درس انہیں ان کے لیڈر سے ملا ہے ۔ جسے دنیا ڈکٹیٹر کہتی ہے ۔ دوسری طرف جمہوریت کے نام پر دنیا کے بڑے ممالک ا نڈیا اور امریکہ بالترتیب ایک قاتل اور ایک مجرم کوسربراہانِ مملکت بنا چکے ہیں ۔
کیوبا کے آزادی کے لیڈ ر Jose Martiکا خواب تھا ،For all cubans and the good of all cubans۔۔کاسترو نے اسے پورا کر نے کی کوشش کی ۔ ٹرمپ جیسے چور نے اسے ڈکٹیٹر کہا ، کینڈا کے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو نے اپنے باپ کی یاد تازہ کی اور کاسترو کو larger than life کہا ۔آج کی دنیا میں ٹرمپ جیسے لوگ جیت جاتے ہیں شائد اسی لئے ٹروڈو اپنے باپ کے جنازے کو کندھا دینے والے کے جنازے میں شریک بھی نہیں ہو سکا ۔مگر کاسترو کا نام رہتی دنیا تک سچائی اور خودی کی مثال بن کر زندہ رہے گا ۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply